اسرائیل اپنی قبر خود کھود رہا ہے؛ صہیونی تجزیہ نگار
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: مشہور عربی روزنامے رَأیُ الیوم میں چھپنے والے ایک مضمون میں “زہیر اندرواس” نے لکھا ہے کہ “ویسے تو اسرائیلی فوج یہودی ریاست کے لئے مقدس گائے کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ وہ 1948ع میں فلسطینیوں کے گھر بار کے کھنڈرات پر قائم ہونے والی اسرائیلی ریاست کی محافظ ہے، تاہم اس وقت ادھر ادھر سے کچھ صدائیں سنائی دینے لگی ہیں جو اسرائیلی ریاست کو تحفظ فراہم کرنے والی اس فوج پر تنقید کر رہی ہیں”۔
بطور مثال اسرائیلی تجزیہ نگار اور قانون دان “رینا عناتی” نے “زمانِ اسرائیل” نامی اخباری ویب گاہ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں مقبوضہ سرزمین میں اسرائیلی افواج کے رویوں پر تنقیدی صداؤں کا جائزہ لیا ہے۔ وہ فوج جو صہیونی-یہودی بستی نشینوں (Jewish Settlers) کی حفاظت کے بہانے بے شمار خلاف ورزیوں کا ارتکاب کر رہی ہے، فلسطینی عربوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اور اسرائیلی باشندوں کے درمیان اختلاف و انتشار کا سبب بن رہی ہے؛ چنانچہ آج مقبوضہ سرزمین میں ایک نیا طبقہ معرض وجود میں آیا ہے جواسرائیل اور اسرائیلی فوج سے نفرت کرتا ہے؛ کیونکہ یہ فوج مکمل طور پر “جماعتی رجحانات کی حامل، سلامتی کے تقاضوں سے نا آشنا، غیر عسکری اور غیر پیشہ ورانہ منصوبے” پر کام کررہی ہے اور اس نام نہاد فوج نے غصب اور قبضے کے حامیوں اور اس کے مخالفوں کے درمیان پھنسا دیا ہے۔عناتی نے وضاحت کی ہے کہ جو خطرناک تبدیلی جو حالیہ برسوں میں اسرائیلی فوج کے درمیان معرض وجود میں آئی ہے، یہ ہے کہ یہ فوج رفتہ رفتہ ایک چھوٹے اور خطرناک قوم پرست یہودی ٹولے میں تبدیل ہوچکی ہے جو نسل پرستی کو ہوا دے رہا ہے۔
اس تجزیہ نگار نے لکھا ہے: “موجودہ غاصب فوج کا اصل مقصد یہودی بستی نشینوں/ آبادکاروں کی حفاظت کرنا اور غصب اور قبضے کو تحفظ دینا ہے؛ یہی وہ چیز ہے جس نے صورت حال کو ان فوجیوں کے لئے ناقابل برداشت بنا دیا ہے، جن پر ہیگ کی بین الاقوامی فوجداری عدالت (International Criminal Court) کے معیارات کے مطابق، آباد کاروں کی حمایت کرنے پر جنگی جرائم کا الزام ہے”۔
عناتی نے لکھا ہے: “اس کے باوجود کہ فوج اور آبادکاروں کے درمیان کچھ اختلافات بھی ہیں مگر جو کچھ قابض فوج اور آباد کار یہودی، فلسطینیوں کے خلاف کر رہے ہیں، اس میں بنیادی طور پر فرق کرنا مشکل ہے اور متاثرین بالآخر فلسطینی ہی ہیں؛ لیکن اس سے اس حقیقت پر پردہ ڈالنا نہیں ڈال سکتا کہ قابض فوج بتدریج مذہبی دائیں بازو کے منصوبوں کے نفاذ کا ذریعہ اور انتہا پسند یہودیوں کی بستیوں کی تعمیر کا باعث بنی ہوئی ہے”۔
عناتی نے تاکید کی ہے کہ “یہ صورت حال اسرائیلیوں کو اس خطرناک نتیجے پر پہنچاتی ہے جس نے آخرکار انہیں پہلے سیاسی قتل پر آمادہ کیا: “[سابق صہیونی وزیر اعظم] اسحاق رابین کا قتل”؛ جس کا مقصد فلسطینیوں کے ساتھ سیاسی حل کا سد باب کرنا تھا، وہ سیاسی حل جس کے نتیجے میں اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی اراضی کا قبضہ ختم کیا جانا تھا”۔
انھوں نے مزید لکھا ہے: “وہ اسرائیلی جو فوج کی طرف سے بستی نشینوں اور آبادکاروں کی خدمت اور ان کے مقاصد کے حصول کے منصوبوں میں فوج کی مداخلت کے خلاف ہیں، وہ – جانی اور مالی نقصانات کو آشکار کرنے والی – اس پالیسی کے اخراجات ادا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ مسئلہ – مزید – فوج تک محدود نہیں ہے بلکہ اب تو حکومت بھی مجموعی طور پر اپنے قوانین اور قانون سازیوں کو اسی بستی نشین آبادکار اقلیت کی خدمت پر مرکوز کرتی ہے”۔
اس اسرائیلی قانون دان نے مزید لکھا ہے: “کہا جا سکتا ہے کہ تل ابیب اس چھوٹے شدت پسند ٹولے کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہے اور اس صورت حال کا نتیجہ یہ ہے کہ “اسرائیل اپنے ہاتھوں اپنی قبر کھود رہا ہے”۔
عناتی کے بقول، قابض فوج نے جو امیج حاصل کیا ہے اس کی اصل تفصیل یہ ہے کہ وہ ’’بستی نشینوں کی فوج‘‘ بن چکی ہے جو آبادکاروں کے مقاصد کی تکمیل اور ان کے منصوبے کے نفاذ پر عمل پیرا ہے، لیکن اسی حال میں وہ ایک جھوٹا اور مکارانہ چہرہ دنیا کو دکھا رہی ہے اور ایک کانٹا ہے اسرائیلیوں کی آنکھوں میں جو اس وقت اس حقیقت کو بخوبی سمجھنے لگے ہیں کہ پوری اسرائیلی ریاست آبادکاروں کی باندی بن چکی ہے”۔
اس یادداشت کے آخر میں بیان ہؤا ہے کہ “اسرائیلی فوج یہودی ریاست کے لئے مقدس گائے کی حیثیت رکھتی ہے لیکن صہیونیوں کی سرکاری اطلاعات و معلومات کے مطابق، اس فوج پر اس ریاست اور اس کے باشندوں کے اعتماد کی شرح – خاص طور پر ایران اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ بھرپور تصادم کی صورت میں – بری طرح گر گئی ہے۔ اسرائیلی فوج پر اسرائیلیوں کی اعتماد کمزور ہونے کی وجہ یہ ہے کہ فوج حکومت سے بڑا بجٹ وصول کرتی ہے اور یہ عسکری ادارہ ان ریٹائر ہونے والوں کو گرانٹ اور الاؤنس دیتا ہے جنہوں نے اپنی ملازمت مکمل کر لی ہے، اور ان کو ملنے والی رعایتیں اور مالی معاونتیں اسرائیلی ریاست کے دیگر محکموں کے ملازمین کے مقابلے میں ان کی خدمات کے سالوں کے مطابق نہیں ہے۔ چنانچہ یہ مسئلہ، اور ہر سال ان رقوم میں اضافے پر فوج کے اصرار نے عبرانی میڈیا اور صہیونیوں کی ایک بڑے حصے آبادی میں ایک تنقیدی مہم کو جنم دیا ہے، جو فوج اور اس کے سبکدوش فوجیوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے اٹھائے جانے والے اخراجات بجٹ کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ تو جب فوج شکار اور نشانہ بن جاتی ہے تو اس حکومت کا ایک اہم ستون ان لوگوں کی نظروں میں لرز جاتا ہے جسے وہ حکومت اور اس کے باشندے مقدس گائے سمجھتے تھے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں