امارات کے اسرائیلی سیلبرائٹ کمپنی کے سیکورٹی معاہدے میں ڈیوڈ میدان کا کردار
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ
جیسا کہ کہا گیا سیلبرائٹ ایک اسرائیلی کمپنی ہے جو ڈیجیٹل ڈیٹا کے شعبے میں سرگرم عمل ہے۔ اس بارے میں اضافی معلومات یہ ہیں کہ سیلبرائٹ کی مصنوعات کے صارفین دنیا بھر میں سیکیورٹی، انٹیلی جنس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے، ساتھ ہی دنیا کی بہت سی بڑی ڈیجیٹل کمپنیاں، بشمول ایپل، گوگل، اور رائزن (23) نیز بڑے بینک ہیں جو اندرونی قانونی تحقیقات کے لئے اس کمپنی کی مصنوعات کو بروئے کار لاتے ہیں۔ سیلبرائٹ کمپنی سنہ 2020ع میں، ڈیوڈ مِیدان کی ثالثی اور متحدہ عرب امارات کے اس وقت کے ولی عہد اور موجودہ سربراہ محمد بن زائد کے ساتھ محمد دحلان کے تول مول کے نتیجے میں متحدہ عرب امارات کے سیکیورٹی ادارے کے ساتھ 30 لاکھ ڈالر کے ایک اہم معاہدے پر دستخط کرنے میں کامیاب ہوئی۔ (24)
اماراتی حکومت موبائل فونز، ذاتی کمپیوٹروں، کلاؤڈ کمپیوٹنگ اسپیس میں موجود معلومات، یہاں تک کہ ذاتی ڈرونز کی وہ معلومات – جنہیں امارات کی سیکورٹی فورسز نے ریکارڈ کیا ہوتا ہے – کو جمع کرنے کے لئے سیلبرائٹ کی مصنوعات استعمال کرتی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ سنہ 2019ع کے وسط کے اعداد و شمار کے مطابق، امارات کے ساتھ اس معاہدے سے قبل مبینہ “موبائل قانونی طب” (25) (یعنی موبائل فون سے شواہد کو اکٹھا کرنا اور جانچنے کے اوزاروں کا استعمال) کی منڈی کے 45 فیصد حصے پر سیلبرائٹ کمپنی ہی قابض تھی اور اس کی مصنوعات دنیا بھر کی پولیس کی 75 فیصد تحقیقات (تفنتیش) میں بنیادی کردار ادا کرتی تھیں۔
چنانچہ اس طرح کے معاہدے پر اماراتی حکومت کے دستخط کرنا، خلاف توقع نہ تھا؛ اور پھر بن زائد آل نہیان قبیلے کی پالیسی بھی اسی روش پر مرتب کی گئی ہیں اور سائبر اسپیس پر جاسوسی کے آلات کا استعمال اس قبیلے کی حکمرانی میں معمول کا مسئلہ ہے۔ اسی بنیاد پر، سیلبرائٹ کمپنی این ایس او اور البیت سسٹمز سمیت دوسری اسرائیلی کمپنیاں “شہریوں کی فون کالز چوری چھپے سننا، پڑوسی ممالک کی جاسوسی اور ڈیٹا ٹریفک کو محدود کرنے” کی تین تہہوں میں امارات کا ہاتھ بٹا رہی ہیں۔ (26)
آل نہیان کے انتظامی روشیں مِیدان کے زبانی
جیسا کہ پہلے بھی بیان ہؤا، ڈیویڈ مِیدان امارات میں متعدد اسرائیلی کمپنی کا مشیر اور کارگزار ہے۔ وہ امارات میں اسرائیلی کمپنیوں اور کاراندازوں (27) کو مدد بہم پہنچاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں سے ایک امارات کا نام دبئی ہے جس کے بارے میں مِیدان کا دعویٰ ہے کہ ‘جو چیز دبئی اور متحدہ عرب امارات کو دوسری عرب ریاستوں سے ممتاز بناتی ہے یہ ہے کہ یہاں اثرگذار انتظام موجود ہے۔ امارات کی قیادت بالکل صحتمند ہے اور اپنے کام کو پیشہ ورانہ انداز سے آگے بڑھاتی ہے۔ آپ اس چیز کو پوری اماراتی مملکت میں دیکھ سکتے ہیں۔ یہاں کے عوام اپنے قائدین کا احترام کرتے ہیں اور حکومت عوام کو اپنی دولت میں شریک سمجھتی ہے اور اسی وجہ سے یہاں کا انتظآم اثرگذار ہے’۔ (28)
مِیدان امارات کی انتظامیہ کی افادیت کی تعریف کرتا ہے جس کی بنیاد ہی اس کے سابقین اور پیشرو جاسوسوں نے رکھی ہے اور یہ ریاست اسرائیلی قواعد کے مطابق قائم ہے اور کام کر رہی ہے چنانچہ ایک اسرائیلی جاسوس اس کو ایک منظم، کازگزار اور کارآمد حکومت جیسے القاب دے رہا ہے۔
یہ کہنا ضروری ہے کہ امارات کی آبادی کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: 21 لاکھ مقام عرب اور 70 لاکھ غیر ملکی مزدور جنہیں سو فیصد امتنیازی سلوک کا سامنا ہے نہ ان کو انشورنس کی سہولت دی جاتی ہے اور نہ ہی عرصہ دراز تک اس ملک کی خدمت کرکے انہيں شہریت دی جاتی ہے اور پھر انہیں اپنے موجروں کے ظلم و جبر کا سامنا بھی ہوتا ہے، اقامتی پرمٹ کے عوض انہیں کفیل کو اچھی خاصی رقم ادا کرنا پڑتی ہے اور معمولی سے بہانے پر انہیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑتی ہیں، یا پھر دہشت گردی وغیرہ جیسے القابات سے نواز کر عرصے تک جیل میں رکھ کر انہيں ملک بند کیا جاتا ہے، اور یوں وہ بےروزگار ہوجاتے ہیں جبکہ انہیں ریٹائرمنٹ کے حوالے سے کچھ بھی نہیں دیا جاتا۔ حال ہی میں صہونی دشمن کے ساتھ اعلانیہ تعلقات کی بحالی کی تمہید کے طور پر آل نہیان ہزاروں پاکستانی تاجروں اور مزدوروں کو گرفتار کیا جن میں سے اکثر افراد کو اس لئے قید یا ملک بند کیا گیا کہ ان پر صہیونی ریاست کی مخالفت کا شبہہ تھا۔ بہرصورت صہیونی جاسوس ڈیوڈ مِیدان غاصب صہیونی ریاست کے آنکھ کے تارے “متحدہ عرب امارات” کی قصیدہ گوئی میں آسمان و زمین کے قلابے ملاتے ہوئے ایک قدم اور بھی آگے بڑھاتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ “بھارت اور پاکستان اور دنیا بھر کے مختلف ممالک سے آنے والے مزدور بھی اس ملک میں مقیم ہے لیکن اس نکتے کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ یہ غیر ملکی مزدور اس ملک میں بہت خوش ہیں؛ ان کے تمام حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے، انہیں اچھی خاصی تنخواہیں دی جاتی ہیں اور ان کے ساتھ منصفانہ سلوک روا رکھا جاتا ہے!”۔

اوپر کی تصویر کا مالک متحدہ عرب امارات کے (کالز سننے کے جاسوسی ادارے) “سگنل انٹیلی جنس ایجنسی” کا سربراہ محمد الکویتی ہے جو ڈیوڈ مِیدان کے قریبی دوستوں میں شمار ہوتا ہے۔
مِیدان کی نظر ميں متحدہ عرب امارات کا بانی اور خودخواندہ باپ “شیخ زائد بن سلطان آل نہیان اماراتیوں کا داوید بن گوریون (29) ہے”۔ جو اس ملک کے تمام اہم قبائل کو متحد کرنے میں کامیاب ہؤا اور ایک وفاق کی بنیاد رکھی۔ مِیدان کا کہنا ہے: “شیخ زائد کے نظریات بہت سادہ اور قابل فہم ہیں: تحمل و بردباری، میانہ روی اور اعتدال پسندی اور امن و آشتی۔ شیخ زائد کے یہ اصول تربیت اور ترقی کے میدان میں وسیع سرمایہ کاریوں کے ساتھ آگے بڑھے ہیں۔ اماراتی [اپنے صہیونی استادوں کی مدد سے] نوجوان اہلیتوں اور صلاحیتوں کا سراغ لگاتے ہیں اور تعلیم جاری رکھنے کے لئے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں روانہ کرتے ہیں اور پھر اس کا پھل چن لیتے ہیں اور اپنی سرمایہ کاری کو جاری رکھتے ہیں، یہ عمل غیر معمولی ہے۔ بطور مثال امارات کی سائبر سیکورٹی کا “محمد الکویتی” ہی کو لے لیجئے: وہ اسرائیل کو اپنی ہتھیلی کی طرح پہچانتا ہے۔ اس نے کمپیوٹر سائنس میں تین ڈگریاں امریکی یونیورسٹیوں سے حاصل کی ہیں۔ ایک پیشہ ور انسان ہے جو سیاست میں ملوث نہیں ہوتا؛ اس کی پوری توجہ سائبر سیکورٹی اور اس شعبے میں مستقبل کی ترقی پر مرکوز ہے”۔
سوال: دشمن کا جاسوس ایک ملک کے حکام کی تعریف کرے تو اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے؟ جواب آپ خود ہی تلاش کیجئے۔
[…] تجزیاتی ویب سائٹ: گزشتہ سے پیوستہ صہیونی ریاست کے ساتھ انور السادات کی سربراہی […]