اسرائیل صرف “آربل یہود” کی آزادی کا خواہاں کیوں ہے؟

حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان اختلاف اس وقت شدت اختیار کر گیے جب صہیونی ریاست نے شمالی غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی واپسی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، کیونکہ "آربل یہود" کی رہائی نہیں ہوئی تھی، جو کہ اب بھی مزاحمتی گروہوں کی قید میں ہے۔

فاران: حماس اور صہیونی حکومت کے درمیان اختلاف اس وقت شدت اختیار کر گیے جب صہیونی ریاست نے شمالی غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی واپسی کی اجازت دینے سے انکار کر دیا، کیونکہ “آربل یہود” کی رہائی نہیں ہوئی تھی، جو کہ اب بھی مزاحمتی گروہوں کی قید میں ہے۔
گروپ فارس پلس: حماس کی جانب سے چار صہیونی قیدیوں کی رہائی کے بعد، جو گزشتہ روز عمل میں آئی، اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان میں اعلان کیا کہ “شمالی غزہ میں فلسطینیوں کی واپسی کی اجازت نہیں دی جائے گی اور یہ فیصلہ “آربل یہود” کی رہائی سے مشروط ہے، جو ہفتے کے روز آزاد ہونے والی تھیں۔”
عبرانی زبان کے اخبار یدیعوت آحارونوت کے مطابق، گزشتہ رات نیتن یاہو اور اسرائیلی سیکیورٹی اداروں کے سربراہان کے درمیان ایک اجلاس ہوا، جس میں “آربل یہود” کی رہائی پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس کے علاوہ، اسرائیلی ریڈیو اور ٹیلی ویژن تنظیم نے اطلاع دی ہے کہ آربل یہود کی رہائی کے لیے اسرائیل اور ثالثوں کے درمیان بات چیت جاری ہے اور انہیں ہفتے سے پہلے آزاد کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ریڈیو اور ٹیلی ویژن تنظیم کے مطابق، اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں توقع ہے کہ آربل یہود کو آئندہ چند دنوں میں، بلکہ ہفتے سے پہلے ہی، رہا کر دیا جائے گا۔
آربل یہود کون ہیں؟
آربل یہود جون 1995 میں کیبوتس نیر اوز میں پیدا ہونے والی خاتون ہیں، جو مشرقی خان یونس اور غزہ کی پٹی کے قریب واقع ہے۔ ان کے دو بھائی نتا اور دولف تھے، جو 7 اکتوبر 2023 کو طوفان الاقصی آپریشن کے دوران غزہ کے نزدیک صہیونی بستیوں میں مارے گئے۔
ان کے دادا اور دادی نے کیبوتس نیر اوز کو قائم کیا تھا، اور آربل اپنی فیملی کے ساتھ وہیں رہتی تھیں۔ کیبوتس ایک قسم کی اجتماعی بستی ہوتی ہے جہاں مکین زرعی تعاون کی بنیاد پر مشترکہ زندگی گزارتے ہیں۔
بعد میں، آربل کے والد نے اسرائیلی شہر ریشون لزیون منتقل ہو کر وہیں زندگی گزارنا شروع کر دی، مگر خود آربل کا نیر اوز میں ایک اپارٹمنٹ تھا، جہاں وہ اپنے شریک سفر آریل کونو کے ساتھ رہایش پذیر تھے۔ 7 اکتوبر کے حملے میں، مزاحمتی جنگجوؤں نے دونوں کو قیدی بنا لیا۔
آربل یہود ایک خلائی اور فلکیات کے استاد کے طور پر کام کرتی رہیں ہیں اور گروبتک ٹیکنالوجی کمپلیکس میں اشکول ریجنل کونسل کے تحت تدریس کے فرائض انجام دے رہہ تھیں، جہاں وہ طوفان الاقصی آپریشن کے وقت تک ملازم رہیں۔
اسرائیلی حکومت اور عبرانی میڈیا کی جانب سے آربل یہود کی رہائی پر خاص توجہ دی جا رہی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی اسرائیل کے لیے غیر معمولی اہمیت ہے۔
آربل یہود کے بارے میں اسرائیلی میڈیا کا مؤقف
اسرائیل کے چینل 12 نے اپنی انسٹاگرام پوسٹ میں لکھا کہ آربل یہود کچھ عرصہ اسرائیل کے مرکزی علاقے میں مقیم رہیں ، لیکن چھ سال پہلے دوبارہ نیر اوز واپس آ گییں انہیں خلائی تحقیق اور فلکیات میں گہری دلچسپی تھی اور انہوں نے اس شعبے میں تربیت بھی حاصل کی تھی۔
یہ تفصیلات حماس اور جہاد اسلامی کے بیانات سے مطابقت رکھتی ہیں، جن کا کہنا ہے کہ آربل یہود نے اسرائیلی فوج میں تربیت حاصل کی تھی اور وہ اسرائیلی فوج کے خلائی پروگرام کا حصہ تھیں۔ اسی وجہ سے اسرائیلی حکومت ان کی رہائی پر اتنا زور دے رہی ہے اور شمالی غزہ میں فلسطینیوں کی واپسی کو ان کی آزادی سے مشروط کر رکھا ہے۔
آریل کونو کے بھائی بھی اسیر
7 اکتوبر کی طوفان الاقصی کارروائی میں آریل کونو کے بھائی ڈیوڈ کونو بھی مزاحمتی جنگجوؤں کے ہاتھوں قید ہوئے، اور وہ تاحال اسیری میں ہیں۔ البتہ آریل کونو کے شوہر شارون اور ان کی جڑواں بیٹیاں، اما اور یولی، نومبر 2023 میں اسرائیلی اور فلسطینی قیدیوں کے تبادلے کے تحت رہا کر دی گئے تھے۔
آربل کا بھائی جنگ میں مارا گیا
اسی آپریشن کے دوران، آربل یہود کا بھائی، دولیف یہود، مزاحمتی فورسز کے ہاتھوں مارے گیئے تھے اس کی لاش 3 جولائی 2024 کو اسرائیلی ایتان گروپ (جو لاپتہ صہیونیوں کو تلاش کرتا ہے) نے نیر اوز بستی سے برآمد کی۔

رہائی پر تنازع کی وجوہات

عبرانی اخبار یدیعوت آحارونوت کے مطابق، اس تنازع کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل چاہتا تھا کہ آربل یہود کو دوسرے مرحلے میں خواتین قیدیوں کے ساتھ رہا کیا جائے، جبکہ حماس اور جہاد اسلامی کا مؤقف ہے کہ آربل یہود ایک فوجی ہے، نہ کہ عام شہری۔
معاہدے کے مطابق پہلے غیر فوجی قیدیوں کی رہائی ہونی تھی۔ لیکن اسرائیل انہیں ایک عام شہری قرار دے رہا ہے، جبکہ ان کی پیشگی سرگرمیاں، فوجی تربیت اور ان کے قید ہونے کے حالات ان کے فوجی ہونے کی تصدیق کرتے ہیں۔
جہاد اسلامی کے عسکری ونگ، سرایا القدس نے بھی اس مؤقف کی حمایت کی اور کہا کہ آربل یہود زندہ ہے اور انہیں معاہدے کے تحت بعد کے مراحل میں رہا کیا جائے گا۔