استکباری طاقتوں کی تحقیر و تذلیل ، شہید حسن نصر اللہ کی ابدی آرام گاہ کی طرف تشیع جنازہ

شہید نصراللہ کے جنازے کی تقریب، سب سے بڑھ کر محورِ مزاحمت کے لیے ایک طاقت کا مظاہرہ اور اس کے دشمنوں کے لیے ایک اسٹریٹجک شکست ثابت ہوئی۔ اس نے یہ ثابت کر دیا کہ مزاحمت کا راستہ نہ صرف رکے گا نہیں بلکہ مزید قوت کے ساتھ جاری رہے گا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: شہید نصراللہ کے جنازے کی تقریب، سب سے بڑھ کر محورِ مزاحمت کے لیے ایک طاقت کا مظاہرہ اور اس کے دشمنوں کے لیے ایک اسٹریٹجک شکست ثابت ہوئی۔ اس نے یہ ثابت کر دیا کہ مزاحمت کا راستہ نہ صرف رکے گا نہیں بلکہ مزید قوت کے ساتھ جاری رہے گا۔

فارس نیوز ایجنسی – سیاسی گروپ:

شہید سید حسن نصراللہ کا جنازہ آج لبنان اور دیگر ممالک کے عوام کی وسیع شرکت کے ساتھ نکالا گیا۔ یہ تقریب نہ صرف مزاحمتی محاذ کے اس عظیم رہنما کو الوداع کہنے کا موقع تھا بلکہ یہ ان کے راستے کو جاری رکھنے اور قابض قوتوں و عالمی استکبار کے خلاف مقاومت کے محاذ کو مزید مضبوط کرنے کا ایک واضح اعلان بھی تھا۔

مزاحمتی محاذ کے عالمی اتحاد کا مظاہرہ

لبنان اور دیگر ممالک سے عوام کی وسیع شرکت، خاص طور پر عالمِ اسلام کے مختلف خطوں سے سید شہید کے جنازے میں والہانہ شرکے اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ مقاومت محض ایک قومی یا علاقائی تحریک نہیں بلکہ ایک عالمی محور بن چکی ہے۔ اس تقریب میں شیعہ و سنی مسلمانوں، عیسائیوں اور دیگر سماجی گروہوں کی شمولیت نے صیہونی ریاست اور اس کے حامیوں کو واضح پیغام دیا کہ مقاومت محض کسی مخصوص مذہب یا قوم تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک انسانی اور عالمی نصب العین ہے۔

صہیونیستی حکومت کی پالیسیوں کی ناکامی

آج بیروت میں ہونے والی تقریب نے ثابت کر دیا کہ اسرائیل کے اقدامات، جن میں لبنان کے علاقوں پر فضائی حملے اور بیروت کی فضائی حدود میں جنگی طیاروں کی پرواز شامل ہے، مزاحمت کے حوصلے کو کمزور کرنے اور عوام میں خوف پیدا کرنے کی ایک ناکام کوشش تھی۔ اس تقریب میں عوام کی بھرپور شرکت اور صہیونیستوں کی دھمکیوں کو نظرانداز کرنا اس بات کا ثبوت ہے کہ اس حکومت کی مزاحمتی پالیسی ناکام ہو چکی ہے اور مزاحمتی محاذ اور اس کے حامی ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں ہیں۔

مزاحمتی محاذ کی ایران کی جانب سے بھرپور حمایت

تشیع جنازہ میں رہبر انقلاب کے پیغام میں حالیہ علاقائی حالات اور بین الاقوامی دباؤ کے خلاف مزاحمت کے مقام کے حوالے سے اہم نکات شامل تھے۔ اس پیغام میں فلسطین سمیت پورے مزاحمتی محاذ کی مکمل حمایت پر زور دیا گیا اور استعماری پالیسیوں کے خلاف ڈٹے رہنے کی تاکید کی گئی۔ مزاحمت کی کامیابیوں اور دشمنوں کی ناکامیوں کی طرف اشارہ اس بات کا عکاس ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران، بیرونی دباؤ کے باوجود، مزاحمتی گروہوں کی حمایت کی حکمت عملی پر قائم ہے۔

یہ پیغام ایک اسٹریٹجک پہلو بھی رکھتا تھا، جو مزاحمتی محاذ میں اتحاد برقرار رکھنے کی ضرورت پر زور دیتا ہے۔ موجودہ حالات کے پیش نظر، یہ نقطہ واضح کرتا ہے کہ  اسلامی جمہوریہ ایران اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ مغرب اور اس کے اتحادیوں کا دباؤ مزاحمتی تحریکوں کے درمیان اتحاد کو کمزور نہیں کرنا چاہیے۔ اس بات پر زور ایسے وقت میں دیا جا رہا ہے جب دشمن مختلف ذرائع، بشمول پابندیاں اور سفارتی دباؤ، استعمال کر کے مزاحمتی گروہوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر رہبر انقلاب کا پیغام

رہبر انقلاب کا پیغام خطے اور عالمی سطح پر یہ پیغام دے رہا تھا کہ ایران مشرق وسطیٰ میں ایک کلیدی کردار ادا کرتا رہے گا اور اپنی پالیسیوں کو استعماری قوتوں کے خلاف مزاحمتی تحریکوں کی حمایت کے دائرے میں جاری رکھے گا۔ مجموعی طور پر، یہ پیغام ایران کی اسٹریٹجک پالیسیوں پر قائم رہنے اور مختلف خطرات کے مقابلے میں مزاحمتی محاذ کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کو ظاہر کرتا ہے۔

استعماری طاقتوں کی تحقیر

اس تقریب میں ہونے والی تقاریر، خاص طور پر شیخ نعیم قاسم کے بیانات، واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی قوتیں نہ صرف امریکی دباؤ سے متاثر نہیں ہوتیں، بلکہ واشنگٹن کی کسی بھی مداخلت پسندانہ سازش کو ناکام بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ پابندیوں اور اقتصادی دباؤ کے آگے نہ جھکنے پر زور دینا، وائٹ ہاؤس کو یہ واضح پیغام دیتا ہے کہ محاصرے اور پابندیاں مزاحمت کی قوتِ ارادی کو توڑ نہیں سکتیں۔

شیخ نعیم قاسم کی جانب سے فوجی، سیاسی اور اقتصادی دباؤ کے خلاف ڈٹ جانے کے عزم کا اظہار اس بات کا ثبوت ہے کہ حزب اللہ اور مزاحمتی محاذ ہر طرح کے خطرات سے آگاہ ہیں اور اپنی استقامت کو ہر سطح پر مضبوط کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ امریکہ کے خطے میں بحران پیدا کرنے والے کردار کی نشاندہی، مشرق وسطیٰ میں مغربی اثر و رسوخ کی مخالفت سے متعلق حزب اللہ کی پالیسیوں کے تسلسل کو ظاہر کرتی ہے۔

یہ موقف خاص طور پر اس وقت اہمیت رکھتا ہے جب واشنگٹن، اسرائیل کی حمایت اور پابندیوں کے ذریعے مزاحمتی محاذ پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ، فلسطین کی حمایت پر زور دینا، خاص طور پر حالیہ دنوں میں مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں ہونے والی پیش رفت کے تناظر میں، یہ ثابت کرتا ہے کہ حزب اللہ خود کو اسرائیلی منصوبوں کے خلاف مزاحمت کے ایک اہم ستون کے طور پر دیکھتی ہے۔ حزب اللہ اس کوشش میں ہے کہ فلسطینیوں کی جبری بے دخلی جیسے منصوبوں کو ناکام بنایا جائے۔
مجموعی طور پر، ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے خطے اور دنیا میں مزاحمتی محور کی مقبولیت میں اضافہ
شہید سید حسن نصراللہ کا جنازہ مزاحمتی محاذ کی نرم طاقت کی علامت بن گیا۔ اس واقعے کی بین الاقوامی میڈیا میں وسیع کوریج نے ظاہر کیا کہ حزب اللہ کی مقبولیت اور قانونی حیثیت صرف لبنان تک محدود نہیں بلکہ دنیا بھر میں مظلوم قومیں اس تحریک کو عالمی استعماری طاقتوں کے خلاف جدوجہد کے ایک نمونے کے طور پر دیکھتی ہیں۔
اسرائیل کے لیے کوئی محفوظ جگہ نہیں
اس تقریب میں حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے رہنماؤں نے واضح کیا کہ صہیونی حکومت کی کسی بھی جارحیت کو بغیر جواب نہیں چھوڑا جائے گا۔ اسرائیل، جو یہ سمجھ رہا تھا کہ مزاحمتی رہنماؤں کو نشانہ بنا کر اس تحریک کو ختم کر سکتا ہے، اب یہ دیکھ رہا ہے کہ مزاحمت پہلے سے زیادہ عزم کے ساتھ اپنی قوت کو بڑھا رہی ہے اور اپنی عسکری صلاحیتوں کو مزید ترقی دے رہی ہے۔

فلسطین اور مزاحمتی محور سے تجدید عہد

اس تقریب میں لگائے گئے نعرے، پیغامات اور واقعات واضح طور پر اس بات کو ظاہر کرتے ہیں کہ فلسطین اب بھی مزاحمتی محاذ کی اولین ترجیح ہے۔ یہ جنازہ نہ صرف ایک شہید کمانڈر کی یاد میں تھا بلکہ فلسطین کی آزادی اور اسرائیلی قبضے کے خلاف جدوجہد کے عزم کی تجدید بھی تھی۔
آخر میں کہا جا سکتا ہے کہ سید حسن نصراللہ کا جنازہ محض ایک تدفین کی تقریب نہیں تھی، بلکہ یہ مزاحمتی محور کی طاقت کا ایک مظاہرہ اور اس کے دشمنوں کے لیے ایک اسٹریٹجک شکست تھی۔ یہ تقریب اسرائیل، امریکہ اور دیگر دشمنوں کے لیے یہ پیغام تھی کہ مزاحمت کا راستہ نہ صرف جاری رہے گا بلکہ پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھ آگے بڑھے گا، اور ہر شہید، اس جدوجہد کو مزید تقویت بخشے گا۔
کہ حزب اللہ کی حکمت عملی بیرونی دباؤ کے مقابلے میں ثابت قدم ہے اور وہ ہر طرح کے دباؤ کے خلاف اپنی مزاحمتی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم ہے۔

ایرانی اعلیٰ حکام کی موجودگی: ایک مضبوط پیغام

اس تقریب میں ایرانی اعلیٰ حکام کی شرکت ایک اور اہم نکتہ تھی۔ رہبر معظم انقلاب کے نمایندوں سے لے کر مجلس کے اسپیکر، وزیر خارجہ اور دیگر سیاسی جماعتوں کے نمایندے اس موقع پر موجود تھے، جس سے ایران کی مزاحمتی محور کی مسلسل حمایت کا واضح پیغام ملا۔ یہ اقدام ایسے وقت میں کیا گیا جب صہیونی حکومت حزب اللہ اور دیگر مزاحمتی گروہوں کے خلاف سنگین دھمکیاں دے رہی تھی، مگر ایرانی حکام کی بیروت میں موجودگی نے ثابت کر دیا کہ ایران ان دھمکیوں سے خوفزدہ نہیں اور بدستور صہیونی مخالف تحریکوں کی صفِ اول میں کھڑا ہے۔
یہ موجودگی لبنان اور حزب اللہ کے لیے بھی ایک اہم پیغام رکھتی تھی کہ ایران اب بھی مزاحمت کا سب سے مضبوط حامی ہے اور ہر قسم کے بیرونی دباؤ، پابندیوں اور عسکری خطرات کے باوجود اس کی پشت پناہی جاری رکھے گا۔

ایران اور لبنان کے اسٹریٹجک تعلقات

سفارتی لحاظ سے بھی، اس اقدام نے تہران اور بیروت کے گہرے اسٹریٹجک تعلقات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ یہ ثابت ہوا کہ ایران اور لبنان کے روابط عام سفارتی تعلقات سے کہیں بڑھ کر ہیں اور ان کا دائرہ محورِ مزاحمت کے فریم ورک میں آتا ہے۔

مزاحمتی محاذ میں اتحاد کی علامت

مزاحمتی تحریکوں کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کی علامت کے طور پر بھی اس تقریب میں ایرانی حکام کی شرکت انتہائی اہم رہی۔ عالمی سطح پر، یہ اقدام ایران کے اتحادیوں اور دشمنوں دونوں کے لیے ایک واضح پیغام تھا کہ تہران کی مزاحمتی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور مزاحمتی کمانڈرز کا قتل اس محاذ کو کمزور کرنے کے بجائے اس کے اتحاد اور ہم آہنگی کو مزید مضبوط کر رہا ہے۔
یہ تقریب ایران کے علاقائی کردار کی بھی ایک تصدیق تھی اور امریکہ و اسرائیل کی ان کوششوں کے خلاف ایک مضبوط پیغام تھا جو وہ مزاحمتی گروہوں کو کمزور کرنے کے لیے کر رہے ہیں۔