امریکہ قدم بقدم خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہا ہے

امریکہ میں تقریبا ہر روز خودسر افراد کی فائرنگ سے متعدد افراد کی جانیں ضائع ہو رہی ہیں، اسکولوں کے بچوں سے لے کر شاپنگ سنٹروں میں سیاہ فاموں کے قتل عام تک، یہ سلسلہ جاری ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں سفید فام بالادستی پسندوں کی طرف سے حالیہ اندھا دھند فائرنگ کے واقعات نے ایک بار پھر خانہ جنگی سے دوچار ہونے کی طرف قدم بقدم آگے بڑھنے کے خطرے کو آشکار کر دیا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: چند روز قبل (مئی 2022ع‍ کے آخر میں) بفیلو، نیو یارک (Buffalo, New York) میں اندھادھند فائرنگ کے واقعے نے امریکہ میں ایک تنازعہ کھڑا کر دیا۔
گوکہ امریکہ میں اس طرح کی فائرنگ اور لوگوں کی ہلاکتوں کے واقعات معمول بن گئے ہیں اور آپ ہر روز امریکی ذرائع ابلاغ میں ان واقعات کی خبریں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں، لیکن بفیلو میں ہونے والی فائرنگ کی نوعیت ایک لحاظ سے روزمرہ کی فائرنگ اور قتل و غارت کے حالیہ واقعات سے مختلف ہے اور ایک لحاظ سے ان کے درمیان مماثلت پائی جاتی ہے۔
ایک 18 سالہ سفید فام نوجوان پیٹن گینڈرون (Payton S. Gendron) نے گرفتاری کے بعد اپنا تعارف ایک فاشسٹ اور سفیدفاموں کی بالادستی پر یقین رکھنے والے شخص (white supremacist) کے طور پر کرایا۔ وہ اپنی کاروائی کے لئے ایسے شہر کو ڈھونڈ رہا تھا جس کے اکثریتی باشندے سیاہ فام ہوں۔ پیٹن گینڈرون نے بفیلو کے ایک سوپر اسٹور میں فائرنگ کرکے 13 افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا جن میں سے 11 افراد سیاہ فام تھے۔
امریکی پولیس کے مطابق، گینڈرون اپنی کاروائی کے لئے 320 کلومیٹر ڈرائیونگ کرکے بفیلو شہر تک پہنچا تھا۔
بفیلو کی میونسپلٹی کے مطابق، بفیلو شہر میں کاروائی سے گیندرون نے کا مقصد زیادہ سے زیادہ سیاہ فاموں کو ہلاک کرنا تھا۔

 

بفیلو شہر میں گینڈرون کے حملے میں زیادہ تر مرنے والے سیاہ فام تھے

دلچـسپ نکتہ یہ تھا کہ گیندرون کے پاس سے ایک 180 صفحات پر مشتمل لائحۂ عمل برآمد ہؤا جس میں سفیدفاموں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ سیاہ فاموں، سرخ فاموں اور ایشیائیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور ان کو قتل کریں۔
واشنگٹن ڈی سی کے تاریخ کے پروفیسر ڈانلڈ ارل کالینز (Donald Earl Collins) کا ایک مضمون قطر کے الجزیرہ چینل کی انگریزی سروس کی ویب گاہ پر شائع ہؤا جس میں انھوں نے امریکہ کہ حالیہ واقعات کے سلسلے میں خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکہ خانہ جنگی کی طرف آگے بڑھ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکہ آج اسی صورت حال سے دوچار ہے جس کی وجہ سے اس کو سنہ 1861ع‍ میں خانہ جنگی سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ ہم اس صورت حال کے بہت قریب ہیں۔ اتنا قریب کہ آج زیادہ تر امریکی پوری جرئت کے سااتھ اس کا اعتراف کر رہے ہیں۔
کالینز نے مزید لکھا ہے کہ پیٹن گینڈرون، ڈیلان روف (Dylann Roof)، پیٹرک ووڈ کروزیس (Patrick Wood Crusius)، پیٹرک باورز (Robert Bowers) جیسے لوگ – جنہوں نے حالیہ ایام میں نسل پرستانہ بنیادوں پر اندھادھند فائرنگ کرکے متعدد انسانوں کو قتل کیا ہے، اس بات پر اعلانیہ یقین رکھتے ہیں کہ وہ خانہ جنگی کے میدان میں اترے ہوئے ہیں۔
ان کی نسل پرستی پر مبنی دہشت گردانہ اقدامات اور اجانب بیزاری (xenophobia) (یا غير مُلکِيوں سے نَفرَت) کا مقصد ریاستہائے متحدہ میں سیاہ فام اور رنگین اکثریتی آبادی کی ممکنہ سیاسی اور اقتصادی طاقت کو روکنا ہے، جو 2040ع‍ کی دہائی تک عملی طور پر معرض وجود میں آئے گی۔
پروفیسر کالینز نے مزید لکھا ہے: روف، باور کروزیس اور گیندرون وغیرہ جیسے افراد “بڑی متبادل سازی” (Great replacement) کے نظریئے پر اجتماعی (Collective) عقیدہ رکھتے ہیں۔ یہ لوگ گرجاگھروں میں سیاہ فام عبادت گزاروں اور خریداری کے مراکز میں لاطینی نژاد افراد کے عام کے درپے ہیں۔
یہ لوگ اپنی شرانگیزیوں کے ذریعے یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سفید فام مرد امریکہ مں اس طرح کی بڑی تبدیلی کے لئے میدان جنگ میں اترے ہیں اور ان کے خیال میں سفید فام نسل، مغربی تہذیب اور امریکی انداز (American Style) کو خطرہ لاحق ہے۔

سفید فام نسل پرست “عظیم متبادل سازی” کے نظریئے پر یقین رکھتے ہیں
بڑی متبادل سازی (Great replacement) ایک تھیوری یا نظریہ ہے جو حالیہ برسوں میں بہت تیزی سے سفید فام نسل پرستوں کے درمیان فروغ پا رہا ہے۔ سنہ 2010ع‍ میں ایک انتہاپسند فرانسیسی لکھاری نے اسی نام سے ایک کتاب کے ضمن میں یہ نظریہ متعارف کرایا۔
سنہ 2019ع‍ انتہاپسندانہ تفکرات کے حامل آسٹریلوی باشندے “برینٹن ٹیرنٹ” (Brenton Tarrant) نے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ (Christchurch) کی ایک مسجد پر حملہ کیا اور فائرنگ اور قتل عام کی تصاویر سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر براہ راست نشر کر دیں۔ یہ شخص بھی بڑی متبادل سازی کے نظریئے کے حامیوں میں سے تھا، اس سفید فام نسل پرست نے اس دہشت گردانہ حملے میں 50 نمازگزار مسلمانوں کو قتل کیا۔
حال ہی میں نسل پرست سفید فاموں کے ہاتھوں سیاہ فاموں کا قتل خانہ جنگی کا دوسرا پہلو ہے جو ان لوگوں کے ذہنوں میں پروان چڑھی ہے۔
بہت سے سیاہ فاموں اور لاطینی نژاد امریکی شہریوں نے اس تبدیلی کی پیشقدمی کو محسوس کیا ہے۔
پروفیسر ڈانلڈ ارل کالینز جو درحقیقت تاریخ دان ہیں، اپنے مضمون میں مزید لکھتے ہیں: گینڈرن – جس بفیلو شہر میں اندھادھند فائرنگ کی ہے – نے ایک فاشسٹ کے طور پر اپنا صحیح تعارف کرایا ہے۔ اس کا خیال ہے کہ وہ اور اس کے فاشسٹ ہم فکر افراد فاشیت (Fascism) کے ذریعے متحد ہیں کیونکہ یہ واحد سیاسی نظریہ ہے جو سفید فاموں کو – مستقبل میں اپنی جگہ لینے والوں [متبادلین] کے خلاف – متحد کرتا ہے۔
فاشسٹ صرف قدامت پسند، نسل پرست، اجانب بیزار ہی نہیں بلکہ رجعت پسند بھی ہیں اور آخرکار وہ دہشت گردی اور تشدد کے ذریعے اپنے کھوئے ہوئے سفیدفاموں کی بالادستی پر استوار معاشرے کی – اپنے جق میں – تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی گذشتہ 15 برسوں سے دیکھ رہے ہیں کہ امریکی کانگریس کے بیشتر اراکین اور پورے امریکی [سفیدفام] سیاستدان اسی طرح کے نظریات کی حمایت کر رہے ہیں۔ آج کے بہت سے امریکی سیاستدان اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے اجتناب کر رہے ہیں کہ جس ملک کو کسی زمانے میں لوگ “سفید فاموں کا ملک” سمجھتے تھے، وہ عنقریب رنگین فام اکثریت کی سرزمین میں تبدیل ہو جائے گا۔
یہ امریکی سیاستدان ان ایام کا اشتیاق رکھتے ہیں جب سیاسی جماعتیں “سفید فام انسانوں کا ملک” اور “سفید مردوں کو حکمرانی کرنے دو” جیسے نعرے لگاتی تھیں۔ (یہ نعرے سنہ 1868ع‍ کے انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کے حامی دیا کرتے تھے)۔
رنگین فام لوگوں کے تئیں سفید فام نسل پرستوں کی نفرت برف کے ایک دیو ہیکل پہاڑ کی نوک ہے جو اب ابھر چکی ہے۔

تشدد پسند نسل پرستی کے ذریعے دہشت گردی، امریکی ڈھانچے کا جزو

حال ہی میں اندھادھند فائرنگ کرنے والے قاتلوں کے کہے ہوئے الفاظ کو شاید بے مقصد، مریضانہ یا نفرت کی علامت سمجھا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی ذہنی بیماری، یا بعض انفرادی بیماریوں کی علامت نہیں ہیں۔ تشدد پسند نسل پرستی کے ذریعے دہشت گردی ہمیشہ سے امریکی ڈھانچے کا جزو رہی ہے اور یہ رویہ غلامی کے دور سے لے کر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے جرائم پیشہ ٹولوں (Gangs) کے دور تک اور اس زمانے سے لے کر پولیس افسران کے ہاتھوں سیاہ فام باشندوں پر سب و لعن، اور ان کی پٹائی اور قتل تک جاری رہا ہے [اور جاری ہے]۔

بفیلو شہر میں دہشت گردی کا ارتکاب کرنے والا پیٹن گینڈرون

المختصر، امریکہ میں فائرنگ کے واقعات جذباتیت اور وقتی خبط و خطا کے زمرے میں نہیں آتے بلکہ یہ ایک نظریئے کے تابع ہیں اور جو لوگ حال ہی میں اندھادھند فائرنگ کے واقعات میں ملوث رہے ہیں، پہلے ہی اپنے آپ کو تمام تر سیاہ فام اور رنگین امریکی شہریوں اور سفید فام بالادستی کے مخالفین کے ساتھ لڑتا دیکھ رہے ہیں۔ نفرت اور عداولت ان کے تشدد کو تقویت پہنچاتی ہے لیکن بہرحال یہ نفرت سفید بالادستی پر ان کے راسخ عقیدے سے جنم لیتی ہے چنانچہ نفرت اس تشدد کا سبب نہیں ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ نے ایک قوم کی حیثیت سے 50 سال سے بھی زیادہ عرصے سے ایسے سفیدفاموں کو اس ملک کے سیاہ و سفید پر مسلط کردیا ہے جو سنہ 1950ع‍ اور سنہ 1960ع‍ میں سیاہ فاموں کی شہری حقوق کی تحریکوں (The civil rights movements) کی کامیابی کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔

مورخہ اٹھارہ مئی 2018ع‍ کو 17 سالہ دیمتریوس پاگورتزیس (Dimitrios Pagourtzis) نے ٹیکساس کے سانٹا فے (Santa Fe) ہائی اسکول میں فائرنگ کرکے 10 طالبعلموں کو قتل کیا۔

امریکی سفیدفام اقلیت میں بدلنے کے خلاف ہیں
امریکہ میں بھی یورپ کی طرح سماجی اخلاقیات ناپید ہے اور شادی بیاہ میں شدید کمی آئی ہے، امریکی اقدار کے عنوان سے مرد سے مرد کی شادی، عورت سے عورت کی شادی، حتی کہ محارم سے شادی اور جمادات اور نباتات اور حیوانات سے شادی نے خاندان نامی ادارے کو نیست و نابود کردیا ہے، بیشتر بچے ناجائز رابطوں کا ثمرہ ہیں اور یہ تمام نام نہاد اقدار سفید فاموں میں دوسروں کی نسبت زیادہ مقبول اور رائج ہیں چنانچہ سفیدفاموں کی آبادی میں مسلسل کمی آ رہی ہے؛ لہٰذا امریکی سفیدفام آبادی کی اس صورت حال سے خائف بھی ہیں اور اس کے مخالف بھی ہیں۔ بعض لوگ شاید اس قسم کے افکار کو ایک تنبیہ
سفید فام امریکی آبادی کے ان رجحانات کے مخالف ہیں جو ان [اکثریت] کو ریاست ہائے متحدہ کی اقلیتی آبادی میں تبدیل کرتے ہیں۔ کچھ لوگ شاید اس طرح کی سوچ کو انتباہی سمجھ لیں، لیکن وہ حالات کچھ ہمت والے امریکیوں کی پیش گوئیوں سے بھی زیادہ قریب ہیں جن کی وجہ سے سنہ 1861ع‍ میں اس ملک میں خانہ جنگی ہوئی تھی؛ اور یہ خانہ جنگی اس سے بھی کہیں زیادہ قریب ہے جسے زیادہ تر امریکی تسلیم کرنے کی ہمت رکھتے ہیں۔
اندھادھند گولیاں چلانے کے حالیہ واقعات اس اس حقیقت کی ایک اور نشانی ہے کہ اگر امریکہ گوروں کی اپنی برتری کے احساس کا کوئی مداوا نہیں کرتا، تو یہ سلسلہ بالآخر ایک نئی خانہ جنگی کا رخ کر سکتا ہے۔

سالواڈور رولانڈو راموس (Salvador Rolando Ramos) نامی 18 سالہ نوجوان نے ٹیکساس کے راب ایلیمنٹری اسکول (Robb Elementary School) [پرائمری اسکول] میں فائرنگ کرکے 19 بچوں اور دو اساتذہ کو قتل کیا۔ قاتل بظاہر لاطین نژاد تھا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔