فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکی وزیر خارجہ، انٹونی بلینکن نے نیویارک میں بیرونی تعلقات عامہ کے ایک تھنک ٹینک “کونسل آن فارن ریلیشنز” تھنک ٹینک کے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا کہ ان کی حکومت ایران میں حکومت کی تبدیلی کی کوششوں میں ناکام رہی ہے۔
انٹرویو کے دوران، جب میزبان نے پوچھا کہ کیا امریکہ کو ایران میں حکومت کی تبدیلی کی پالیسی اپنانی چاہیے، بلینکن نے یاد دلایا کہ امریکہ کے “تجربات” پچھلے 20 سالوں میں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئے۔
یہ “تجربات” ممکنہ طور پر افغانستان اور عراق میں امریکی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جہاں 2001 اور 2003 کے حملوں کے بعد حکومتیں تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن نتیجہ مثبت نہ نکل سکا۔
بلینکن نے کہا:
“میرے نقطہ نظر سے، ایران کے اندرونی حالات پیچیدہ ہیں۔ اور مختلف وجوہات کی بنا پر، ہم لازمی طور پر بہترین ذریعہ نہیں ہیں جو وہاں کی صورتحال کو واضح طور پر سمجھ سکیں کیونکہ ہمارے ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے ساتھ دو طرفہ کوئی رابطہ ہے ۔”
انہوں نے مزید کہا:
“لہٰذا یہ کہنا کہ ہمیں ایران کے اندر ہونے والے واقعات کا مکمل علم ہے، کچھ حد تک غلط ہوگا۔ البتہ ہم جتنا ممکن ہو معلومات حاصل کرتے ہیں، اور ہمارے دوست اور شراکت دار جو زیادہ بہتر سمجھ رکھتے ہیں، ہمیں ان سے مدد ملتی ہے۔”
بلینکن نے اعتراف کیا کہ ایران میں مختلف طبقے موجود ہیں اور اسلامی جمہوریہ کے حامیوں کی تعداد کو بھی “نمایاں” قرار دیا۔ انہوں نے کہا:
“ایران ایک بہت تقسیم شدہ ملک ہے۔ میرے خیال میں جو آپ نے کہا وہ کم از کم آدھی آبادی کے بارے میں درست ہو سکتا ہے، لیکن مکمل طور پر نہیں۔ دیہی اور شہری آبادی کے درمیان نمایاں فرق ہے۔ ایران میں ایک قدامت پسند طبقہ ہے جو شاید حکومت کے وفادار ہیں۔ لہٰذا، یہ مسئلہ اتنا واضح اور قطعی بھی نہیں ہے۔”
بلنکن نے تسلیم کیا کہ ایرانی عوام کی ایک بڑی تعداد اپنے ملک کے لیے ایک مختلف مستقبل چاہتی ہے اور کہا:
“اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک بڑا حصہ مختلف مستقبل کی خواہش رکھتا ہے، جو سب کے لیے بہتر ہوگا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ہم اس میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں؟”
انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ گزشتہ 20 سالوں میں حکومت کی تبدیلی کی امریکی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں اور کہا:
“پچھلے 20 سالوں کو دیکھیں تو ہمارے تجربات حکومت کی تبدیلی میں کامیاب نہیں رہے۔”
بلینکن نے ایران کے اندر تبدیلی کے لیے امریکی کوششوں کا حوالہ دیا اور کہا کہ انہوں نے ان افراد کو بااختیار بنانے کی کوشش کی ہے جو اپنے ملک کے لیے ایک مختلف مستقبل چاہتے ہیں تاکہ وہ اپنی بات کہہ سکیں اور اپنے مقاصد کے لیے وسائل حاصل کر سکیں۔
لیکن انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بیرونی طور پر ایسی تبدیلیوں کی “سوچے سمجھے انداز میں منصوبہ بندی” کرنا مشکل ہے۔
بلینکن نے کہا:
“میری رائے میں، باہر سے ایسی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی کرنا مشکل ہے، اور آپ غیر متوقع نتائج اور اثرات سے دوچار ہو سکتے ہیں۔ اس لیے اس حوالے سے انتہائی محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔”
آخر میں، بلنکن نے زور دیا کہ امریکہ کو اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے مضبوطی سے کھڑا ہونا چاہیے اور ان ایرانیوں کے ساتھ اتحاد کرنا چاہیے جو ایک بہتر مستقبل کے خواہاں ہیں، لیکن بیرونی طور پر تبدیلی کے انجینئرنگ میں محتاط رہنا ہوگا
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں