اسرائیل امداد کی آڑ میں فلسطینیوں کی منظم نسل کشی کا مرتکب ہو رہا ہے:ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈر
فاران: بین الاقوامی تنظیم “ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز” نے ایک ہولناک انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کی مشترکہ امدادی پالیسی نہ صرف ناکام ہے بلکہ اسے فلسطینی عوام کی جبری بے دخلی اور نسل کشی کے ایک منظم منصوبے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ امداد کو انسانوں کی مدد کے بجائے ظلم کا ہتھیار بنا دیا گیا ہے۔
یہ بیان اُس وقت سامنے آیا جب آج اتوار کی صبح قابض اسرائیلی افواج نے جنوبی غزہ کے علاقے “مواصی رفح” میں ایک امدادی مرکز پر اندھا دھند گولیاں برسائیں، جہاں غزہ کے بھوکے اور مجبور عوام خوراک حاصل کرنے کے لیے جمع تھے۔ اس مجرمانہ حملے میں کم از کم 30 فلسطینی شہید اور 150 زخمی ہو گئے۔
تنظیم نے واضح کیا کہ اسرائیل گزشتہ انیس ماہ سے غزہ کو مکمل انسانی محرومی کا نشانہ بنائے ہوئے ہے۔ امداد کی ترسیل کا عمل قابض ریاست کی مرضی سے مخصوص علاقوں تک محدود کر دیا گیا ہے، جہاں بڑی تعداد میں شہریوں کو جمع کر کے ان پر براہ راست فائرنگ کی جاتی ہے۔ یہ طرز عمل انسانیت کے خلاف سنگین جرم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔
ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے امدادی ٹرکوں کی آمد پر سخت پابندیاں عائد ہیں اور جو امداد داخل ہونے دی جا رہی ہے وہ نہایت معمولی اور علامتی ہے۔ امداد کو بطور ہتھیار استعمال کرنا بین الاقوامی قانون کی صریح خلاف ورزی ہے اور انسانیت کے خلاف جرم کے زمرے میں آتا ہے۔
عینی شاہدین نے بتایا کہ اسرائیلی فوج نے امریکی امداد کی تقسیم کے مقام پر نہ صرف زمینی حملہ کیا بلکہ ڈرون طیاروں کے ذریعے بھی فائرنگ کی گئی۔ اس کے علاوہ وہ افراد بھی فلسطینیوں پر گولیاں چلاتے پائے گئے جو ایک امریکی سکیورٹی کمپنی کی وردی پہنے ہوئے تھے، جسے امداد کے تحفظ پر مامور کیا گیا تھا۔ یہ انکشاف امریکہ کے کردار کو ایک بار پھر بے نقاب کرتا ہے، جو نہ صرف سیاسی اور عسکری سطح پر اسرائیل کی پشت پناہی کرتا ہے بلکہ زمین پر بھی اس کے جرائم میں شریک ہے۔
اسرائیل کی جانب سے یہ حملہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب امریکہ عالمی سطح پر فلسطینیوں کی امداد کا دعویٰ کر رہا ہے۔ لیکن درحقیقت یہ امداد اب فلسطینیوں کے قتل عام کے لیے ایک پردہ بن چکی ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اسرائیل نے دانستہ طور پر امدادی گزرگاہیں بند کر کے 24 لاکھ فلسطینیوں کو قحط کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ غزہ کے سرکاری میڈیا دفتر کے مطابق، گزشتہ 90 دنوں سے خوراک اور دیگر امدادی سامان کا داخلہ مکمل طور پر بند ہے۔
27 مئی سے قابض اسرائیلی انتظامیہ نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیموں کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک جعلی انسانی امدادی منصوبے کا آغاز کیا، جسے “غزہ انسانی امداد فاؤنڈیشن” کے نام سے پیش کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ اسرائیل اور امریکہ کی سرپرستی میں چلایا جا رہا ہے، لیکن اقوام متحدہ نے اسے مسترد کر دیا ہے۔
اس منصوبے کے تحت امداد جنوبی غزہ کے ان علاقوں میں تقسیم کی جا رہی ہے جنہیں “محفوظ زون” قرار دیا گیا ہے۔ مگر ان علاقوں میں امداد کی فراہمی نہایت قلیل ہے اور عوام کی بھوک سے تڑپتی بھیڑ کو سنبھالنا ممکن نہیں رہا۔ جیسے ہی بھوکے فلسطینی مدد کے لیے جمع ہوتے ہیں، قابض فوج ان پر فائرنگ کر دیتی ہے، جس کے نتیجے میں مزید شہادتیں اور زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اسرائیل کو امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے، اور 7 اکتوبر 2023 سے جاری اس وحشیانہ نسل کشی میں اب تک 1 لاکھ 78 ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت معصوم بچوں اور بے گناہ خواتین کی ہے۔ 11 ہزار سے زائد فلسطینی اب بھی لاپتا ہیں جبکہ لاکھوں بے گھر ہو کر کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
تبصرہ کریں