افغانستان میں زلزلے سے آئی تباہی اور مظلوم عوام کی امت مسلمہ سے دہائی
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: افغانستان میں آنے والے زلزلے نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلائی ہیں ہر گلی ہر ناکے پر ماتم ہو رہا ہے ہر گھر کے ویرانے پر اپنے پیاروں کو کھو دینے والے بیٹھے ہوئے ان کا انتظار کر رہے ہیں جو اب کبھِی نہیں آنے والے ، بچے اپنی ماوں کو ڈھونڈ رہے ہیں تو کہیں زندہ بچ جانے والی مائیں منہدم گھروں کے ملبوں میں اپنے جگر کے ٹکروں کو تلاش کر رہی ہیں ایک زلزلے سے متاثر علاقے ویرانے میں بدل چکے ہیں جنہیں ملبے سے نکالا جا چکا ہے امداد نہ ملنے کی بنا پر انکی بھی بس سانس ہی چل رہی ہے اور وہ بے حس و حرکت پڑے اپنی آخری سانس کا انتظار کر رہے ہیں۔
آپ سوچئے یہ زلزلہ امریکہ یا یورپ کے ملک میں آتا تو بین الاقوامی برادری کے ساتھ امت مسلمہ کا رد عمل کیا ہوتا ؟ کیا اسلامی ممالک کی جانب سے اسی طرح کا رد عمل سامنے آتا جیسا افغانستان میں زلزلے کے بعد دیکھنے میں آرہا ہے ، یا پھر اب تک کئی اسلامی مماک کے سربراہان امریکہ و یورپ کے ان شہروں کا دورہ کر چکے ہوتے جہاں فرض کریں اسی قسم کی تباہی ہوتی جیسی افغانستان میں دیکھنے کو مل رہی ہے ؟ جبکہ یہ وہ مقامات ہیں جہاں قدرتی آفتوں سے نبٹنے کے وسائل و ذرائع موجود ہیں افغانستان کی طرح نہ یہاں ایسا کچھ ہے کہ بنیادی سہولتوں تک کا فقدان ہو اور نہ ہی سیاسی و حکومتی طور پر اتنی پیچیدگیاں جتنی طالبان حکومت کی وجہ سے افغانستان میں ہیں اور نہ ہی امداد کرنے والوں کو لاحق جان کا خوف جو افغانستان جاتے ہوئے ہر ایک کو ہوتا ہے کہ اسکے ساتھ کیا ہوگا ؟ یہ ساری وہ چیزیں ہیں جس نے افغانستان کو پوری دنیا سے الگ تھلگ کیا ہوا ہے ایسے میں امت مسلمہ بھی افغانستان کے مظلوم عوام پر توجہ نہ کرنے تو پھر کون کرے گا ؟
افغانستان میں بڑے پیمانے پر تباہی :
موصولہ خبروں کے مطابق افغانستان میں آنے والے 6.1 شدت کے زلزلے میں اب تک تقریباً ڈیڑھ ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ کم از کم ۲۰۰۰ افراد زخمی ہوئے ہیں[1]۔ چھہ اعشاریہ ایک کی شدت کے ساتھ آنے والا یہ زلزلہ دو دہائیوں میں افغانستان کا بدترین زلزلہ ہے۔ منگل کی صبح یہ ملک کے مشرقی حصے میں جانی و مالی نقصان کا باعث بنا[2]۔
طالبان حکومت کے ایک ترجمان کے مطابق تاحال کم از کم 1000 اموات اور 1500 زخمیوں کی تصدیق ہو چکی ہے تاہم شدید بارشوں اور امدادی کارروائیوں میں مشکلات کی وجہ سے اموات اور زخمیوں کی تعداد بڑھنے کا خدشہ ہے[3]۔
زلزلے نے خاص کر ان کمزور عمارتوں کو نشانہ بنایا جو پہاڑی علاقوں پر واقع تھیں اور زلزلے کے جھٹکے برداشت نہ کر سکیں۔ زلزلے کے جھٹکوں سے سینکڑوں گھر تباہ ہوئے ہیں اور بعض مقامات پر زمین دھنسنے سے بھی تباہی ہوئی ہے ۔
صوبہ پکتیکا کا ضلع گیان سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ایک ہے۔ خدشہ ہے کہ یہاں کئی لوگ تباہ ہونے والی عمارتوں کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
زخمیوں کے علاج کے لئے کوئی ذریعہ نہیں :
اطلاعات کے مطابق “دو برس قبل بین الاقوامی فلاحی تنظیموں نے ادھر ایک کلینک قائم کیا تھا۔ اس کا مقصد معمولی امراض سے نمٹنا تھا اور بہتر طبی امداد کے لیے مریضوں کو بڑے شہروں کے ہسپتالوں کی طرف بھیجنا تھا۔ یہاں حادثات اور ایمرجنسی کے لیے کوئی الگ انتظامات نہیں۔
اس کلینک میں کام کرنے والے ایک فرد محمد گل نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس کلینک میں صرف پانچ بستر ہیں اور منگل کو آنے والے زلزلے کے بعد یہاں علاج کی ناکافی سہولیات ہیں۔‘ کلینک کی صورت حال انہیں کی زبانی کچھ یہ ہے۔
’کلینک کے تمام کمرے تباہ ہو چکے ہیں، ہمارے کلینک پر صبح سے پانچ سو مریض آچکے ہیں۔ ان میں سے دو سو کی موت ہوئی ہے[4]۔‘
اس کلینک میں موجود جنریٹر، جو اب بجلی کا واحد ذریعہ ہے کے لیے محدود ایندھن ہے اور تاحال دیگر صوبوں کے حکام نے جو وعدے کیے وہ پورے نہیں ہو سکے۔ دریں اثنا زلزلے کے باعث اموات اور زخمیوں کی آمد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے[5]۔ ’درجنوں لوگوں کو طبی امداد کی ضرورت ہے۔ میرا نہیں خیال وہ ایک اور رات زندہ بچ پائیں گے۔‘ یہ تو ایک جگہ ایک کلینک کی بات ہے ان جگہوں کی بات ہی کیا جہاں نہ کوئی کلینک ہے نہ دوا خانے گھروں میں لاشے پھنسی ہوئی ہیں اور کوئی نکالنے والا نہیں ہے اس لئے کہ ریڈ کراس کا عملہ طالبان کے زیر نظر ہے اور کوئی ایسا بین الاقوامی عملہ نہیں جو ذات پات مذہب و مسلک سے اٹھ کر صرف متاثرین کی مدد کے بارے میں سوچے
وجہ بھی ظاہر ہے کہ سخت گیر طالبان حکومت کی جانب سے اقتدار سنبھالنے کے بعد بین الاقوامی فلاحی ادارے ملک سے جا چکے ہیں۔ ملک میں صحت کا نظام کارکنان اور سہولیات کی شدید قلت سے دوچار ہے اتنا ہی نہیں طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد اکثر ممالک نے افغانستان سے تعلق منقطع کر لیے تھے جبکہ اس کے بینکاری کے شعبے پر پابندیاں لگائی گئی تھیں جس سے شدید معاشی بحران پیدا ہوگیا تھا جو مزید شدید ہوتا جا رہا ہے[6] جبکہ طالبان کی جانب سے مسلسل بین الاقوامی برادری سے فوری امداد کی بات ہو رہی ہےچنانچہ “طالبان کی وزارت دفاع امدادی کارروائیوں کی سربراہی کر رہی ہے اور زلزلے کے بعد حکومت نے عالمی امداد کا مطالبہ کیا ہے۔سینیئر طالبان رہنما عبدالقہار بلخی نے کہا ہے کہ ’حکومت کو بدقسمتی سے پابندیوں کا سامنا ہے۔ تو اس لیے وہ ضرورت کے تحت لوگوں کی مالیاتی امداد نہیں کر پا رہی۔
ان کا کہنا ہے کہ ’طالبان میں اتنی صلاحیت نہیں کہ اس تباہی سے نمٹ سکیں۔ یہاں کوئی نظام رائج نہیں۔ اور ہمیں بین الاقوامی مدد کی بھی امید نہیں کرنی چاہیے۔ دنیا افغانستان کو بھول چکی ہے۔تمام بڑے بڑے چینلز اور اخبارات واضح طور پر کہہ رہے ہیں اس وقت افغانستان کو مدد کی سخت ضرورت ہے [7]
طالبان کی آمد سے قبل بھی ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے امدادی اداروں کے پاس محدود صلاحیت تھی۔ ان کے پاس کچھ طیارے اور ہیلی کاپٹر موجود تھے۔پکتیکا کے طبی حکام کے مطابق علاقے میں درد کش ادویات اور اینٹی بایوٹکس کی شدید قلت ہے کل ملا کر افغانستان کو اس وقت مدد کی شدید ضرورت ہے [8]۔
گیان کے عارضی ہسپتال کے ایک ڈاکٹر کا تعلق قریبی شہر غزنی سے ہے اور وہ رضاکارانہ طور پر یہاں مدد فراہم کرنے آئے ہیں۔ جب وہ ادھر آئے تو لوگوں نے انھیں گھیر لیا۔
ایک رضاکار ڈاکٹر نے بتایا کہ ’ہمارے پاس زخموں کو صاف کرنے کے لیے صاف پانی بھی موجودہ نہیں اور یہاں شدید گرمی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جلد انفیکشن پھیل جائے گا۔‘ اجتماعی قبروں تک کے کھودنے کے لئے اس وقت وسائل کی شدید قلت ہے [9]۔
مختصر یہ کہ سہولیات کی کمی اور دشوار گزار علاقوں کے باعث مدد کرنے والے عملے کو امدادی کارروائیوں میں رکاوٹیں درپیش ہیں۔
افغانستان میں ڈاکٹروں نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ بدھ کو آنے والے زلزلے میں متعدد بچے بھی ہلاک ہوئے ہیں[10]۔ اس چھ اعشاریہ ایک شدت کے زلزلے کے باعث لاتعداد افراد ملبے تلے دفن ہو گئے جو اکثر کچے مکانوں میں رہائش پذیر تھے[11]۔
بعض عینی شاہدین اور امداد میں مدد کرنے والوں نے بتایا کہ متاثرہ علاقوں میں کئی گاؤں مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں، سڑکیں بند اور موبائل فون ٹاور کام نہیں کر رہے جب کہ اموات کی تعداد میں بھی اضافے کا خدشہ ہے۔
متاثرہ علاقوں میں امدادی کارروائیاں شروع کر دی گئی ہیں اور دوردراز علاقوں میں زخمیوں اور لاشوں کو ہیلی کاپٹروں کے ذریعے ہسپتالوں میں منتقل کیا جا رہا ہے تاہم ملک میں جاری موسلادھار بارشوں اور ژالہ باری سے امدادی کاموں میں مشکلات دیہی مشرقی افغانستان میں سفر کرنا آسان نہیں اور ایسے میں اگر امدادی کارکن متاثرہ علاقوں میں پہچنے میں کامیاب ہو بھی گئے تو نامناسب حالات اور کم وسائل کے باعث وہ بہت سے علاقوں میں منہدم مکانات کے ملبے تلے دبے افراد کو نکالنے کے لیے اپنے ہاتھوں سے کھدائی کر رہے ہیں۔
افغانستان کے عوام کی مشکلات اور امدادی کارکنوں کے چیلنجز :
افغانستان میں حالیہ زلزلے سے آنے والی تباہی بہت ہی مہلک ثابت ہو رہی ہے وہاں کی مشکلات ایک دو نہیں ہیں مشکلات کا ایک انبار ہے جس سے عبور کر کے راحت کاری کا کام ایک دشوار گزار مرحلہ ہے اس لئے کہ افغان عوام پہلے ہی بہت سے مصائب اور مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہاں غربت اس وقت عروج پر ہے اور ملک کئی دہائیوں سے تنازعات کا شکار رہا ہے۔ گذشتہ برس جب طالبان نے افغانستان پر قبضہ کیا تو کئی ممالک نے ترقیاتی امداد بند کر دی تھی۔اور ایسے میں یہاں موجود کم وسائل اور کمزور سہولیات اس تباہی کا مقابلہ کرنے اور اس میں مدد فراہم کرنے کے قابل نہیں ہیں۔صوبہ پکتیکا کے ضلع گیان کے ایک ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر اور نرسیں خود اس زلزلے سے متاثرہ ہیں اور زخمیوں میں شامل ہیں۔ ہمارے پاس زلزلے سے پہلے ہی بہت کم لوگ اور سہولیات موجود تھی اور اب اس زلزلے نے ہمارے پاس موجود جو چند سہولیات تھی ان کو بھی تباہ کر دیا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میرے کتنے ساتھی زندہ بچے ہیں۔‘
بعض امدادی ایجنسیاں متاثرہ افراد کی مدد کرنے کی کوشش کر رہی ہیں لیکن مواصلات اور پانی کی فراہمی ایک چیلنج ہے اور امدادی سرگرمیوں میں مشکلات بڑھا رہی ہے۔ امدادی ادارے وہاں موجود متاثرہ افراد کے لیے خوراک، ادویات اور ہنگامی شیلٹر لانے پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارے یونیسف کے نمائندہ سام مورٹ کا کہنا تھا کہ ’متاثرہ اضلاع میں ہماری موبائل ہیلتھ اینڈ نیوٹریشن ٹیمیں موجود ہیں جو زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد دے رہی ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے امدادی ٹرک بھی راستے میں ہیں جن میں متاثرہ افراد کے لیے حفظان صحت کی کٹس، کمبل، خیمے اور ترپالیں شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بارش کے باعث امدادی سرگرمیوں میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
یوں تو زلزلہ جہاں بھی آئے مضبوط سے مضبوط شہری نظام بھی ہاتھ کھڑے کر دیتا ہے امیر سے امیر معاشرے میں ہاہاکار مچ جاتی ہے لیکن افغانستان میں بدقسمتی سے نہ تو کوئی میونسپل کارپوریشن یا شہری انتظامیہ کا کوئی انتظام ہے نہ یہاں کے لوگوں کے پاس پیسہ اسی لئے کہا جا رہا ہے ’یقیناً یہ ان کے خلاف ہے جو بھوک سے مر رہے ہیں، غریب اور بیمار ہیں اور قحط سے متاثرہ ہیں۔ یہ ایک طاقتور اور دوبارہ ابھرنے کی صلاحیت رکھنے والی آبادی نہیں۔‘
دہائیوں سے جاری خانہ جنگی کی وجہ سے افغانستان کی حکومتوں کے لیے قدرتی آفات کا مقابلہ کرنا بھی مشکل رہا ہے حالانکہ بین الاقوامی اداروں نے گزشتہ برسوں میں کئی عمارات کو محفوظ بنانے کی کوششیں ضرور کی ہیں لیکن یہ سب کچھ اس وقت نا کافی ہے[12]
افغانستان میں آنے والے زلزلے اور اموات کی شرح :
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امداد کو آرڈینیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران افغانستان میں آنے والے زلزلے 7000 اموات کا باعث بنے۔ یہاں ہر سال اوسطاً 560 اموات اسی وجہ سے ہوتی ہیں۔
سب سے تازہ ترین واقعہ جنوری میں پیش آیا تھا جب یکے بعد دیگرے دو زلزلوں نے ملک کے مغربی علاقوں میں سینکڑوں مکانات تباہ کر دیے اور 20 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔
سنہ 2015 میں آنے والا ہندو کش زلزلہ بھی نہایت تباہ کن تھا جس کی شدت 7.5 تھی۔ اس زلزلے میں تقریبا 400 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کی شدت چین کے شنکیانگ صوبے تک محسوس ہوئے تھے۔
مارچ 2002 میں بھی ہندو کش پہاڑوں میں دو زلزلے آئے تھے جن میں 1100 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اسی سال مئی کے مہینے میں شمالی افغانستان کے تخر اور بدخشاں صوبوں میں 4000 افراد زلزلے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس زلزلے کے دوران 100 گاؤں اور 16000 مکانات تباہ ہوئے جبکہ 45000 افراد بے گھر ہوئے۔
1998 میں اسی علاقے میں ایک زلزلے میں 4000 افراد ہلاک اور 15000 بے گھر ہو گئے تھے۔ [13]
جیسا کہ ہم نے عرض کیا زلزلہ جہاں بھی آتا ہے عام تباہی و بربادی لیکر آتا ہے افغانستان میں اسکا اثر اس لئے زیادہ ہے کہ یہاں عرصے سے خانہ جنگی رہی مکانات کی ساخت مضبوط نہیں رہتی واضح ہے کہ افغانستان اس لیے زیادہ متاثر ہوتا ہے کیوںکہ یہاں عمارات زلزلے کی شدت کو سہہ نہیں پاتیں۔ یہاں مکانات لکڑی یا پھر کچی مٹی سے بنائے جاتے ہیں یا پھر کمزور کنکریٹ سے[14] چنانچہ اپنے ایک بیان میں اقوام متحدہ نے کہا کہ ’افغانستان پہلے ہی ایک شدید بحران سے گزر رہا ہے جب 35 لاکھ ملک کے اندر ہی بے گھر ہیں۔‘لاکھوں لوگ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بھوک کی وجہ سے زندگی گزارنے کی کوشش میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔‘ ایسے میں اگر بین الاقوامی برادری کی توجہ افغانستان پر نہیں تو کم سے کم امت مسلمہ کو توجہ دینا چاہیے اس لئے کہ فرمان پیغمبر ص ہے کہ جو اس حالت میں صبح کرے کہ اسے مسلمانوں کی فکر نہ ہو انکے امور کے سلسلہ سے توجہ نہ ہو تو وہ مسلمان نہیں ہے اگرکوئی کسی مسلمان کو پکارے کہ میری مدد کرو اور کوئی اس کی فریاد نہ سنے تو وہ مسلمان نہیں ہے [15]۔
اب ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم افغانستان کے مظلوم بھائیوں کے لئے کیا کر رہے ہیں الحمد للہ اسلامی جمہوریہ ایران سے پڑوسی ملک کی امداد کا سلسلہ جاری ہے ایران میں ایسے مراکز موجود ہیں جو ہماری اعانت کو پوری امانت کے ساتھ افغانستان کے مظلوم عوام تک پہنچا سکتے ہیں اس سلسلہ سے مذہب و رنگ و نسل و جغرافیہ سے اٹھ کر ہم سب کو اسلام کے محور تلے آگے آکر ان لوگوں کی مدد کی ضرورت ہے جو اس تباہی میں ہمارے سامنے دہائی دیتے نظر آ رہے ہیں اور اگر ہم نے ان کی فریاد پر توجہ نہ کی تو حدیث پیغمبر ص کی روشنی میں ہم اپنے آپ کومسلمان کہنے کا حق نہی رکھتے ۔
حواشی :
[1] ۔ https://kayhan.ir/fa/news/244238/%D8%AA%D9%84%D9%81%D8%A7%D8%AA-%D8%B2%D9%84%D8%B2%D9%84%D9%87-%D8%AF%D8%B1-%D8%A7%D9%81%D8%BA%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D9%87-%DB%B1%DB%B5%DB%B0%DB%B0-%DA%A9%D8%B4%D8%AA%D9%87-%D9%88-2000-%D8%B2%D8%AE%D9%85%DB%8C-%D8%A7%D9%81%D8%B2%D8%A7%DB%8C%D8%B4-%DB%8C%D8%A7%D9%81%D8%AA
[2] ۔ https://reviveafghanistan.org/?gclid=Cj0KCQjw8O-VBhCpARIsACMvVLNqExWwQQk4l3ycCrc6ItFlex1lfy9__WE–kh18G5820bzUiKQuQoaAkcAEALw_wcB
[3] ۔ https://www.aljazeera.com/news/2022/6/22/dozens-killed-as-6-1-magnitude-quake-shakes-afghanistan-pakistan
[4] ۔ https://www.bbc.com/urdu/regional-61904237
[5] ۔ https://www.dw.com/fa-ir/%D8%B2%D9%84%D8%B2%D9%84%D9%87-%D8%A7%D9%81%D8%BA%D8%A7%D9%86%D8%B3%D8%AA%D8%A7%D9%86-%D8%A8%D8%B1%D8%A7%DB%8C-%D8%AD%D9%81%D8%B1-%DA%AF%D9%88%D8%B1%D9%87%D8%A7%DB%8C-%D8%AC%D9%85%D8%B9%DB%8C-%D9%87%D9%85-%D8%A7%D9%85%DA%A9%D8%A7%D9%86%D8%A7%D8%AA-%DA%A9%D9%85-%D8%A7%D8%B3%D8%AA/a-62231869
[6] ۔ https://www.rescue.org/article/afghanistan-earthquake-what-we-know-so-far-our-response
[7] ۔ https://news.un.org/en/story/2022/06/1121382
[8] ۔ https://disasterphilanthropy.org/disasters/2022-afghanistan-earthquake/?gclid=Cj0KCQjw8O-VBhCpARIsACMvVLMTrlWZPTk-iH2uBZ-V5PlPuqV-M12NB4mLFZHljP6zaP11z_nzHKEaAqziEALw_wcB
https://www.dw.com › fa-ir ›…[9] ۔
[10] ۔https://www.bbc.com/news/world-asia-61900260
[11] ۔ https://www.reuters.com/world/asia-pacific/earthquake-magnitude-61-shakes-afghanistan-pakistan-usgs-2022-06-21/
[12] ۔ https://www.bbc.com/urdu/regional-61904237
[13] افغانستان میں زلزلے کی تفصیلی صورت حال کے لئے ملاحظہ ہو ۔https://www.worlddata.info/asia/afghanistan/earthquakes.php
[14] ۔۔‘ https://www.bbc.com/urdu/world-61891185
[15] ۔ مَنْ أَصْبَحَ لاَ يَهْتَمُّ بِأُمُورِ اَلْمُسْلِمِينَ فَلَيْسَ مِنْهُمْ وَ مَنْ سَمِعَ رَجُلاً يُنَادِي يَا لَلْمُسْلِمِينَ فَلَمْ يُجِبْهُ فَلَيْسَ بِمُسْلِمٍ .
الکافي ج۲ ص۱۶۴
الوافي ج۵ ص۵۳۵
وسائل الشیعة ج۱۶ ص۳۳۷
بحار الأنوار ج۷۱ ص۳۳۹
تبصرہ کریں