اسرائیل کا اندرونی محاذ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو رہا ہے
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گو کہ بعض عرب ریاستوں کی طرف سے اسرائیل کی بحالی کی کوششیں ہورہی ہیں، کیونکہ علت [سبب Cause] کی عدم موجودگی مُسَبَّب (Effect) کے خاتمے کا تقاضا کرتی ہے، اور عرب ریاستوں کے وجود کا فلسفہ صہیونی ریاست کو تحفظ دینے سے عبارت ہے چنانچہ عرب ریاستوں کو تشویش ہے کہ گرتی ڈوبتی صہیونی ریاست کا زوال ان کے حتمی زوال کا باعث بنے گا۔ لیکن ان کی بہتیری کوششوں کے باوجود اسرائیل کی بیماری اندرونی، موروثی اور لاعلاج ہے چنانچہ اسرائیل کے لئے بنائی گئی ان ڈھالوں [یعنی عرب ممالک پر مسلط قبائلی حکومتوں] کا انجام بخیر ہونا گویا مزید ممکن نہیں ہے۔
جدیدترین رپورٹوں کے مطابق صہیونی ریاست کو 2006ع میں لبنان پر جارحیت اور حزب اللہ کے ہاتھوں شدید پٹائی برداشت کرنے کے بعد سے “گھریلو محاذ کی مضبوطی اور مستقبل کی ممکنہ جنگوں کے لئے تیاری” کے بحران کا سامنا ہے۔
حالیہ ایام میں صہیونی ریاست کے عبرانی روزنامے “معاریف” نے صہیونی ریاست کی اندرونی کمزوریوں کو طشت از بام کیا اور لکھا کہ یہ کمزوریاں – بطور خاص مئی 2021ع میں فلسطین کے عرب شہروں میں ہونے والی کاروائی “حارث الاسوار” کے عنوان کے تحت رونما ہونے والے واقعات کے بعد – صہیونی ریاست کی فوج اور پولیس کے لئے بہت بڑا چیلنج مانی جاتی ہیں۔
مذکورہ اخبار نے اپنی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ:
ہنگامی حالات میں “اسرائیل” کا داخلی محاذ فوری ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ اس طرح کے حالات میں ریاست کی فوج اور پولیس ناکارہ ہوجاتی ہے۔
اسرائیل اندرونی محاذ کو تقویت پہنچانے کے لئے 24 ارب ڈالر سے بھی زیادہ کا بجٹ مختص کرتا ہے جبکہ 20 ارب ڈالر کا بجٹ اندرونی سلامتی کے لئے مختص کیا گیا ہے۔ لیکن گذشتہ سال مئی میں اندرونی محاذ پر ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے حوالے سے، صہیونی ریاست کو درپیش اصل مخمصہ نمودار ہؤا۔ اس صورت حال کا اصل سبب جنوبی اور شمالی سرحدیں ہیں؛ اور ان علاقوں – یعنی غزہ کی پٹی سے ملنے والی سرحدوں نیز جنوبی لبنان سے متصل حدود – میں اندرونی محاذ کی ذمہ داری ہنگامی حالات میں عوام کے انخلاء، وہاں کے باشندوں کی روزمرہ ضروریات کی تکمیل، عوام کو کافی مقدار میں پناہ گاہوں کی فراہمی ہے۔
لیکن مئی 2021ع میں، 1948ع کے مقبوضہ عرب نیز عربی-یہودی شہروں ميں عوامی اٹھان کے بعد مشن مشکل ہوگیا اور قاعدہ پیچیدگی سے دوچار ہؤا۔ ہمیں اس واقعے میں غزہ کی پٹی اور مغربی کنارے کی لڑائی کے دھماکے کو بھی شامل کر لینا چاہئے۔
اس وقت، اندرونی محاذ کو چار جہتوں پر حالات کے استحکام کی کارروائیوں کی ضرورت تھی۔ لیکن صہیونی ریاست گذشتہ 15 سالوں کے دوران دو محوروں میں بھی اس محاذ کو مستحکم نہیں کر سکی ہے تو اس صورت میں اب چار جہتوں پر اس طرح کی کاروائی کیونکر کر سکتی تھی؟
ہمیں لبنان یا غزہ کی پٹی سے ملحقہ بستیوں کی حمایت کے لئے واضح حکمت عملی کے فقدان کا سامنا ہے۔ علاوہ ازیں سرحدی یونٹوں کو – جو صہیونی ریاست کے داخلی محاذ میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں – ایک اور دائمی ابدی مشکل کا بھی سامنا ہے اور وہ یہ کہ ہر سال ہزاروں فوجی اس ادارے سے علیحدہ ہو رہے ہیں اور بعض اوقات فوجی یونٹوں کو سرحدی مشن سنبھالنا پڑتا ہے اور یوں فوج اندرونی محاذ کے کام میں مداخلت کرتی ہے، جو کہ مستقبل میں ممکنہ تنازعات میں فوج کی کمزوری کا باعث بھی بنے گی۔
صورت حال یہ ہے کہ آج صہیونی ریاست کا نائب وزیر اعظم برائی فوجی امور، سرحدی ادارے کی تعمیر نو کے لئے کوشاں ہے، تاکہ یہ ریاست 1948ع کی مقبوضہ سرزمینوں میں کسی بھی قسم کے عوامی شورش سمیت بقیہ علاقوں میں بھی بغاوتوں سے نمٹ سکے۔
قابل ذکر امر یہ ہے کہ باوجود اس کے، کہ صہیونی ریاست 2006ع میں حزب اللہ کے ہاتھوں پٹنے کے بعد سے اب تک اندرونی محاذ کی تقویت و استحکام پر بے تحاشا وسائل لٹا چکی ہے لیکن روزنامہ معاریف نے پھر بھی اندرونی محاذ کو ٹوٹتا پھوٹنا قرار دیا ہے۔
لیکن مئی سنہ 2021ع میں 1948ع کے مقبوضہ عرب اور عرب-یہودی آبادی والے شہروں میں کشیدگی کے بعد اندرونی محاذ کی شدید ناکامی سے قطع نظر، دیکھا جاسکتا ہے کہ اندرونی محاذ کو مضبوط بنانے کے لئے یہودی ریاست کی تمام حکمت عملیاں جھڑپوں کے ساتھ ہی تہس نہس ہو گئیں اور یوں اس محاذ کی تقویت سے متعلق تمام تر نظریات باطل ہو گئے۔
قابل ذکر ہے کہ اب صہیونی ریاست کا مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ داخلی محاذ پر اندرونی تنازعات کو کیسے روکا جائے، اور یہ بھی کہ سرحدی افواج اپنی خدمات چھوڑ رہی ہیں، بلکہ اس کے برعکس اسے بیرونی محاذ پر لڑنے کے لئے مزید مسائل درپیش ہیں، نہ کہ اس وجہ سے کہ فوج نے سرحد کی حفاظت کا فریضہ سنبھال لیا ہے! اگرچہ یہ بھی بیرونی محاذوں پر شکست میں مؤثر ہوسکتا ہے، بلکہ اس مسئلے کے متعدد اسباب ہیں جن کی وجہ سے
اسرائیلی اور امریکی ریاستیں دنیا والوں کے ساتھ متبکرانہ انداز سے پیش آتی رہی ہیں اور ان کا متعینہ طے شدہ اور بدیہی قاعدہ یہ ہے کہ کسی بھی قوم میں ان کے خلاف لڑنے کی ہمت نہیں چنانچہ انھوں نے اپنی افواج کو دشمن سے لڑنے کی تربیت نہیں دی ہے۔ ابتدائی اور طے شدہ قاعدہ یہ تھا کہ دشمن قوتیں یقینی طور پر پیچھے ہٹ جائیں گی، اور یہ کہ ان کا واحد کام متعینہ علاقوں میں پیش قدمی کرنا ہوتی ہے جو پہلے فضائی بمباری، گولہ باری اور راکٹ اندازی سے مکمل طور پر خالی ہو چکے ہوتے ہیں؛ تاہم محور مقاومت کے مجاہدوں نے اس مفروضے کو باطل کر دیا ہے، وہ امریکی اور اسرائیلی افواج کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتے ہیں، بمباریوں اور گولہ باریوں سے نہیں بھاگتے اور دشمن کی پیشقدمی کے لئے ماحول فراہم نہیں کرتے چنانچہ آج کہا جا سکتا ہے کہ صہیونی اور مغربی افواج کی تشکیل کا بنیادی فلسفہ ہی باطل ہو چکا ہے، چنانچہ آج مغربی اور مشرقی مبصرین بےدھڑک کہہ رہے ہیں کہ “امریکی سلطنت کا زوال شروع ہو چکا ہے”؛ اور ہم جانتے ہیں کہ اگر اسرائیل کی شکست و ریخت سے قبل ہی امریکہ کا دھڑن تختہ ہوگیا تو نہ اسرائیل باقی رہے گا اور نہ ہی اسرائیل کے تحفظ کے لئے بنائی گئی عرب ریاستوں پر مسلط آمریتیں اور بادشاہتیں محفوظ رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں