اسرائیل طوفان الاقصیٰ سے پہلے کیا سوچ رہا تھا؟

ان دستاویزات کے مطابق ایک تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ غزہ پر عارضی قبضہ کر لیا جائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں مصر، اردن اور اسراٸیل کے درمیان ایک مشرکہ سیاسی انتظامات کا لاٸحہ عمل وضع کیا جائے، جس کے تحت تل ابیب اس طرح کے ڈھانچے کا وفاقی دفتر ہو۔

فاران: اسراٸیل کی جانب سے غزہ پر آتش و آہن کی جو بارش برس رہی ہے، اسے ایک ماہ سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔ بعض کا خیال ہے کہ اسراٸیل کے یہ جراٸم آپریشن ”طوفان الاقصیٰ“ کی وجہ سے ہیں، لیکن حال ہی میں سات صفحات پر مشتمل اسراٸیل کی ایک خفیہ دستاویز منظر عام پر آٸی ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ غزہ پر اسراٸیلی جارحیت کا منصوبہ طوفان اقصیٰ سے پہلے کا تھا۔ اسراٸیل نے اس حوالے سے تین منصوبوں پر کام کیا تھا۔ اگر حماس نے طوفان الاقصیٰ کے منصوبے پر نہ بھی عمل کیا ہوتا، تب بھی اسراٸیل نے اپنے منصوبے کے تحت غزہ پر جارحیت کرنا ہی تھی۔ حاصل شدہ دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اسراٸیل نے 2024ء کے ابتداٸی مہینوں میں ہی غزہ پر مکمل جارحیت کا منصوبہ بنا لیا تھا۔

بین الاقوامی امور کے ماہر اور اسراٸیلی دستاویزات کا مشاہدہ کرنے والے افراد میں سے ایک ماہر سعد اللہ زارعی کے کہنے کے مطابق اسراٸیلی حکومت الاقصیٰ طوفان سے پہلے کئی ماہ سے مسلسل اندرونی بحران کا شکار چلی آرہی تھی۔ اس بحران نے اسراٸیلی معاشرے کو دو طبقات میں تقسیم کر دیا تھا، جو ایک دوسرے کے مدمقابل آچکے تھے۔ تل ابیب کی سڑکیں دس ماہ سے ان اختلافات کا منظرنامہ پیش کر رہی تھیں۔ دوسری جانب اسراٸیل، عربوں کے ساتھ تعلقات میں نارملاٸیزیشن کا ایک منصوبہ رکھتا تھا، جس کی تکمیل میں ابھی دو سال باقی تھے اور تعطل کا شکار تھا۔ اسراٸیلی حکومت اس تعطل کا سبب مسئلہء فلسطین کو سمجھتی تھی، لہٰذا اس کی خواہش تھی کہ اس مسئلے کو سرے سے ہی ختم کر دیا جائے، جس کے لیے اس کا خیال تھا کہ فلسطینیوں کی مزاحمتی تحریک کو کچلنا ضروری ہے۔

اس حوالے سے حماس کے خلاف کاررواٸی اسراٸیل کے ایجنڈے میں شامل تھی۔ زارعی کے مطابق انہوں نے سات صفحات پر مشمل اس دستاویز میں جو دیکھا، اس کی رو سے اسراٸیل کے سامنے تین طرح کے منصوبے تھے۔ اس کا پہلا منصوبہ غزہ پر مکمل قبضہ تھا۔ یہ قبضہ غزہ کے مکینوں پر شدید بمباری کے ذریعے ان کا خاتمہ کرکے یا انہیں غزہ سے عارضی طور پر صحرائے سینا کی طرف دھکیل کر حاصل کیا جا سکتا تھا۔ منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کو اس شرط پر واپس اپنے علاقے میں داخل ہونے کی اجازت ملنی تھی کہ وہ واپس آکر کسی مزاحمتی کاررواٸی میں حصہ نہیں لیں گے۔ اسراٸیل کا دوسرا منصوبہ غزہ میں بھی مغربی کنارے کی طرز پر ایک ایسا انتظامی ڈھانچہ تشکیل دینا تھا، جس کی سکیورٹی کے تمام امور اسراٸیل کے پاس ہوں۔

اس فارمولے کے تحت مغربی کنارے کو بیس حصوں میں تقسیم کیا جانا تھا۔یہی فارمولا غزہ کے لیے بھی تجویز کیا گیا تھا، جس کے تحت اسے بھی کئی حصوں میں بانٹنا تھا۔ جن کا انتظامی کنٹرول اسراٸیل ہی کے پاس ہونا تھا۔ مقصد یہ کہ اسراٸیل کو فلسطینیوں کی طرف سے کسی طرح کی بھی مزاحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ دستاویزات کے مطابق اگر اسراٸیل غزہ پر مغربی کنارے کی طرز کا نظام نافذ نہ کرسکا تو پھر وہ غزہ کی پٹی پر مکمل قبضہ کر لے گا اور اس کا انتظام مختلف فلسطینی تنظیموں کے مابین تقسیم کر دے گا، تاکہ وہ اس تقسیم کی وجہ سے باہم برسرپیکار رہیں اور فلسطینیوں کے ہاتھوں سے ہی فلسطینیوں کو نقصان پہنچتا رہے۔

ان دستاویزات کے مطابق ایک تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ غزہ پر عارضی قبضہ کر لیا جائے اور اقوام متحدہ کی نگرانی میں مصر، اردن اور اسراٸیل کے درمیان ایک مشرکہ سیاسی انتظامات کا لاٸحہ عمل وضع کیا جائے، جس کے تحت تل ابیب اس طرح کے ڈھانچے کا وفاقی دفتر ہو۔ اسراٸیل نے غزہ پر مکمل کنٹرول کے لیے جو منصوبہ پہلے سے بنایا ہوا تھا، حماس نے طوفان الاقصیٰ کے ذریعے اسے الٹ پلٹ کر رکھ دیا اور اسراٸیل کو ایسی دلدل میں پھنسا دیا کہ اب اس کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ ”نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔”