اسرائیل کے زوال کے بارے میں سابق اور موجودہ صہیونی وزرائے اعظم کی پیشگوئیاں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سابق صہیونی وزیر اعظم “ایہود بارک” (Ehud Barak) نے اپنے ایک مضمون میں لکھا: “میں فکرمند ہوں کہ اسرائیل “آٹھویں دہائی کی نفرین (اور پھٹکار)” سے دوچار نہ ہوجائے؛ جس سے ماضی کی یہودی حکومتیں بھی دوچار ہوتی رہی ہیں اور آٹھ عشروں سے زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہ سکی ہیں۔
سابق صہیونی وزیر اعظم بنیامین نتین یاہو نے سنہ 2017ع میں کہا تھا: “میری کوشش یہ ہے کہ اسرائیل کو 100 سال کی عمر تک پہنچا دوں لیکن یہ بات بدیہیات میں سے نہیں [اور مجھے اپنی کامیابی کا یقین نہیں ہے]؛ کیونکہ کوئی یہودی ریاست 80 برس سے زیادہ عرصے تک باقی نہیں رہ سکی ہے”۔
موجودہ صہیونی وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے بھی نیتن یاہو کا موقف دہرایا اور اسرائیل کے 80 سال کی عمر تک نہ پہنجنے کے حوالے سے صہیونیوں کو خبردار کیا۔
اسرائیلی ایجنسی کا سابق سربراہ اور کنیسٹ [صہیونی پارلیمان] کے سابق سپیکر “آبراہام برگ (Avraham “Avrum” Burg) نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنا ایک مضمون شائع کیا ہے اور لکھا ہے: “اسرائیل صہیونی سپنے کی انتہا تک پہنچ گیا ہے اور نابودی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ اسرائیلیوں کے لئے میری تجویز یہ ہے کہ دوسرے ممالک کے پاسپورٹ حاصل کریں۔ میرے پاس بھی فرانسیسی پاسپورٹ ہے”۔
صہیونی وزیر جنگ بینی گانٹس بھی ان صہیونی حکام میں سے ایک ہے جس نے اسرائیل کے مستقبل کے بارے میں متنبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ “مستقبل قریب میں اسرائیلیوں پر فلسطینیوں کا خوف چھا جائے گا اور یہ عین حقیقت ہے اور اسرائیل اگلے چند سالوں میں مزید سکڑ کر سمٹ جائے گا اور الغدیرہ اور الخضیرہ نامی دو شہروں کے بکچ تک محدود ہو جائے گا”۔
غاصب صہیونی ریاست کی اندرونی سیکورٹی سروس “شاباک” (Shabak) کے سابق سربراہ یوفال ڈسکن (Yuval Diskin) نے بھی کہا ہے کہ “اسرائیل اگلی نسل کے لئے باقی نہیں رہ سکے گا”۔
لیکن شاید غاصب ریاست کا موجودہ وزیر اعظم نفتالی بینیٹ واحد صہیونی اہلکار ہے جو اپنی حکومت کے دوران ہی صہیونی ریاست کے قریبی زوال کا اعتراف کرتا ہے۔ گذشتہ کچھ دنوں سے – جبکہ صہیونی سلامتی اور سیاست کے شعبوں میں تناؤ اور کشیدگیوں اور انارکی کی صورت حال سے دوچار ہیں؛ نفتالی بینیٹ نے یہودی نوآبادکاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے:
“اسرائیل کو ایک حقیقی آزمائش کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور اس کے حالات ماضی سے بالکل مختلف ہیں اور آج اسرائیل ایک تاریخی دو راہے پر کھڑا ہے۔ اس سے پہلے ہمارے ملک کو ہمارا ملک دو مرتبہ خانہ جنگیوں سے دوچار ہو کر بٹوارے کا شکار ہؤا ہے؛ پہلی مرتبہ جب اس ریاست کی عمر 77 سال تھی، تو یہ ریاست ٹوٹ گئی اور دوسری طرتبہ اس کی تاسیس کو 80 سال کا عرصہ گذرا تھا جب ہماری حکمرانی زوال پذیر ہوئی۔ اب ہماری حکومت کا تیسرا دور ہے اور ہماری ریاست کی تاسیس اپنی آٹھویں دہائی میں داخل ہوئی ہے اور کچھ عرصہ بعد اس ریاست کی عمر 89 برس کی ہو جائے گی۔ ہم سب کو ایک حقیقی آزمائش کا سامنا ہے اور سوال یہ ہے کہ کیا ہم اپنا ملک بچانے کے قابل ہیں؟ اسرائیل آج اپنے انحطاط کے دشوار ترین لمحات میں داخل ہوچکا ہے”۔
تبصرہ کریں