اسرائیلی زوال کا خوف، تمام صہیونیوں کا نقطۂ اشتراک
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: صہیونی جرنیل – جو غاصب ریاست کے تحفظ کے ذمہ دار ہیں – تسلسل کے ساتھ اس ریاست کے قریبی زوال کا اعتراف کر رہے ہیں جو محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کی طاقت اور مقبوضہ فلسطین کے اندر کی کامیاب کاروائیوں کا ثمرہ ہے۔
تزویراتی امور کے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ قدس شریف اور قبلۂ اول پر قبضہ جمانے والی جعلی ریاست کے زوال کی گھنٹی بجنے لگی ہے، صہیونی جرنیل بھی تسلسل کے ساتھ اپنی ریاست کے قریبی زوال اور شکست و ریخت کے سلسلے میں خبردار کر رہے ہیں، وہ فلسطین میں رونما والے واقعات و حادثات اور عارضی ریاست کو درپیش خطرات سے، دوسروں کی نسبت کہیں زیادہ بہتر واقفیت رکھتے ہیں۔
ماہرین کا خیال ہے کہ صہیونی ریاست “خوف زوال” سے دوچار ہو چکی ہے کیونکہ اس کی بنیادیں امریکی امداد سمیت بیرونی امداد پر استوار ہوئی ہیں؛ لہٰذا جب بھی یہ بنیادیں لرزنے لگتی ہیں یا بیرونی امداد میں کمی آتی ہے تو اس ریاست کا خوف دوچنداں ہو جاتا ہے۔
آج کی صورت حال پہلے سے بہت مختلف ہے، اسلامی جمہوریہ ایران، شام، یمن سمیت، جو اپنی خارجہ پالیسی میں فلسطین کے لئے ترجیحی حیثیت کے قائل ہیں نیز حزب اللہ لبنان اور فلسطینی مقاومت، نیز وہ ممالک جنہوں نے غاصب ریاست کے ساتھ سازباز کی ذلت قبول کرنے سے انکار کیا ہے، سب کے سب تسدیدی قوت سے لیس ہیں، اور غاصب ریاست ان کے خلاف جنگ شروع کرنے کی ہمت نہیں رکھتی، کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ کسی ایسی جنگ میں شکست کھائے گی۔
ادھر جعلی ریاست کو اندرونی سطح پر بھی شدید اختلافات کا سامنا ہے، فوج کے اندر بھی مختلف قسم کی رسوائیاں، یکے بعد دیگرے، منظر عام پر آ رہی ہیں، نیتن یاہو کا انتہاپسند اتحاد حالیہ انتخابات میں کامیاب ہؤا تو کچھ صہیونی اور ان کے بہی خواہوں کو امید تھی کہ پانچ سالہ سیاسی عدم استحکام ختم ہو جائے گا مگر اس بحران کی جڑیں بہت گہری ہیں، اور نیتن یاہو ابھی تک اپنی کابینہ تشکیل دینے میں ناکام رہا ہے۔ اس صورت حال نے ریاست کو درپیش بحران کو مزید خطرناک کر دیا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ دریائے اردن کے مغربی کنارے میں فلسطینی مقاومت کی کاروائیوں کی وجہ سے
مقبوضہ نوآباد بستیوں کو درپیش بدامنیاں صہیونی ریاست کے وجود کے لئے سنجیدہ خطرے میں بدل گئی ہیں۔ صہیونی جرنیل خبردار کر رہے ہیں کہ اگر غاصبوں کی نئی کابینہ حالات کو حقیقی معنوں میں تبدیل نہ کر سکے تو اس ریاست کا زوال اور مکمل خاتمہ حتمی ہے۔
صہیونی ریاست کو ایک طرف سے اندرونی لحاظ سے مسلح انتفاضہ تحریک اور سیاسی عدم استحکام کا سامنا ہے، اور دوسری طرف سے مقاومت کے طاقتور میزائلوں کا سامنا ہے؛ مزید برآں یہ کہ صہیونی فوج کے اندر دراڑیں پڑ گئی ہیں: ایک دھڑا نیتن یاہو کی سرکردگی میں دائیں بازو کے ساتھ مل گیا ہے اور دوسرا دھڑا سابق عبوری وزیر اعظم یائیر لاپید کے ساتھ ہے؛ اور اس سے زیادہ خطرناک مسئلہ یہ کہ صہیونی نوآبادکار صہیونی فوج پر اپنا اعتماد کھو چکا ہے۔
تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ صہیونی ریاست پورے فلسطین میں اٹھنے والی مسلح انتفاضہ سے نمٹنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ جعلی ریاست نے اپنی فوج کی 25 یونٹیں اور اسپیشل گارڈ کی 13 یونٹیں تعینات کر لیں لیکن مغربی کنارے میں جاری انتفاضہ تحریک پر قابو نہ پا سکی۔
مبصرین کا خیال ہے کہ تمام فلسطینی مسلحانہ مقاومت کے خواہاں ہیں کیونکہ اس قوم نے اپنا وطن واپس لینا کا عزم کر ہی لیا ہے، چنانچہ وہ نہ غاصبوں کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے سمجھوتوں کو اہمیت دیتے ہیں نہ ہی بین الاقوامی قراردادوں کے لئے کسی وقعت کے قائل ہیں؛ سب سے اہم بات یہ کہ فلسطینی جرنیلوں کا یہ بھی اعتراف ہے کہ زیادہ تر فلسطینی، جو دوسری انتفاضہ تحریک کے بعد پیدا ہوئے ہیں، موت سے خوفزدہ نہیں ہوتے؛ اور یہ غاصبوں کے لئے سب سے زیادہ بری خبر ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں