امام محمد باقر (علیہ السلام ) کے نقوش حیات اور ہم
ایک ذمہ دار شیعہ کی یہ ایک معمولی سی پہچان ہے کہ وہ دوسروں کا بوجھ اٹھاتا ہے کسی کے اوپر بوجھ نہیں بنتا۔ تو آئیں امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت کی مناسبت سے عہد کرتے ہیں کہ مولا ہم اپنی زندگی کو اس طرح گزاریں گے کہ ہرگز کسی پر بوجھ نہ بنیں اور محنت و لگن کے ساتھ کوشش کریں گے
فاران: معنویت و روحانیت کے فقدان کے بحران سے جوجھتے اس دور میں ہم سب کے لئے ضروری ہے ان ہستیوں کے نقوش حیات سے چھننے والی روشنی کی طرف متوجہ ہوں جنہوں نے جہالت دبیز تاریکیوں میں ایسے چراغ علم و حکمت جلا دئیے جو رہتی دنیا تک اجالا کرتے رہیں گے اور دنیا ان چراغوں کی روشنی میں ترقی کے منازل طے کرتی رہے گی یہی سبب ہے کہ
ائمہ طاہرین علیھم السلام کی عملی زندگی کے گوشوں سے آشنائی آج کے دور کی اہم ضرورت ہے،
معنویت کے بحران سے جوجھتی دنیا اور ہمارا سہارا
آج معنویت کے بحران سے جوجھتی اس دنیا میں اگر ہمارا کوئی سہارا ہے تو یہی ذوات مقدسہ ہیں جنہوں نے اپنی پرمعنی زندگی میں ہمارے لئے پربار زندگی کے اتنے خوشے رکھ دیئے ہیں کہ ہم چُنتے چُنتے تھک جائیں گے لیکن ان میں کمی واقع نہیں ہوگی۔ ہمارے سماج و معاشرہ میں جوان نسل آج اس ضرورت کو محسوس کر رہی ہے کہ آئمہ طاہرین علیھم السلام کی عملی زندگی سے آشنا ہو چنانچہ آج آئمہ اطہار علیھم السلام کی زندگیوں پر اس لحاظ سے نظر ڈالنے کی ضرورت ہے کہ انکی عملی زندگی میں ہمارے لئے کیا تھا۔ بسا اوقات ہم آئمہ طاہرین علیھم السلام کی زندگی کے ان الٰہی پہلوؤں پر ہی نظر ڈالتے ہیں جنکا ہم سے کوئی عملی تعلق نہیں ہے، مثلا انکا علم غیب، یا آنے والے زمانے کے سلسلہ سے انکی پیشین گوئیاں، یا مناظروں میں بغیر سوال پوچھے جواب دینا وغیرہ، یہ سب کے سب انکے فضائل و کمالات میں ہیں اور ہم سب کو ان پر فخر ہونا چاہیئے کہ ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام کمالات کی ان عظیم بلندیوں پر فائز تھے جنہیں ساری دنیا مل کر بھی نہیں حاصل کر سکتی، لیکن ہمیں اس رخ سے بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ انکی عملی زندگی میں ہمارے لئے کیا تھا؟ چنانچہ جب ہم اپنے اماموں کی زندگی کا اس رخ سے مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں ایسے گوہر ہائے نایاب و گرانبہا ملتے ہیں جن کی روشنی میں ہم جادہ حیات کی ہر تاریکی کو دور کرتے ہوئے اپنے مقصد حیات کی طرف گامزن ہو سکتے ہیں۔ ایسے ہی چند گوہر نایاب ہم نے امام محمد باقر علیہ السلام کی زندگی سے نکالنے کی کوشش کی ہے جن سے ہماری معرفت میں تو اضافہ ہو گا ہی، زندگی کو بہتر طور پر گزارنے میں ہمارے لئے یہ شہ پارے بہت مددگار و معاون ہونگے۔
خاص کر اس مہینہ میں ائمہ طاہرین علیھم السلام کی زندگی کو آئینہ بنا کر اپنے سامنے رکھنا بھی ایک عظیم ثواب ہے جس مہینہ کو رجب کے نام سے جانا جاتا ہے۔ شک نہیں کہ رجب کا مہینہ یوں تو خیر و برکت کا مہینہ ہے، معنویت و بندگی کا مہینہ ہے لیکن ہمارے لئے اسکی ابتداء اس لئے اور بھی اہم ہے کہ اسکی پہلی تاریخ ہمارے پانچویں امام یعنی امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت سے منسوب ہے۔ (1) اور آپکی ولادت کی مناسبت سے ہی ہم امام محمد باقر علیہ السلام کی حیات کے کچھ نقوش آپکے سامنے رکھ رہے ہیں۔ شاید ماہ رجب کی برکتوں کے سایہ میں ہم روحانی طور پر اپنے اس امام (ع) سے کچھ نزدیک ہو جائیں، جس نے رجب کے چاند کو اپنی آمد سے اور ہی نکھار دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ رجب کی آمد کی خوشیاں امام محمد باقر علیہ السلام کی ولادت کی منابست سے ہونے والی محافل کے پیش نظر دوبالا ہو گئی ہیں۔ یہاں پر ایک ضروری بات یہ ہے کہ ہماری کوشش یہ ہونا چاہیئے کہ جب ہم اپنے آئمہ طاہرین علیھم السلام کی ولادت کی خوشیاں منائیں تو بس محفل سجا کر نہ اٹھ جائیں یہ بھی گرچہ ضروری ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ اپنی روح کو بھی ان کمالات سے سجائیں جو ہمارے آئمہ طاہرین علیھم السلام میں موجود تھے ان کمالات کو اگر جمع کیا جائے تو کئی ضخیم جلدیں تیار ہو سکتی ہیں لیکن یہاں پر اختصار کے پیش نظر ہم چند ایک ہی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔
ذکر الٰہی میں مشغول ذات:
امام علیہ السلام کی زندگی میں ہر دم ذکر الٰہی کا ہونا ہمارے لئے اب بات پر توجہ کا سبب ہے کہ جس طرح آپ خدا کو ہر پل یاد رکھتے تھے، آپ کے شیعہ ہونے کے اعتبار سے ہمارے لئے بھی ضروری ہے کہ زبان کو ادھر ادھر کی باتوں میں استعمال کرنے کے بجائے ذکر الٰہی میں استعمال کریں۔ ابن قداح نے امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہےکہ آپ فرماتے تھے، “میرے بابا کثیرالذکر تھے، خدا کی یاد میں رہتے تھے اسکے ذکر میں مشغول رہتے تھے، جب میں انکے ساتھ کھانے کے لئے دسترخوان پر بیٹھتا تو دیکھتا کہ انکی زبان ذکر الٰہی میں مشغول ہے، وہ لوگوں سے گفتگو بھی کرتے تو ذکر خدا سے غافل نہ ہوتے، میں ہمیشہ ہی انہیں لا الہ الا اللہ کہتے دیکھتا، ہمیں گھر میں جمع کر کے وہ کہتے سورج کے طلوع ہونے تک ذکر خدا کرو، جو قرات قرآن میں مشغول ہونا چاہتا طلوع آفتاب تک وہ ذکر خدا کرتا اور جو قرآن کی تلاوت نہیں کرتا آپ اسے حکم دیتے ذکر الٰہی میں مشغول رہے۔ (2) آج ہمارے گھروں سے اگر ہر قسم کی آوازیں سنائی دیں لیکن قرآن کی آواز نہ سنائی دے تو کیا سمجھا جائے؟ یہ فیصلہ ہم خود کریں جبکہ امام کی خود بھی ذکر الٰہی میں مشغول رہتے تھے دوسروں کو بھی تلاوت قرآن و ذکر الٰہی میں مشغول رہنے کا حکم دیتے تھے۔ ہم اپنا محاسبہ کریں کہ صبح جب ہماری آنکھ کھلتی ہے تو سب سے پہلی آواز ہمارے کانوں میں کس چیز کی آتی ہے، گھر سے تلاوت قرآن کریم اور ذکر الٰہی کی آوازیں آتی ہیں یا شیطانی آوازیں ہمارا استقبال کرتی ہیں؟۔
باطل کی وجہ سے حق سے منھ نہ موڑنا:
زرارہ بن اعین کہتے ہیں امام محمد باقر علیہ السلام قریش کی ایک تشیع جنازہ میں حاضر ہوئے، میں بھی آپ کی خدمت میں تھا، عطاء بن ابی رباح نامی اس دور کی ایک شخصیت بھی حاضرین میں تھی، جنازے کے پیچھے ایک خاتون بہت زور سے چلا کر رو رہی تھی اور فریاد کررہی تھی، عطاء نے اس خاتون سے کہا، خاموش ہو جاؤ تمہاری آواز نہ نکلے لیکن وہ عورت گریہ کرتی رہی اور اسکی فریادیں بلند تھیں جس کے سبب عطاء نے کہا تم اگر خاموش نہ ہوئیں تو میں تشییع چھوڑ کر چلا جاونگا، پھر بھی وہ عورت خاموش نہ ہوئی تو عطا نے تشیع جنازہ چھوڑ دی۔ میں نے امام علیہ السلام سے کہا مولا عطاء نے تشیع جنازہ کو ترک کر دیا، امام علیہ السلام نے پوچھا کیوں؟ میں نے کہا یہ عورت جو تشیع جنازہ میں فریاد کر رہی تھی اس کے سبب امام علیہ السلام نے کہا کہ تشیع جنازہ کو جاری رکھو اگر ہم کسی صحیح جگہ پر کوئی غلط بات دیکھتے ہیں تو اسکی وجہ سے حق کو نہیں چھوڑتے، اگر کوئی انسان کسی درست و صحیح مقام پر کسی بےجا کام کی وجہ سے صحیح کام کو چھوڑ دے تو اس نے اپنے مسلمان بھائی کے حق کو ادا نہیں کیا ہے۔
جب نماز میت ختم ہو گئی تو میت کے ولی نے امام کی خدمت میں عرض کی مولا آپ واپس چلے جائیں، میں نے بھی امام علیہ السلام سے عرض کی، مولا مجھے بھی آپ سے کام ہے اس لئَے واپس چلتے ہیں مولا نے کہا ہم نے اس لئے تشیع جنازہ میں شرکت کی کہ خدا کے اجر و فضل کے مستحق قرار پائیں، اس میں کسی کی اجازت کا معاملہ نہیں ہے، انسان جسقدر بھی جنازے کے ساتھ رہے گا اتنا ہی اسے اجر نصیب ہوگا (3)۔ عطاء بن ابی رباح کے بارے میں ہے کہ درباری ملاؤں میں ایک تھا جس کی بنی امیہ میں بڑی بات تھی اور وہ اسکا خاص احترام کرتے تھے، حتٰی لوگوں کے درمیان یہ مشہور تھا کہ عطاء کے علاوہ کسی کو فتوٰی دینے کا حق نہیں ہے۔ ہم غور کریں امام علیہ السلام کا یہ عمل ہمیں کیا سبق دے رہا ہے؟ آیا کسی ایک چھوٹی سی غلط بات کو کسی دوسرے ثواب کے کام میں رکاوٹ بنایا جا سکتا ہے؟ یا پھر ہمیں سماج اور معاشرے کو سدھارنے کے لئے تھوڑا صبر و تحمل سے کام لینے کی ضرورت ہے؟ معاشرے میں کسی غلط رسم و رواج کی بنیاد پر کسی مستحب کام کو ترک کر دینا بنی امیہ کے ٹکڑوں پر پلنے والے کسی عطائی کی فکر تو ہو سکتی ہے باقری فکر ہرگز نہیں۔
تسلیم و رضا:
امام محمد باقر علیہ السلام کے پاس کچھ لوگ آئے، دیکھا کہ امام علیہ السلام کے پاس ایک بچہ ہے جس کی طبیعت خراب ہے اور سخت علیل ہے بچے کی علالت کی وجہ سے امام علیہ السلام بھی شدید طور پر متاثر ہیں اور سخت مضطرب و پریشان ہیں، انہوں نے اپنے آپ سے کہا خدا نہ کرے اس بچے کا انتقال ہو جائے ورنہ امام کو جس پریشانی کہ عالم میں ہم نے دیکھا ہے اس کے مطابق امام کو بھی خطرہ لاحق ہے۔ اتنے میں عورتوں کے نالہ و شیون کی آوازیں بھی بلند ہو گئیں، پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ بچہ دنیا سے چلا گیا، کچھ ہی دیر کے بعد امام علیہ السلام انکے پاس آئے تو لوگوں نے دیکھا اب امام کی وہ کیفیت نہیں ہے جو پہلے تھی۔ لوگوں نے کہا ہماری جانیں آپ پر قربان! ہم نے تو جب بچہ مریض تھا تو آپ کو اس عالم میں دیکھا کہ اگر خدا نخواستہ اسے کچھ ہو جائے تو آپ کی جان کو خطرہ ہو جائے گا لیکن اس وقت تو آپ پہلے سے زیادہ مطمئن نظر آ رہے ہیں۔ امام علیہ السلام نے جواب دیا ہم یہ دوست رکھتے ہیں کہ ہمارا جو بھی محبوب و عزیز ہے وہ بخیر و عافیت رہے لیکن جب قضائے الٰہی کو دیکھتے ہیں تو اس کے حکم کے آگے تسلیم ہو جاتے ہیں۔ اس طرح جو خدا چاہتا ہے ہم بھی وہی چاہتے ہیں(4)۔ تسلیم و رضا کی یہ منزل یقینا بیان کرنا آسان ہے اور اس پر عمل سخت ہے، لیکن اگر امام علیہ السلام کی یہ سیرت ہم سامنے رکھیں تو ان لوگوں کو بڑا حوصلہ ملے گا جن سے ان کی قیمتی چیز چھن گئی یا کوئی عزیز و چاہنے والی ذات اس دنیا سے رخت سفر باندھ کر دیار باقی کی طرف کوچ کر گئی۔
غضبِ الٰہی کا خوف و ڈر:
تبصرہ کریں