اسلامی دنیا میں بہائیوں کی تنہائی
فاران تحقیقاتی و تجزیاتی ویب سائٹ: ایک اور ثبوت جو بہائیوں اور صہیونی حکومت کے درمیان تعلقات کے حوالے سے پیش کیا جا سکتا ہے، اسلامی ممالک کا اس گمراہ فرقے کے بارے میں موقف ہے۔
اسرائیل کے ساتھ جنگ کے دوران، عرب لیگ نے “اسرائیل کے خلاف عرب پابندیوں کے دفتر” کو ہدایت کی کہ وہ ان تمام کمپنیوں اور اداروں کو اسلامی ممالک میں متعارف کرائے جو اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔ اس حکم کے بعد، رائٹرز نیوز ایجنسی نے رپورٹ پیش کی کہ بہائی اس فہرست میں شامل ہیں یعنی یہ فرقہ صہیونی ریاست کو تعاون فراہم کر رہا ہے۔
نیز 23 فروری 1974 کو قاہرہ میں ہونے والی ایک کانفرنس میں یہ قرارداد بھی منظور کی گئی کہ: “عرب پابندیوں کے دفتر نے فیصلہ دیا ہے کہ عرب ریاستوں کو بہائیوں اور ان کے حلقوں کی نقل و حرکت کو سختی سے روکنا چاہیے۔ کیونکہ عرب لیگ کے اراکین پر واضح ہو گیا ہے کہ ان کے پیچھے صہیونیت چھپی ہوئی ہے”۔
“اسلامی فقہ کونسل”، جس میں وہابیت سمیت تمام مذاہب کے 57 اسلامی ممالک کے فقہاء شامل ہیں، نے ایک حکم نامہ جاری کیا جس میں بہاء اللہ کی طرف سے کئے گئے نبوت اور نزول وحی کے دعوے نیز بہائیوں کے دیگر عقائد کو ضروریات دین کے انکار کا مصداق قرار دیا۔
اس کے علاوہ، کونسل نے شیعہ اور سنی فقہاء کی دستخط شدہ ایک قرارداد میں بہائیوں کو کافر اور غیر مسلم قرار دے کر انہیں دائرہ اسلام سے خارج کیا اور اسلامی حکومتوں اور اقوام سے مطالبہ کیا کہ ان کے ساتھ کفار کے جیسا سلوک کیا جائے۔
یہ معاملات اور واقعات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بہائی، جیسا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں؛ مسلمان، امن کے حامی اور انسانیت کے دوستدار نہیں ہیں اور سیاسی مسائل سے بھی اجنبی نہیں ہیں۔ ورنہ اس فرقہ کے بارے میں اسلامی معاشرے کے سخت موقف کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟
منابع:
1 – فصلنامه تاریخ معاصر ایران، بهائیت و اسرائیل: پیوند دیرین و فزاینده، شکیبا، پویا، بهار 1388، شماره 49، ص 640-513.
2- فصلنامه انتظار موعود، پیوند و همکاری متقابل بهائیت و صهیونیسم، تصوری، محمدرضا، بهار و تابستان 1385، شماره 18، ص 256-229.
تبصرہ کریں