اسرائیلی ریاست کا ڈوبتا ستارہ - 1

اسرائیلی زوال، صہیونی دانشوروں، سابق افسران اور موجودہ حکام کے اعترافات

اس وقت - جبکہ صہیونی حکام، سیاستدان اور تجزیہ نگار یکے بعد دیگرے اسرائیل کے زوال اور شکست و ریخت کے بارے میں پیش گوئیاں کرنے میں ایک دوسرے سے پیچھے نہ رہنے کی دوڑ لگائے ہوئے ہیں - بعض ایسے پیمانے اور معیار بھی ہیں جو مستقبل قریب میں اس جعلی اور غاصب ریاست کے زوال کی تصدیق کرتے ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سنہ 1948ع‍ میں جب صہیونیوں نے مغرب اور دنیا پر تسلط کے لئے ان کی نوبنیاد تنظیم نام نہاد “اقوام متحدہ” نے مل کر مکینوں کی موجودگی میں فلسطین کو “یہودی ایجنسی” کے سپرد کر کے ان کی اعلان کردہ ریاست “اسرائیل” کو تسلیم کیا، تو اس وقت صہیونی اور ان کے مغربی سرپرست تصور بھی نہیں کر سکتے تھے کہ کسی وقت انہیں اسرائیل کے زوال اور نابودی کے بارے میں اظہار خیال کرنا پڑے گا۔ گوکہ 1990ع‍ کے عشرے میں بھی بعض صہیونی ربیوں نے اسرائیل کے زوال کی پیش گوئی کی تھی مگر یہ بحث تقریبا حالیہ ایک عشرے سے پوری سنحیدگی کے ساتھ شروع ہو چکی ہے۔

اسرائیل کی نابودی؛ صہیونیوں کا اعتراف
یہودی ریاست “اسرائیل” کی نابودی اور زوال کا اعتراف ایک ایسا موضوع ہے جسے بہت سے اسرائیلی ماہرین، مؤرخین اور صہیونی ذرائع ابلاغ بیان کر رہے ہیں۔
آنجہانی اسرائیلی اخبار نویس اور انتہاپسند عسکری تجزیہ نگار رونی ڈانیل (Roni Daniel) بھی جو صہیونی فوجی کمانڈروں کے ساتھ قریبی تعلق رکھتا تھا [اور گذشتہ سال چل بسا] کہتا ہے: “میں مطمئن نہیں ہوں کہ میرے بچوں کا اسرائیل کے اندر کوئی مستقبل ہوگا اور میں نہیں سمجھتا کہ وہ اسرائیل میں رہنا چاہیں گے”۔

مشہور صہیونی مؤرخ بینی مورس (Benny Morris) بھی اعتراف کرتا ہے کہ طویل عرصہ گذرنے کے بعد آخرکار یہ عرب اور مسلمان ہیں جو فاتح ہونگے اور یہودی اقلیت ہی رہیں گے یا پھر انہیں آزار و اذیت کا سامنا کرنا پڑے گا یا مارے جائیں گے۔ اس اثناء میں جو یہودی خوش قسمت ہونگے وہ یورپ اور امریکہ کی طرف نکل بھاگیں گے”۔

صہیونی سیاسی تجزیہ نگار اور مصنف جدعون [گدعون] لیوی (Gideon Levy) نے مئی 2021ع‍ میں فلسطینی مجاہدین کی “سیف القدس” کاروائی کے تیسرے روز – جب مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی ٹھکانے اور آبادیاں فلسطینی مقاومت [محاذ مزاحمت] کے میزائلوں کے محاصرے میں تھے جو ان پر برس رہے تھے – اعلان کیا کہ “اسرائیلیوں کو یورپ جانا چاہئے اور یورپیوں پر لازم ہے کہ ان کی پناہ کی درخواست منظور کریں، میرے خیال میں یہ اس سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ عرب ہمیں زندہ کاٹ کھائیں”۔

اسرائیلی اخبار نویس اور اداکار یارون لندن (Yaron London) – جس نے مظلوم فلسطینیوں کو انسان نما جانور اور قاتل کہا تھا – کہتا ہے: “میں اپنے پوتے کے ساتھ بات چیت کی تیاری کر رہا ہوں اور اس سے کہنا چاہتا ہوں کہ اسرائیل [مقبوضہ فلسطین] میں باقی رہنے والوں کی تعداد 50 فیصد سے زیادہ نہیں ہوگی البتہ 50 فیصد کے رہنے کی پیش گوئی خوش فہمی پر مبنی ہے، اور حقیقت اس سے کہیں زیادہ تلخ ہے”۔

صہیونی رپورٹر اور لکھاری آری شافیط (Ari Shavit) لکھتا ہے کہ “اسرائیل اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے اور کوئی بھی اس کی نابودی کا راستہ نہیں روک سکتا”۔
شائول آرئیلی (Shaul Arieli) جو صہیونی فوج کی ریزرو بٹالین کا سابق افسر اور عرب-اسرائیل تنازعے کا ماہر ہے، صہیونی اخبار ہا آرتص میں لکھتا ہے: “یہودی ریاست [اسرائیل] نے کچھ حکمت عملیوں کو اپنے اصولوں کے طور پر متعین کیا ہے جنہوں نے “ارض فلسطین” میں “اسرائیل ریاست کے قیام” کے کآز کو خطرے سے دوچار کر دیا ہے اور ہماری ریاست اس آرزو کی مکمل بربادی کی راہ پر گامزن ہے”۔

اسرائیلی فوجی مؤرخ اور قدس یونیورسٹی میں فوجی سائنس کا استاد مارٹن فان کارفیلڈ (Martin van Creveld) – جس نے مارچ سنہ 2010ع‍ میں کہا تھا کہ اسرائیلی ریاست کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں ممکن ہے کہ اسرائیل اپنے سینکڑوں ایٹم بموں کے ذریعے یورپ کو نیست و نابود کر دے اور کہا تھا کہ عربوں کو عنقریب فلسطین سے اجتماعی طور پر نکال باہر کیا جائے گا – نے حالیہ برسوں میں اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے کہ “اسرائیلی فوج کی تباہی سر سے پاؤں تک – یعنی اعلیٰ فوجی افسروں سے جوانوں اور سپاہیوں تک – شروع ہو چکی ہے؛ یہاں تک کہ ان میں بہت سارے فوجی منشیات کے عادی ہیں اور پیسہ کمانے کے لئے جاسوسی کرتے ہیں؛ نیز اسرائیل سے یورپ اور امریکہ کی طرف الٹی ہجرت کا بڑھتا ہؤا رجحان اس حقیقت کو نمایاں کرتا ہے کہ اسرائیل آخر کار ٹوٹ جائے گآ”۔

صہیونی مؤرخ عوفر ألوني (Ofer Aloni) نے گذشتہ ہفتے [مئی 2022 کے اواخر میں] اپنا ایک مضمون صہیونی اخبار ہا آرتص میں شائع کرکے لکھا: “اکیسویں صدی کا اسرائیل انتشار زدہ، حیرت زدہ اور پاگل ہے، ایک خوفناک منظر کی طرح؛ اسرائیل بھی ایک مذاق ہے، ایک [نامعقول] ہنسی ہے، جو نہایت دشوار دور سے گذر رہا ہے؛ بالکل ایک تخیّلاتی کتاب کی طرح! یہودی ریاست ایک خیالی منظرنامے کی پیروی کرتی ہے اور اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور غلطی سے معرض وجود میں آئی ہے”۔
عارضی ریاست کے پہلے وزیر خارجہ کے بیٹے کے خیالات بھی بہت دلچسپ ہیں۔ سنہ 1948ع‍ میں جعلی اسرائیلی ریاست کی تاسیس کے اعلامیہ پر دستخط کرنے والے، اسرائیل کے پہلے [بانی] وزیر خارجہ اور دوسرے وزیر اعظم موشے شاریت (Moshe Sharett) کے بیٹے 95 سالہ یعقوب شاریت (Yaakov Sharett) – جو اس وقت صہیونیت دشمنی کو اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں ـ نے کہا ہے “اسرائیل کی پیدائش ایک گناہ کا نتیجہ ہے! میں ایک مجرم ریاست کے ساتھ تعاون کرتا رہا ہوں۔۔۔ ہم تلوار کے زور پر جی رہے ہیں۔۔۔ میں اسرائیل کے مستقبل کو بہت زیادہ تاریک سمجھتا ہوں اور ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کرتا ہوں۔۔۔ یہودیوں پر لازم ہے کہ مقبوضہ فلسطین کو چھوڑ کر چلے جائیں، فلسطین میں ان کے لئے روشن مستقبل کی کوئی امید نہیں ہے”۔

یہ یہودی ریاست [اسرائیل] کے حتمی زوال کے بارے میں کچھ پڑھے لکھے یہودی دانشوروں کے خیالات اور استدلالات کے کچھ ہی نمونے تھے اور اگلے نمونے “اسرائیلی ریاست کا ڈوبتا ستارہ” کے عنوان سے سلسلہ وار مضامین اور رپورٹوں کے مجموعے کی صورت میں قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کئے جائیں گے۔

۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔