اسلامی بیداری اسمبلی کے نائب سربراہ: یمن تسدیدی قوت کے لحاظ سے طاقتور ترین عرب ملک ہے
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اسلامی بیداری اسمبلی کے نائب سیکریٹری جنرل ڈاکٹر حسین اکبری نے “یمن کے خلاف جارحیت کے پہلؤوں کا جائزہ” کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: سعودی اتحاد نے وعدہ دیا تھا کہ وہ یمن کو دو ہفتوں کے مختصر عرصے میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرے گا؛ اور اس اتحاد کی رکن ریاستیں سمجھتی تھیں کہ وہ بے پناہ بین الاقوامی حمایت، مغرب کی سرپرستی اور جدید ترین ٹیکنالوجی اور فوجی بالادستی کے سائے میں اپنے مقصد کو حاصل کرلیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی اداروں نے جب یہ دیکھا کہ جارح اتحاد کے پاس یمن کی تیز رفتار تسخیر کے لئے نہایت جامع منصوبہ موجود ہے اور وہ استعمار کی راہ میں رکاوٹ بننے والے اس ملک پر بہت جلد قبضہ کر لیں گے تو انھوں نے اس تاریخی جرم پر وقتی طور پر آنکھیں بند کرلیں۔
انھوں نے کہا: جزیرہ نمائے کے بڑے حصے پر قابض سعودی قبیلہ یمن کو اپنی قلمرو کا حصہ سمجھتا ہے اور اسے اپنی پرانی پالیسی پر بدستور کاربند رہنا چاہئے۔
انھوں نے یمن کی تزویراتی اور حساس پوزیشن کی تشریح کرتے ہوئے کہا: یمن، دنیا کی عبوری تجارت (Transit trade) میں بہت زیادہ مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے اسی بنا پر آل نہیان کی ریاست “متحدہ عرب امارات” کا خیال ہے کہ اگر یمن کی بندرگاہوں کو امارات میں ضم نہ کیا جائے تو یمن عملی طور پر امارات کا متبادل بن سکتا ہے اور یوں یہ ملک امارات کے موجودہ کردار کو کمزور کر سکتا ہے اور عبوری تجارت، جو آج اماراتی معیشت کی امتیازی خصوصیت سمجھی جاتی ہے، یمن کے ہاتھ میں چلی جائے گی۔ یہاں تک کہ اس سے پہلے اماراتی حکام یمن کی بندرگاہوں کو کرائے پر حاصل کرتے تھے تاکہ عبوری تجارت کا پورا اختیار ان کے ہاتھ میں رہے۔
ڈاکٹر اکبری نے کہا: یمنی مقاومت کا ایک طویل تاریخی پس منظر ہے، اس قوم نے فولادی عزم و ارادے کے ساتھ سلطنت عثمانیہ اور مصری افواج کی جارحیت کا مقابلہ کیا ہے اور عملی طور پر ثابت کیا ہے کہ اگر اپنے عزم کا تحفظ کرنا چاہے اور دشمن پر فتح حاصل کرنا چاہے، تو وہ ایسا کر سکتی ہے۔
انھوں نے گذشتہ تین عشروں میں محور مقاومت (محاذ مزاحمت) کی عظیم کامیابیوں اور فتوحات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ظلم و جبر کے مقابلے میں یمنیوں کے عزم و حوصلے کو مؤثر قرار دیا اور کہا: یمنی عوام اسی عزم و حوصلے کے ساتھ سعودی عرب اور اس کے نام نہاد اتحاد کے شدید دباؤ کے سامنے جم گئے اور پے در پے کامیابیاں حاصل کی اور یمن آج عظیم کامیابیاں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی طاقت بن کر ابھرا ہے۔
ڈاکٹر اکبری نے کہا کہ یمن نے حزب اللہ لبنان اور فلسطینی مقاومت کے تجربے سے بھرپور استفادہ کیا اور زبردست صلاحیتیں حاصل کرلیں یہاں تک کہ آج وہ ڈرونز اور بیلیسٹک میزائل خود تیار کرتا ہے اور اس عظیم عسکری قوت کے بدولت اپنے دفاع اور اپنی آزادی اور قومی و ملکی سالمیت کے تحفظ کے سلسلے میں قابل قدر کردار ادا کرسکتا ہے؛ اور آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ملک تسدیدی قوت (Deterrent Power) کے لحاظ سے دنیا کا سب سے طاقتور عرب ملک ہے اور درپیش خطرات سے بخوبی نمٹ سکتا ہے۔
انھوں نے یمن پر مختلف روشوں سے ڈالے جانے والے سعودی-نہیانی دباؤ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے نتیجہ اخذ کیا کہ ان تمام دشمنیوں اور اس دباؤ کے باوجود یمنی عوام نے ثابت کرکے دکھایا کہ کبھی بھی دشمن کے خلاف ہتھیار ڈالنے والے نہیں ہیں، اور جب بھی ارادہ کریں دشمن کی طاقت کے مراکز کو اپنے ملک سے ڈیڑھ ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر، نشانہ بنا کر تباہ اور دشمن کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرسکتے ہیں۔
انھوں نے کہا: آج غاصب صہیونی دشمن آئرن ڈوم نامی [ناکام] فضائی و میزائل دفاعی سسٹم اور جدید ترین لیزر نظامات کی پیشکش کرکے [چھوٹی ریاست] متحدہ عرب امارات کو یمن کے خلاف جنگ کے مورچے میں بیٹھے رہنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کررہا ہے لیکن حقیقت میں عربوں اور مسلمانوں کے جانی دشمنوں کی اس طرح کی جارح نوازیاں بھی امارات اور سعودیہ کے لئے کارساز نہیں ہیں، یہ دونوں ریاستیں اپنی پوری طاقت استعمال کرکے ناکام ہوچکی ہیں جبکہ یمن بالادست پوزیشن حاصل کر چکا ہے۔ جیکہ یمنی راہنما سیاسی لحاظ سے بھی ہمیشہ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور اپنے وعدوں پر عمل اور عہدشکنی سے پرہیز کرتے رہے ہیں
ان کا کہنا تھا: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سعودیہ اور امارات جنگ جاری رکھنے سے عاجز ہوچکے ہیں لیکن امریکہ اور صہیونی دشمن انہیں جنگ جاری رکھنے کی ترغیب دلا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یمن کی آزادی اور خودمختاری کی صورت میں امریکی مفادات پہلے سے زیادہ خطرے سے دوچار ہو جائیں گے۔ تسلط پسند عالمی نظام کا تصور یہ ہے کہ اگر باب المندب اس کے ہاتھ سے نکل جائے اور باب المندب اور خلیج فارس کے درمیان اخوت کا رشتہ قائم ہوجائے تو یہ برادرانہ رشتہ تسلط پسند نظام اور اس کے حوالی موالی مغربی اور علاقائی ملکوں اور ان کے مفادات کے لئے بہت سنجیدہ، بنیادی اور تزویراتی خطرے سے دوچار کرے گا؛ چنانچہ وہ سنجیدگی کے ساتھ کھڑے ہیں اور امارات اور سعودیہ کو جم کر مقابلہ کرنے اور مغرب کے مفادات کی حفاظت کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
ڈاکٹر اکبری نے مزید کہا: یمن نے مغرب کی پوری ٹیکنالوجی اور ہتھیاروں کو چیلنج کیا ہؤا ہے، گوکہ امریکہ اور یورپ نے ایسے ہتھیار سعودیوں اور اماراتیوں کو فروخت نہیں کئے ہیں جن سے غاصب صہیونی دشمن کو کوئی خطرہ لاحق ہے، اگرچہ وہ ان جارح عرب ریاستوں کے ساتھ شراکت اور اتحاد اور ہم پیمانی کا راگ الاپتے رہتے ہیں۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر کسی دن ان ممالک کی پسی ہوئی مسلم اقوام نے اٹھ کر مغرب کی کٹھ پتلیوں کو عرش اقتدار سے فرش خاک پر گرا دیا تو یہ ہتھیار ان کے ہاتھ سے نکل کر مسلمانوں کے بدترین دشمنوں کے خلاف استعمال ہوسکتے ہیں۔
انھوں نے یمن کے مستقبل کے بارے میں کہا: یمن کے عوام جم کر کھڑے ہیں اور ان کی فتح قریب ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کئی بار وعدہ دیا تھا کہ وہ صدر بن کر یمن کے لئے کوئی حل تلاش کریں گے اور امریکہ کو اس بحران سے نکال لیں گے لیکن وہ یمنی عوام کی بےمثل مزاحمت اور استقامت کی وجہ سے ایسا کرنے میں ناکام رہے اور اب یمنی قوم کامیابی کی دہلیز پر ہے اور بہت جلد، امریکہ اور اس کے حواریوں اور امریکی مفادات پر مامور نام نہاد بین الاقوامی اداروں کی بے بسی کو دنیا والوں کے سامنے رکھے گی اور دنیا کی تمام مسلم اور مستضعف اقوام اور حریت پسند ممالک کے دلوں میں امید کی شمع روشن کرے گی اور انہیں یہ امید دلائے گی کہ “وہ بھی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرکے فتح و کامیابی سے ہم کنار ہوسکتے ہیں؛ اور یمن کی فتح عالم اسلام اور مستضعفین کی دنیا میں ایک نئی بیداری کو جنم دے گی اور باور کرائے گی کہ وہ اپنے دستیاب وسائل کی مدد سے کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔
اسلامی بیداری اسمبلی کے نائب سیکریٹری جنرل ڈاکٹر حسین اکبری نے اپنے خطاب کے آخر میں کہا: دوسری طرف سے اس ظلم و جبر کے پس پردہ امریکہ اور غاصب صہیونی ریاست ہیں، جو اس وقت زوال کی ڈھلان پر ہیں اور اپنے بچاؤ کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں، اور یمن کی فتح عالم اسلام پر استکباری ممالک کے تسلط کو مزید کمزور کرے گی؛ اور ہمیں بہرحال یہ امید رکھنا چاہئے کہ کسی دن عالم اسلام ہوش کے ناخن لے اور اتحاد و یکجہتی کی راہ پر گامزن ہوجائے اور جدید اسلامی تہذیب کی تشکیل میں اپنے اپنے حصوں کا کردار ادا کریں، اپنی اسلامی عزت و عظمت کو لوٹا دیں اور زندہ کریں اور قرآن کریم میں اللہ کے وعدوں پر ایمان لاکر، ان ہی وعدوں کے سہارے، اگلے عالمی نظام میں بنیادی کردار بن جائیں۔
تبصرہ کریں