اسرائیل کی “آہنی دیوار” کازور “آہنی مزاحمت ” تک نہ پہنچ سکا

اسرائیلی حکومت نے "آہنی دیوار" آپریشن کے آغاز کو مغربی اردن کو اسرائیل کے ساتھ ضم کرنے کی پہلی قدم کے طور پر بیان کیا تھا، لیکن "آہنی دیوار" مزاحمت سے ٹکرا کر مٹی کی دیوار کی صورت ڈھہ گئی۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اسرائیلی حکومت نے “آہنی دیوار” آپریشن کے آغاز کو مغربی اردن کو اسرائیل کے ساتھ ضم کرنے کی پہلی قدم کے طور پر بیان کیا تھا، لیکن “آہنی دیوار” مزاحمت سے ٹکرا کر مٹی کی دیوار کی صورت ڈھہ گئی۔

فارس پلس گروپ: اسرائیلی فوج کے “جنین” کیمپ پر شدید حملوں کے ایک ہفتہ بعد، جو “آہنی دیوار” آپریشن کا پہلا مرحلہ تھا، اسرائیل کے چینل 14 نے اعلان کیا کہ اس رژیم کی فوج شمالی غرب اردن میں اپنے آپریشن کو بڑھائے گی تاکہ “طولکرم” شہر اور اس کے کیمپوں کو بھی اس میں شامل کیا جا سکے۔ یہ آپریشن اسرائیلی کابینہ کی سکیورٹی ہدایات کے تحت جنین کیمپ میں جاری ہے اور اس کا مقصد غرب اردن میں فلسطینی مزاحمت کو نشانہ بنانا ہے۔ آپریشن کا وقت اور دائرہ کار ظاہر کرتا ہے کہ آہنی دیوار، نیتن یاہو اور اسموتریچ کے درمیان سمجھوتوں کا حصہ ہے، جس کا مقصد کابینہ کے گرنے کو روکنا اور فلسطین کے مسئلے کو تباہ کرنے کے لیے اسرائیلی رژیم کی مستقل پالیسی کو آگے بڑھانا ہے۔ ان سمجھوتوں کا مرکزی مقصد، غرب اردن پر اسرائیل کی حکمرانی کو نافذ کرنے کے لیے ایک قدم اٹھانا ہے، ایک ایسا مقصد جو مزاحمت کے تمام وسائل کو ختم کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کا متقاضی ہے کہ غرب اردن مستقبل قریب میں اسرائیل کے ساتھ بڑے تصادم کا میدان نہ بنے۔
غزہ کے مناظر جنین میں دہرائے جا رہے ہیں
21 جنوری کو اسرائیلی فوج نے شمالی مغربی کنارے کے شہر جنین میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن کے آغاز کا اعلان کیا اور اس شہر اور اس کے کیمپ، جو فلسطینی مزاحمت کے نمایاں مراکز میں سے ایک ہے، کو اپنے حملوں کا نشانہ بنایا۔
مقامی ذرائع کے مطابق، مزاحمتی جنگجوؤں اور اسرائیلی فوج کے درمیان کئی علاقوں میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔ قابض فوج کے خلاف مزاحمت کرنے والے جنگجوؤں کی سخت مزاحمت نے اسرائیلی فوج کو مزید امداد بھیجنے پر مجبور کر دیا تاکہ شہر پر کنٹرول کو مزید سخت کیا جا سکے۔
اسرائیلی فوج نے جنین پر اپنے حملوں میں مختلف فوجی ہتھیار استعمال کیے، جن میں ڈرون حملے، اپاچی ہیلی کاپٹر اور شدید فائرنگ شامل ہیں، جس نے وسیع پیمانے پر اور انتہائی پرتشدد حملے کے لیے راہ ہموار کی۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق، جنین پر اسرائیلی فوج کے اس جارحانہ حملے میں اب تک 16 سے زائد فلسطینی شہید، درجنوں زخمی، بڑے پیمانے پر گرفتاریاں، کیمپ کے مکینوں کی جبری بے دخلی اور 30 سے ​​زیادہ گھروں کی تباہی ہو چکی ہے۔
اس کے علاوہ، اسرائیلی فوج نے جنین کے کیمپ پر سخت محاصرہ مسلط کر دیا اور اس کے تمام داخلی اور خارجی راستوں کو بند کر دیا۔ اسرائیلی فوج کا جنین کے “شہید خلیل سلیمان” اسپتال پر حملہ، جس میں اسپتال کا محاصرہ، اس تک جانے والے راستوں کی تباہی، اور مریضوں کو طبی سہولیات فراہم کرنے سے روکنا شامل تھا، غزہ کے اسپتالوں پر اسرائیلی حملوں کی یاد دلاتا ہے۔
آپریشن کے جاری رہنے کے ساتھ، اسرائیلی فوج نے کیمپ کے مکینوں پر دباؤ ڈالنے کے لیے مزید حربے استعمال کیے تاکہ انہیں وہاں سے نکلنے اور اسے مکمل طور پر خالی کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ اس مقصد کے لیے، انہوں نے “کوادکوپٹر” ڈرونز کا استعمال کیا، جو لاؤڈ اسپیکروں سے لیس تھے، تاکہ رہائشیوں کو فوراً اپنے گھروں کو چھوڑنے کی ہدایت دی جا سکے۔
محاصرے اور شدید حملوں کے باوجود، جنین میں فلسطینی مزاحمت نے اسرائیلی فوج کے خلاف اپنی لڑائی جاری رکھی، جس کے نتیجے میں کیمپ کے اندر مختلف محاذوں پر شدید جھڑپیں ہوئیں اور اسرائیلی فوجیوں کی مطلوبہ مقامات تک پیش قدمی کو روکا گیا۔
اسرائیلی فوج کے اعتراف کے مطابق، ان جھڑپوں کے دوران “ایگوذ” کمانڈو یونٹ کے تین اسرائیلی فوجی زخمی ہوئے، جن میں سے ایک کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔
نتن یاہو کی حکومت کے سقوط کو روکنے کے لیے محاذ آرائی کے اہداف میں توسیع
اسرائیلی فوج کی جانب سے جنین میں “آئرن وال” آپریشن کے آغاز کے اعلان کے بعد، اسرائیلی میڈیا نے بتایا کہ یہ فیصلہ سیاسی سطح پر کیا گیا تھا اور اسے اسرائیلی کابینہ کی سیکیورٹی کمیٹی نے اپنی حالیہ میٹنگ میں منظور کیا تھا۔
اسرائیلی میڈیا کے مطابق، یہ آپریشن مغربی کنارے میں اسرائیلی فوج کی کارروائیوں کو وسعت دینے کے لیے کیا گیا، جس کا مقصد اس علاقے پر کنٹرول کو مزید سخت کرنا تھا۔ یہ فیصلہ خاص طور پر نتن یاہو کے اتحادیوں، خاص طور پر وزیر خزانہ “بزالل اسموتریچ” کی درخواست پر کیا گیا۔
اسرائیلی وزیر جنگ “اسرائیل کاتز” نے اس آپریشن کو بے مثال قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا مقصد مغربی کنارے میں فلسطینی مزاحمت کے خلاف یہودی آبادکاروں اور ان کی بستیوں کی حفاظت کرنا ہے۔
نتن یاہو نے بھی اس آپریشن کو مغربی کنارے میں سیکیورٹی کے قیام کے لیے ایک نئی حکمت عملی قرار دیا اور کہا کہ یہ صرف میدان میں ہونے والے واقعات کو محدود کرنے کے لیے نہیں بلکہ مغربی کنارے میں سیکیورٹی اور سیاسی حقائق کو تبدیل کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔
جنین میں “آہنی دیوار” آپریشن کا آغاز غزہ میں جنگ بندی کے نفاذ کے ساتھ ہوا، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اسرائیل کی غزہ اور مغربی کنارے میں کارروائیاں ایک دوسرے سے گہری جڑی ہوئی ہیں۔
اسرائیل کی مغربی کنارے میں جاری کارروائیوں میں فلسطینی علاقوں کو ایک دوسرے سے الگ کرنا، نئی آہنی رکاوٹوں اور دروازوں کی تنصیب، سڑکوں کی بندش اور چیک پوسٹوں کی تعداد میں اضافہ شامل ہے۔
یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ جنین میں آپریشن محض سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر نہیں بلکہ ایک وسیع تر حکمت عملی کا حصہ ہے، جسے نیتن یاہو اپنی کابینہ کے اتحادیوں، خاص طور پر مذہبی صیہونیت پارٹی کے ساتھ مل کر نافذ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اپنی حکومت کے خاتمے کو روکا جا سکے۔
اسموتریچ کی دھمکی اور جنین آپریشن: صہیونی حکومت کے سیاسی اور سیکیورٹی مقاصد
اسموتریچ، جنہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے مطالبات پورے نہ کیے گئے تو وہ کابینہ سے مستعفی ہو جائیں گےانہوں نے جنین آپریشن کو “بستیوں اور یہودی آبادکاروں کے تحفظ کے لیے ضروری اقدام” قرار دیا۔ اس نے اس بات پر زور دیا کہ یہ مغربی کنارے پر اسرائیلی کنٹرول کو مضبوط کرنے کے ایک جامع منصوبے کا حصہ ہے۔ ان کے بقول، “آہنی دیوار” آپریشن کا اصل مقصد “دہشت گردی کا خاتمہ” اور بستیوں کے منصوبوں کو اسرائیل کے “سیکیورٹی بیلٹ” کے طور پر محفوظ بنانا ہے۔
حالانکہ اسرائیلی چینل 12 نے انکشاف کیا کہ جنین آپریشن کی منصوبہ بندی پہلے ہی “رونن بار”، جو کہ اسرائیلی داخلی سیکیورٹی ایجنسی “شین بیٹ” کے سربراہ ہیں، کی سفارشات کے مطابق کی گئی تھی۔ رونن بار نے مغربی کنارے میں “دہشت گردی کے پھیلاؤ” کے خلاف سیکیورٹی آپریشنز کو وسعت دینے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم، اس آپریشن کو تیز کرنے کے پیچھے کئی عوامل تھے، جن میں سب سے اہم قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ تھا، جس کے بارے میں اسرائیل کا خیال تھا کہ اس سے فلسطینی مزاحمت کا حوصلہ بڑھے گا اور مغربی کنارے میں حملے بڑھ جائیں گے۔
عبرانی میڈیا کے مطابق، اسرائیلی فوج جنین آپریشن کو “سیکیورٹی کمزوریوں” کو ختم کرنے کا موقع سمجھتی ہے، اور اس کے لیے وہ غزہ میں حاصل کردہ سبق کو استعمال کر رہی ہے۔ اسرائیلی وزیر جنگ کے بقول، یہ آپریشن مغربی کنارے میں اسرائیل کے سیکیورٹی تصور میں تبدیلی کی نشاندہی کرتا ہے اور فلسطینی مزاحمت سے نمٹنے کے لیے ایک نیا ماڈل پیش کرتا ہے۔
جنین آپریشن اسرائیلی حکومت کے سیاسی اور سیکیورٹی حسابات کے گہرے تعلق کی عکاسی کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ محض ایک فوجی کارروائی نہیں بلکہ اندرونی معاملات اور کابینہ کے استحکام کو یقینی بنانے کے لیے کیے گئے اقدامات کا حصہ ہے۔ اس آپریشن کا مقصد نہ صرف نتن یاہو حکومت کے سقوط کو روکنا ہے بلکہ مغربی کنارے میں سیکیورٹی اور سیاسی معادلات کو دوبارہ ترتیب دینا بھی ہے۔
فلسطینی مزاحمت: خودمختار حکومت کی سیکیورٹی پالیسی اور اسرائیلی حملوں کے درمیان دباؤ میں
جنین کا پناہ گزین کیمپ حالیہ مہینوں میں سخت اور مشکل حالات سے دوچار رہا ہے۔ فلسطینی خودمختار حکومت کی سیکیورٹی فورسز نے 45 دن کا سخت محاصرہ نافذ کیا، جس کے دوران کیمپ کی پانی اور بجلی کی فراہمی معطل کر دی گئی۔ خودمختار حکومت نے “قانون شکنوں” کے خلاف کارروائی کے بہانے فلسطینی مزاحمت کے خلاف وسیع پیمانے پر آپریشن کیا۔
“کتیبہ جنین” اور دیگر مزاحمتی گروہوں نے خودمختار حکومت کی سیکیورٹی فورسز کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کرنے کی کوشش کی، لیکن ان فورسز نے مزاحمت کے خلاف دباؤ بڑھا دیا، جس کی وجہ سے کیمپ میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا۔ اس دوران، مصالحت کی تمام کوششیں ناکام رہیں کیونکہ خودمختار حکومت نے ثالثی کو مسترد کر دیا، جس سے کیمپ کے باشندوں کے لیے صورتحال مزید ابتر ہو گئی۔
فلسطینی عوام کا ماننا ہے کہ فلسطینی خودمختار حکومت برسوں سے اسرائیلی حکومت کی کٹھ پتلی بن چکی ہے۔ ان کے مطابق، جنین میں سیکیورٹی فورسز کے حملے صہیونی حکومت کی ہدایات اور احکامات کے مطابق کیے گئے، اور جب یہ فورسز اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہیں تو وہ پیچھے ہٹ گئیں تاکہ اسرائیلی سیکیورٹی فورسز اور فوج خود براہ راست کارروائی کرے۔ اس سلسلے میں، فلسطینی خودمختار حکومت اور اسرائیلی حکومت کے درمیان مکمل ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔
فلسطینی خودمختار حکومت اور اسرائیل کے درمیان سیکیورٹی تعاون:
اگرچہ فلسطینی خودمختار حکومت کسی بھی قسم کے سیکیورٹی تعاون کی تردید کرتی ہے، لیکن اسرائیلی چینل 12 کا کہنا ہے کہ اسرائیلی سیکیورٹی حکام نے رام اللہ کو پیغامات بھیجے ہیں، جن میں فلسطینی مزاحمت کو دبانے کی ہدایت دی گئی اور اس سلسلے میں مکمل ہم آہنگی موجود ہے۔
عبرانی اخبار “یروشلم پوسٹ” نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا کہ اسرائیل کا جنین میں فوجی آپریشن کئی ماہ پہلے منصوبہ بند تھا۔ اس کے مطابق، یہ آپریشن لبنان اور غزہ میں جنگ بندی کے بعد شروع ہونا تھا تاکہ اسرائیل کی توجہ مکمل طور پر مغربی کنارے پر مرکوز ہو سکے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی ذکر کیا گیا کہ اس منصوبے کے تحت اسرائیل اور فلسطینی خودمختار حکومت کے درمیان مکمل سیکیورٹی تعاون قائم کیا گیا تھا۔
اس صورتحال کے نتیجے میں، جنین اور اس کے آس پاس کے دیہات میں موجود مزاحمتی قوتیں فلسطینی خودمختار حکومت کی سیکیورٹی فورسز اور اسرائیلی فوج دونوں کے حملوں کی زد میں آ گئیں۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ فلسطینی خودمختار حکومت اور اسرائیل کے درمیان سیکیورٹی تعاون ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے، جہاں اب یہ تعاون عملی سطح پر مزاحمتی قوتوں کے خاتمے کے لیے مشترکہ آپریشنز تک جا پہنچا ہے۔
فلسطینی مزاحمت کے تمام امکانات ختم کرنے کی کوشش

رپورٹس کے مطابق، اسرائیل کی جانب سے مغربی کنارے کے شمالی حصے میں جاری “دیوارِ آہنی” آپریشن صرف ایک عارضی سیکیورٹی کارروائی نہیں بلکہ مغربی کنارے کو اسرائیل میں ضم کرنے کی ابتدائی منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ اس منصوبے کا مقصد مغربی کنارے کے باقی ماندہ علاقوں کو اسرائیل کا حصہ بنانا ہے، جو 1967 کے بعد فلسطینی زمینوں پر اسرائیل کی سب سے بڑی قبضے کی کارروائی سمجھی جا رہی ہے۔
اسرائیلی وزیر بزالل اسموتریچ کے اس بیان کہ “2025 اسرائیل کے مغربی کنارے پر مکمل حاکمیت کا سال ہوگا” سے واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل، ٹرمپ کی ممکنہ واپسی کے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے منصوبے کو تیز تر کرنا چاہتا ہے۔
اس وقت جاری فوجی آپریشن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل فلسطینی مزاحمت کے تمام امکانات کو ختم کرنے کے درپے ہے، کیونکہ یہی مزاحمت مغربی کنارے کے الحاق میں سب سے بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ شمالی مغربی کنارے میں فلسطینی مزاحمت کار حالیہ برسوں میں اسرائیل کے خلاف ایک مضبوط قوت کے طور پر ابھرے ہیں اور اسرائیل کے لیے ایک سنگین خطرہ بن چکے ہیں۔ اسی لیے اسرائیل کے نزدیک مغربی کنارے کے الحاق کو یقینی بنانے کے لیے ان مزاحمت کاروں کا خاتمہ ناگزیر ہو چکا ہے۔
فی الحال، فلسطینی مزاحمت کار شدید ترین حملوں کی زد میں ہیں، جہاں اسرائیل انتہائی منظم طریقے سے ان کے بنیادی ڈھانچے اور ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔ اسرائیل جانتا ہے کہ فلسطینی عوام پر غلبہ پانے کا واحد راستہ ان کے اندر موجود مزاحمت کی روح کو ختم کرنا ہے۔
تاہم، کیا اسرائیل واقعی اپنے اس مقصد میں کامیاب ہو سکتا ہے؟ یہ ایک بڑا سوال ہے۔ 15 ماہ سے جاری غزہ کی جنگ نے ثابت کر دیا ہے کہ فلسطینی مزاحمت کو کسی بھی طاقتور ہتھیار کے ذریعے مٹایا نہیں جا سکتا۔
https://farsnews.ir/zafarani/1738