بن سلمان کی یہود نوازی؛

القطیف اور تاروت کے شیعہ علاقے سعودی جبر کی زد میں

سعودی حکومت نے منطقۃ الشرقیہ میں شیعہ اکثریتی علاقے اور شہر القطیف جزیرہ تاروت پر دباؤ بڑھانے کے لئے عوامی اموال و املاک لوٹنے اور ان کی ملکیت سلب چھیننے کے جابرانہ عمل کو تیزتر کردیا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: العہد اخباری ویب گاہ کے مطابق، سعودی حکمرانوں نے غاصب یہودی ریاست کے ساتھ پینگیں بڑھانے کے موقع پر، الشرقیہ کے علاقے میں شہر القطیف اور تاروت کے شیعہ عوام کے اموال لوٹنے اور املاک چھیننے کا جابرانہ عمل تیز تر کر دیا ہے، اور سعودی تسلط بڑھانے کے لئے ان کے مال و جائیداد پر قبضہ اور ان کے ذرائع معاش سلب کرنے میں تیزی سے مصروف عمل ہیں۔
سعودیوں نے جزیرہ تاروت میں املاک کی خرید و فروخت پر پابندی لگا کر قصاب خانوں اور مچھلیوں کی دکانوں کے مالکین کو دکانیں خالی کرنے کے لئے صرف دو ہفتے کی مہلت دی ہے۔
اس سعودی سرکاری حکم کے بعد القطیف کے میئر نے الذبیبیہ نامی قصبے میں املاک کے بعض مالکین کو ہدایت کی ہے کہ اپنی جائیداد کی مالکانہ دستاویزات لے کر بلدیہ کے دفتر میں حاضری دیں۔ اس اقدام کی وجہ سے درجنوں گھروں اور دکانوں کے انہدام کے خدشے میں اضافہ ہؤا ہے۔
یہ صورت حال، صوبہ القطیف کو دو مغربی اور مشرقی علاقوں میں تقسیم کرنے کے سعودی حکومت کے حالیہ فیصلے کے بعد سامنے آئی ہے، جس کا اعلان سنہ 2022ع‍ کے آغاز میں ہؤا تھا، اور اس کے تحت اس صوبے کو تقسیم کیا گیا ہے اور اس کے ایک حصے کو صوبہ البیضاء کا نام دیا گیا ہے اور آل سعود نے ایک غیر مقامی شخص کو اس کا حکمران بنا دیا ہے۔
صوبہ القطیف کی تقسیم کا سعودی حکام کا منصوبہ اسی نقطے پر اختتام پذیر نہیں ہوتا بلکہ انھوں نے جزیرہ تاروت کے ساحلی علاقوں کا ایک حصہ بند کر دیا ہے جہاں وہ رہائشی بستیاں تعمیر کرنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے اس جزیرے کا قدرتی ماحولیاتی نظام تباہ اور یہاں اگنے والی جڑی بوٹیاں بھی ناپید ہونگی اور آبی حیوانات کی زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
سعودی حکام نے الدمام میں ملک عبدالعزیز بندرگاہ کی حدود میں الشرقیہ اور المزروعیہ کے مشرقی ساحلوں پر قبضہ کرکے، ان علاقوں کی بطور جائیداد تخصیص دینے کا منصوبہ بنایا اور تقریبا ستر لاکھ میٹر مربع زمینوں کو 11 ہزار پلاٹوں میں تقسیم کرکے منظور نظر لوگوں کو الاٹ کیا، جو غیر مقامی ہیں اور یوں شیعہ آبادی کا توازن بگاڑنے کی کوشش کی گئی۔
اس منصوبے کے تحت القطیف اور الاحساء میں موجود تاریخی عمارتوں، قلعوں، اور محلوں کو مختلف حیلوں بہانوں سے ڈھایا جا رہا ہے یا پھر جان بوجھ کر دیکھ بھال کے فقدان کی وجہ سے تباہ ہو رہے ہیں۔
گوکہ ثقافتی اور تہذیبی ورثے کی حفاظت کرنے والے ادارے کا مقصد تاریخی ورثے کی حفاظت ہے لیکن مشرقی علاقوں میں تاریخی ورثہ اس ادارے کی نگرانی میں تباہ کیا جا رہا ہے۔
یہ عمارتیں جو سینکڑوں اور بعض ہزاروں سال پرانی ہیں، “گرنے کے خطرے” کے بہانے تباہ کی جا رہی ہیں۔
معتبر ذرائع کی رپورٹوں کے مطابق الشرقیہ میں یہ تباہ کن اور جابرانہ رویہ نجد و حجاز پر مسلط سعودی قبیلے کی فرقہ وارانہ اور مقامی شیعہ آبادی کے خاتمے کی پالیسیوں پر استوار ہے، اس کے لئے پالیسی سازی کے مختلف شعبوں میں فیصلے کئے گئے ہیں اور اس کا مقصد شیعیان حجاز کا مقابلہ کرنا ہے جن کو – اچھی خاصی آبادی کے باوجود، – نام نہاد سعودی آئین میں تسلیم نہیں کیا گیا ہے۔
ادھر آل سعود نے پورے ملک میں سوشل سوسائٹی پر بھی منظم انداز سے اور بالقصد یلغار جاری رکھی ہے کیونکہ سوشل سوسائٹی کی سرگرمیوں کا کوئی قانون منظور نہیں ہؤا چنانچہ ایسی کوئی بھی سرگرمی شروع ہوتے ہی کچل دی جاتی ہے اور کارکنوں کو طویل المدت قید یا حتی پھانسی کی سزا دی جاتی ہے۔
دوسری طرف سے سعودی حکمرانوں کے تقسیم و تفریق کی فرقہ وارانہ رویے کے دائرے میں منطقۃ الشرقیہ کی بلدیہ، الاحساء اور القطیف کے درمیان تاریخی رشتے منقطع کرنے کی پالیسی نافذ کرنے کے لئے پچھلے مہینے، ایک نیا ادارہ قائم کیا گیا جس کو “درین اور جزیرہ تاروت کا ترقیاتی منصوبہ” رکھا گیا ہے۔
اس ادارے کا “ترقیاتی منصوبہ” کا عنوان در حقیقت ایک بہانہ ہے جس کی رو سے سعودی ریاست علاقے کی آبادی کا تناسب بگاڑنے اور خطے کے ثقافتی، تہذیبی اور تاریخی ورثے کے خاتمے کے لئے کوشاں ہے۔
منطقۃ الشرقیہ کے نائب گورنر احمد بن فہد نے جزیرہ تاروت کے بعض علاقوں پر دست اندازی کے ایک منصوبے کا انکشاف کرتے ہوئے فاش کیا ہے کہ اس منصوبے کے پہلے مرحلے میں ترکی کے صنعتی علاقے کی جزیرے سے باہر منتقلی قرار پائی ہے اور کارخانے اور اس کے مالکین کو پہنچنے والے نقصان کے ازالے کا کوئی منصوبہ مد نظر نہیں رکھا گیا ہے؛ یہاں تک کہ انہیں دوسرے کسی علاقے میں اپنی صنعتی فعالیت کے آغاز کی مہلت بھی نہیں دی گئی ہے۔
سنہ 2020ع‍ میں بھی سعودی حکام نے بادرانی نامی محلے اور وہاں سرگرم عمل بجری اور سیمنٹ کے کارخانے کو “تجاوزات” اور “تعمیر نو” کے بہانے ویراں کر دیا گیا تھا، اور اس محلے کے مکینوں اور کارخانوں کے مالکین کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا گیا۔ حالانکہ یہ علاقہ بہت سے خاندانوں کا ذریعۂ معاش تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔