فاران: شام میں 7 سے 18 دسمبر تک ہونے والے اسٹریٹجک واقعات ایک طے شدہ اور دستاویزی منصوبے کے تحت وقوع پذیر ہوئے ہیں، لیکن شام کا سیاسی مستقبل، حکومتی نظام اور خارجہ تعلقات اب بھی غیریقینی کا شکار ہیں۔ اردن میں عرب ممالک کا ہنگامی اجلاس، اس کا حتمی اعلامیہ، تحریرالشام کے رہنماؤں کے بیانات، امریکی حکام کے تبصرے اور اسرائیلی حکومت کی پوزیشن ان سب کے درمیان ایک واضح پریشانی جھلکتی ہے۔
تحریرالشام کے اندرونی مسائل
تحریرالشام کے رہنماؤں نے اپنے بیانات میں کافی محتاط رویہ اپنایا ہے اور داخلی کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے 400 فیصد تنخواہوں میں اضافے جیسے وعدے کیے ہیں۔ ساتھ ہی وہ “ٹیکنوکریٹ حکومت” کے قیام کا وعدہ کر کے مختلف بین الاقوامی حلقوں کی تشویش دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن محدود مالی وسائل کی وجہ سے یہ وعدے پورے کرنا تقریباً ناممکن نظر آتا ہے۔
تحریرالشام کے داخلی گروپوں کے درمیان خود ٹیکنوکریٹ حکومت کے بارے میں بھی اختلاف ہے، جبکہ شام کے مختلف حصوں میں سرگرم 15 بڑے گروپ اس منصوبے سے متفق نہیں ہیں۔
داعش کا چیلنج
پہلے وعدہ شدہ اسلامی خلافت سے انحراف تحریرالشام کو داعش کے بڑے سیکیورٹی چیلنج کا سامنا کروا سکتا ہے۔ شام میں تقریباً 20 ہزار داعش جنگجو خاص طور پر مشرقی اور شمالی علاقوں میں موجود ہیں اور تحریرالشام کے گروپوں کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔
حال ہی میں علماء کا ایک بیان بھی جاری ہوا ہے، جس پر مختلف ممالک کے علماء نے دستخط کیے ہیں۔ اس بیان میں مذہبی ریاست کے قیام اور خلافت کے احیاء پر زور دیا گیا ہے۔ یہ صورتحال دمشق میں موجود تحریرالشام کے رہنماؤں پر دباؤ بڑھا رہی ہے، جو داعش اور علماء کی حمایت یافتہ شدت پسند عناصر کے درمیان مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔
ترکی کا کردار
شام میں حکومت کی تبدیلی کے بعد ترکی خود کو مرکزیت دینے کی کوشش کر رہا ہے اور ایسی ٹیکنوکریٹک اور مذہبی حکومت کے قیام کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، جو ترکی کی حمایت یافتہ ہو اور علاقائی و بین الاقوامی سطح پر قبول کی جا سکے۔ لیکن ترکی کا یہ منصوبہ شام میں اندرونی مخالفت کے علاوہ عرب ممالک، مغربی طاقتوں اور روس کی جانب سے بھی سخت مخالفت کا سامنا کر رہا ہے۔
ترکی کے پاس موجودہ اقتصادی اور سیاسی حالات میں اپنی مرضی کی حکومت کو شام میں نافذ کرنے کی صلاحیت محدود ہے۔ ترکی کے حکام نے حالیہ دنوں میں “وسیع المشرب حکومت”، “مذہبی اور نسلی حقوق کا تحفظ”، اور “ایران اور حزب اللہ کے ساتھ تعلقات” کی بات کر کے ماحول کو اپنے حق میں سازگار بنانے کی کوشش کی ہے۔
عرب ممالک کی تشویش
عرب ممالک کے حالیہ اجلاس اور ان کا حتمی اعلامیہ شام میں نئی حکومت کی تشکیل کے حوالے سے ان کی پریشانی کو ظاہر کرتا ہے۔ اجلاس میں اسرائیل کی جارحیت اور شام کے کچھ حصوں پر قبضے کا ذکر کم ہوا، جبکہ زیادہ زور اس بات پر دیا گیا کہ نئی حکومت مذہبی نہ ہو، کسی بیرونی قوت کے زیر اثر نہ ہو، اور عرب لیگ کے ساتھ ہم آہنگ ہو۔ عرب ممالک “سیکولر عرب حکومت” کے قیام پر زور دے رہے ہیں، جو ترکی کے ماڈل سے بالکل مختلف ہے۔
امریکہ اور اسرائیل کے خدشات
امریکہ اور اسرائیل، اگرچہ شام میں مزاحمتی حکومت کے خاتمے کو اپنی بڑی کامیابی سمجھتے ہیں، لیکن وہ “آنے والے حالات” سے سخت پریشان ہیں۔ دونوں ممالک کو خطرہ ہے کہ شام میں انارکی کی صورت میں ایک نیا تکفیری گروپ پیدا ہو سکتا ہے یا لبنان کے حزب اللہ جیسا کوئی مزاحمتی ماڈل تشکیل پا سکتا ہے، جو طویل مدتی طور پر ان کے لیے ایک بڑا چیلنج بن سکتا ہے۔
معاشی چیلنجز
شام میں سیاسی تبدیلی کی بنیادی وجہ اقتصادی بحران ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں اقتصادی مشکلات کا حل مشکل نظر آتا ہے۔ عرب ممالک، جیسے سعودی عرب، قطر اور امارات، شام کو بڑی مالی امداد فراہم کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں، جب تک کہ انہیں اپنے مفادات کی ضمانت نہ ملے۔ ترکی بھی معاشی بدحالی کا شکار ہے اور 25 ملین کی آبادی کے مسائل کا طویل عرصے تک بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں۔
نتیجہ
شام میں حکومت کے نئے دعویدار موجودہ وعدوں کے عہدِ ماہِ عسل کو جلد ہی ختم ہوتا دیکھیں گے اور انہیں “اقتصادی طور پر الگ تھلگ” پڑ جانےکے حقیقی چیلنج کا سامنا کرنا ہوگا۔ یہ صورتحال شام میں مزید عدم استحکام اور انارکی کو جنم دے سکتی ہے، جس سے امریکہ، اسرائیل، ترکی اور عرب ممالک سب متاثر ہوں گے۔
https://kayhan.ir/fa/news/301876
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں