اسماعیل ہنیہ کی شہادت کی نئی تفصیلات، ان کے فرزند کی زبانی

عبدالسلام ہنیہ نے اپنے والد کی رہائش گاہ میں بم دھماکے پر مبنی رپورٹ کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا: میزائل نے میرے والد کے سیل فون کو ٹریک کر لیا تھا، اگر بم دھماکے کی خبر کو درست مانا جائے تو پوری عمارت کو گرنا چاہئے تھا جبکہ ان کے محافظین چند ہی میٹر کے فاصلے پر تعینات تھے جو محفوظ رہے۔

 حماس کے سابق راہنما شہید اسماعیل ہنیہ کے فرزند عبدالسلام ہنیہ نے سعودی چینل العربیہ سے بات چیت کرتے ہوئے 31 جولائی کی صبح کو تہران میں اپنے والد پر صہیونیوں کے دہشت گردانہ حملے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا: جس میزائل نے میرے والد کو نشانہ بنایا اس نے میرے والد کے سیل فون کو ٹریک کر لیا تھا، شہادت کے وقت سیل فون میرے والد کے سر کے قریب رکھا ہؤا تھا۔

انھوں نے بعض ذرائع کے اس وہم کی تردید کر دی کہ ان کے کمرے میں پہلے سے بم رکھا ہؤا تھا، اور کہا: میرے خیال میں کمرے میں بم کی موجودگی کی خبر بالکل بے بنیاد ہے۔

عبدالسلام کا کہنا تھا کہ شہید کے ذاتی محافظین اور ان کے دوسرے مشیر ان کے کمرے سے چند ہی میٹر کے فاصلے پر بیٹھے تھے، اور ظاہر ہے کہ اگر وہاں کوئی بم ہوتا تو پوری عمارت تباہ ہو جاتی اور کوئی بھی محفوظ نہ رہتا۔

انھوں نے کہا: سیل فون نے میرے والد کو دشمن کے لئے آسان نشانے میں تبدیل کر دیا تھا؛ چنانچہ یہ ایک مشکل کاروائی نہیں تھی۔ میرے والد اپنے سیل فون کے ساتھ ایک ملک [ایران] میں موجود اور اس ملک کے صدر کی تقریب حلف برداری میں شریک تھے، اور ظاہر ہے کہ اس طرح کے مقام کے سیکورٹی انتظامات کا کسی سیل فون سے خالی خفیہ مقام کے سیکورٹی انتظامات سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔

عبدالسلام نے مزید کہا: میرے والد اس دن سیل فون کو مسلسل استعمال کرتے رہے تھے اور شہادت کی رات کے 10:15 بجے تک بھی رابطہ کرنے والوں کا جواب دیتے رہے تھے۔

انھوں نے آخر میں کہا: مجھے یقین ہے کہ یہ میزائل حملہ امریکہ کی مدد سے انجام کو پہنچا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔