عالمی تجربہ (روزانہ کا اداریہ)
روزنامہ کیہان
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اگر کینیڈا نے امریکہ کے سفارت خانے پر قبضہ کر لیا ہوتا، اگر ان کے عوام “امریکہ مردہ باد” کے نعرے لگاتے، اگر کینیڈا کی حکومت نے اپنی سرزمین کو امریکی کمپنیوں اور سرمایہ کاروں کے لیے بند کر دیا ہوتا اور امریکہ کو بہانہ فراہم کیا ہوتا، اگر وہ صہیونی حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کرتے اور کینیڈا کی فوج اپنے میزائلوں پر “اسرائیل مردہ باد” لکھتی، اور اگر وہ مزاحمتی محاذ کی اسی قدر حمایت کرتے، تو وہ یقیناً امریکہ کی اقتصادی جنگ کا نشانہ بنتے! لیکن کینیڈا نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا، اس کے باوجود امریکہ نے اسے 25 فیصدی ٹیرف کی دھمکی دے کر اس کے معیشت پر حملہ کیا اور یہاں تک کہ اسے اپنی سرزمین میں شامل کرنے کا عندیہ بھی دیا۔
کینیڈا نہ صرف یہ اقدامات نہیں کر رہا تھا بلکہ امریکہ کے قریبی اتحادیوں میں شمار ہوتا تھا اور دو طرفہ تعلقات میں امریکہ کو فائدہ پہنچا رہا تھا۔ 1988 میں جب امریکہ-کینیڈا آزاد تجارتی معاہدہ (CUSFTA) پر دستخط کیے گئے تو کینیڈا کے بہت سے سیاستدان اس کے مخالف تھے، کیونکہ وہ اسے امریکی مفادات کے حق میں سمجھتے تھے اور اسے کینیڈا کی خودمختاری کے لیے خطرہ گردانتے تھے۔ تاہم، امریکہ نے بغیر کسی ہچکچاہٹ اور کانگریس میں بھاری اکثریت کے ساتھ اسے منظور کر لیا۔ دو سال بعد، امریکہ نے میکسیکو کو بھی اس معاہدے میں شامل کر لیا اور دسمبر 1992 میں شمالی امریکہ آزاد تجارتی معاہدہ (NAFTA) پر تینوں ممالک – امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو – نے دستخط کر دیے۔
پھر اسکے NAFTA نفاذ کے وقت امریکہ نے اس معاہدے سے زبردست فائدہ اٹھایا، اور 2001 جریدہ “پرسپیکٹیو” نے اسے امریکہ کے لیے “خالص نفع” قرار دیا۔ 2012 میں ایک عالمی اقتصادی سروے میں 95 فیصد ماہرین نے تسلیم کیا کہ امریکہ اس معاہدے سے مستفید ہو رہا ہے، اور 2015 میں “آکسفورڈ یونیورسٹی” کے تحقیقی جریدے نے بھی تصدیق کی کہ
اس نے امریکی معیشت کو تقویت دی ہے۔
لیکن واشنگٹن کے حکمران مزید فوائد کے خواہاں تھے۔ 2017 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنے تو انہوں نے NAFTA سے علیحدگی کی باتیں شروع کر دیں اور کینیڈا اور میکسیکو کو اقتصادی دھمکیاں دے کر ایک نئے معاہدے پر مجبور کیا۔ آخر کار، نومبر 2018 میں “امریکہ-کینیڈا-میکسیکو معاہدہ (USMCA)” طے پایا، جو کینیڈا اور میکسیکو پر مزید پابندیاں عائد کرتا تھا، لیکن امریکہ اس پر بھی راضی نہیں تھا۔ 2025 میں جب ٹرمپ دوبارہ صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے اسی معاہدے کو توڑ دیا اور اگر کینیڈا و میکسیکو نے نئی شرائط نہ مانیں تو ان پر 25 فیصد ٹیرف لگانے کی دھمکی دے دی۔
یہ ہے امریکہ کا اصل چہرہ، جیسا کہ “فنانشل ٹائمز” نے لکھا:
“جب ٹرمپ کسی معاہدے پر دستخط کرتے ہیں، تو کوئی ضمانت نہیں کہ وہ اس پر قائم بھی رہیں گے”
امریکہ کے طرز عمل کو دیکھ کر یہ واضح ہے کہ نہ صرف اس کے قریبی اتحادی بلکہ دنیا بھر کے ممالک بھی اس پر اعتماد نہیں کر سکتے۔ 2017 میں، امریکہ نے “ٹرانس پیسفک پارٹنرشپ (TTP)” سے دستبرداری اختیار کی، چھ ماہ بعد “پیرس ماحولیاتی معاہدے” کو چھوڑ دیا، پھر “یونیسکو” سے الگ ہو گیا، اور اس کے بعد “اقوام متحدہ کے مہاجرین کے معاہدے” سے بھی نکل گیا۔ اسی طرح، “حقوق انسانی کونسل”، “NAFTA”، “انٹرمیڈیٹ نیوکلیئر فورس ٹریٹی”، “اوپن اسکائی معاہدہ” اور “بین الاقوامی فوجداری عدالت” پر پابندی لگانے جیسے کئی دیگر اقدامات کیے گئے۔
بائیڈن کے دور میں کچھ معاہدے بحال کیے گئے، لیکن امریکہ کی غیر مستحکم پالیسی میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی۔ ٹرمپ کے دوبارہ صدر بننے پر امریکہ نے “حقوق انسانی کونسل” اور “پیرس معاہدہ” سے پھر نکلنے کا اعلان کیا، “عالمی صحت تنظیم” سے علیحدگی اختیار کی، اور “عالمی کمپنی ٹیکس معاہدے” سے بھی پیچھے ہٹ گیا۔
امریکہ نے عملاً ثابت کر دیا کہ وہ کسی بھی بین الاقوامی معاہدے، تنظیم یا قانون کا پابند نہیں ہے۔
ایرانی مغرب پرست سیاستدانوں کے لیے یہ حقیقت واضح تھی، مگر پھر بھی انہوں نے امریکہ سے جوہری معاہدے اور دیگر امور پر بات چیت کے لئیے خواہش کا اظہار کیا
ایرانی مغرب پرست ایسے امریکہ کو دیکھنے کے باوجود ایران کی حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے امریکیوں کے لئیے کہہ رہے تھے ” ڈاکٹر پزشکیان مذاکرات کے لیے تیار ہیں، جوہری معاہدے اور شاید دیگر معاملات پر بھی۔”
ایسی تجویز دینا، اگر خوش بینانہ نقطہ نظر سے دیکھا جائے، تو محض ایک حماقت اور سادہ لوحی تھی، کیونکہ حتیٰ کہ یورپی حکام، جو امریکہ کے روایتی اور دیرینہ اتحادی سمجھے جاتے ہیں، وہ بھی امریکی موقع پرستی اور اسکے ناقابل اعتماد ہونے کی حقیقت کو سمجھ چکے تھے۔
مشینری غزہ میں داخل نہیں ہو سکے ہیں، اور کہا: “اسرائیل معاہدے کی شرائط کی پابندی نہ کر کے ثالثوں کو دباؤ اور مشکلات میں ڈال رہا ہے۔”
ٹرمپ کی ڈیڈ لائن کا اختتام
ٹرمپ نے پیر 10 فروری کی دوپہر کو وائٹ ہاؤس کے دفتر میں صحافیوں کے سامنے ایک تند و تیز اور مغرورانہ بیان دیا اور حماس کو براہ راست خبردار کیا کہ “اگر تمام اسراء ہفتہ 15 فروری دوپہر 12 بجے تک آزاد نہ ہوئے تو میرے خیال میں یہ اچھا وقت ہے کہ ہم معاہدہ منسوخ کریں، میری مراد یہ ہے کہ تمام معاہدے منسوخ ہو جائیں گے اور جہنم بھڑک اٹھے گا۔” ٹرمپ نے نیتن یاہو کی طرح سوچا تھا کہ اس طرح کی دھمکی حماس کی حکمت عملی کو درہم برہم کر دے گی اور اسے سرنڈر کرنے پر مجبور کر دے گی، اور اسی دوران دیگر ممالک بھی، بشمول خطے کے ممالک، یہ دیکھنے کے منتظر تھے کہ حماس تنظیم اس دھمکی کا کیا جواب دے گی؟ کیا وہ ٹرمپ کے مطالبات کو تسلیم کرے گی یا خطہ ایک “جہنمی” منظرنامے میں بدل جائے گا؟
مزاحمت کا جواب تمام سوالات اور شکوک و شبہات کے باوجود واضح تھا: پہلے صرف 3 صہیونی اسراءکے نام اور ان کی رہائی کی جگہ کا اعلان کیا اور پھر ایک سیاسی، سکیورٹی، نفسیاتی اور میڈیا کے لحاظ سے منصوبہ بند کارروائی میں ان 3 اسرائیلیوں کو عالمی صلیب سرخ کے حوالے کر دیا، یوں حماس نے ٹرمپ کو پہلا زوردار طمانچہ دیا۔
ٹرمپ کی دھمکیوں کو نظر انداز کرنا نہ صرف ٹرمپ کے لیے ایک بڑا طمانچہ تھا، بلکہ اس نے اسے اخلاقی اور سیاسی اعتبار سے تنگی و مشکل میں ڈال دیا۔ جب ٹرمپ نے یہ صورتحال دیکھی، تو اس نے اپنی دھمکیوں کو نظر انداز کیا اور گیند اسرائیل کے کورٹ میں پھینک دی، نیتن یاہو کو مشورہ دیا کہ وہ جو جواب مناسب سمجھیں، وہ حماس کو دیں۔ اس شرمندگی کے بعد اور مزاحمت کے استقامت اور عزم کے سامنے، ایک اسرائیلی ذریعے نے انکشاف کیا کہ ٹرمپ حماس کے ساتھ معاہدے کو اس طرح تبدیل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسرائیلی اسیروں کی آزادی کو دوسرے مرحلہ میں طے شدہ تاریخ سے پہلے مکمل کیا جائے۔ کچھ دیگر نے یہ دعویٰ کیا کہ نیتن یاہو نے تمام اسراء کی آزادی تک جنگ بندی کے پہلے مرحلے کو مزید طول دینے کی خواہش ظاہر کی۔ اس کے بعد، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے تل ابیب کا دورہ کیا اور اتوار کے روز القدس میں نیتن یاہو کے ساتھ ملاقات کی تاکہ ٹرمپ کے غزہ کے لیے منصوبے اور فلسطینیوں کو قریبی ممالک میں منتقل کرنے کے بارے میں گفتگو کی جا سکے۔
نیتن یاہو پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے
واشنگٹن کے اپنے دورے میں ٹرمپ کے وعدوں سے خوش ہو کر نیتن یاہو نے غزہ اور مزاحمت کے خلاف اپنی زبانی کاروائیوں میں اضافہ کیا، لیکن یہ خوشی زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی۔ مزاحمت کے دھمکیوں اور اس کے خلاف سخت لفاظی کے باوجود نیتن یاہو کو کامیابی حاصل نہ ہوئی، بلکہ صورتحال اور پیچیدہ ہو گئی۔ جب سب یہ توقع کر رہے تھے کہ اسرائیلی اسیروں کے چھٹے گروپ کی رہائی کی تقریب ٹرمپ کی دھمکیوں اور نیتن یاہو کی وارننگ کے بعد مختلف ہوگی، مزاحمت نے نہ صرف یہ کہ اس تقریب کو پہلے سے زیادہ شان و شوکت کے ساتھ اور زیادہ منظم طریقے سے منعقد کیا، بلکہ امریکہ اور اسرائیل کی دھمکیوں کو بالکل نظرانداز کر دیا، جس سے اسرائیل میں نیتن یاہو کے خلاف ایک نیی ناراضگی اور تنقید کی لہر پیدا ہوئی۔
نیتن یاہو اور ٹرمپ کی جانب سے سامنے آنے والی شرمندگی کے بعد، اسرائیل کے وزیر اعظم پر دباؤ بڑھا تاکہ وہ معاہدے کے مراحل کو مکمل طور پر اور ذاتی مفادات اور حساب کتاب سے آزاد ہو کر انجام دے۔ ان مطالبات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کی بیشتر سیاسی حلقے اور خاص طور پر اسرائیلی اسیروں کے خاندان نیتن یاہو کے خلاف ہیں اور وہ دوسرے مرحلے کو بھی مکمل کرنے کے لیے اس پر دباؤ ڈال رہے ہیں۔
نیتن یاہو کے مذاکراتی ٹیم کے رکن اورین سیٹر نے اس بارے میں کہا کہ “ہم نے پچھلے سال مارچ اور جولائی میں معاہدے پر دستخط کرنے کے دو مواقع ضائع کر دیے اور یہ سب نیتن یاہو کےسیاسی اور ذاتی مفادات کے حساب کتاب کی وجہ سے تھا۔”
عام سطح پر بھی، ہزاروں اسرائیلیوں نے اسرائیلی اسیروں کے خاندانوں اور نیتن یاہو کے مخالفین کے ساتھ مل کر تل ابیب اور یروشلم میں وسیع مظاہرے کیے تاکہ اسیروں کے تبادلے کے دوسرے مرحلے کے آغاز اور اس پر عملدرآمد کے حق میں آواز اٹھائی، اور کہا کہ وہ نتنیاہو کو دوسرے مرحلے کے نفاذ میں رکاوٹ نہیں بننے دیں گے۔
نتنیاہو کی جانب سے جنگ بندی کے پہلے مرحلے کی تکمیل میں رکاوٹیں ڈالنے اور غزہ میں انسان دوستانہ پروٹوکول کے آغاز کو روکنے کی کوششوں کے باوجود، اب گیند نتنیاہو کے کورٹ میں ہے تاکہ وہ دوسرے مرحلے کی بات چیت کا آغاز کرے اور اس کا آغاز صرف پہلے مرحلے کی مکمل تکمیل پر منحصر ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نتنیاہو کی جانب سے غزہ کو امداد فراہم کرنے میں رکاوٹ ڈالنے کی تمام کوششیں بے کار ہو جائیں گی۔
جرمنی کے صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے میونخ سیکیورٹی کانفرنس کے آغاز میں امریکی حکومت کو “بے ہنگم قرار دیا اور کہا:
“یہ حکومت مستحکم قوانین، دیرینہ شراکت داریوں اور اعتماد کو نظر انداز کر رہی ہے۔”
یہ معاملہ نہ صرف اسلامی جمہوریہ کے لئے اہم ہے، جو برسوں سے امریکی مداخلت اور دشمنی کا تلخ تجربہ بلکہ اب یہ چیز عالمی سطح پر اور خود واشنگٹن کے قریبی اتحادیوں میں بھی امریکہ پر عدم اعتماد ایک مشترکہ تجربہ کی حثیت سے اتنی اہم بن گئی ہے کہ اس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔
“ہم خود بھی ٹرمپ کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتے!”
سال 2017 میں جب ڈونلڈ ٹرمپ پہلی بار امریکہ کے صدر بنے، ان کے مخالفین نے انہیں اور ان کی انتخابی مہم کو روس کے ساتھ خفیہ معاہدے اور ملی بھگت کا الزام دیا۔
ٹرمپ کے داماد اور ان کی انتخابی مہم کے ڈائریکٹر جیرڈ کُشنر کا اس الزام پر ردعمل دلچسپ تھا۔
جنکاکہنا تھا:
“ہم خود وائٹ ہاؤس کے اندر بھی ٹرمپ کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کر سکتے، تو روس کے ساتھ کیا کریں گے؟!”
کُشنر، جو ٹرمپ کی جانب سے میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ معاہدے اور مشرق وسطیٰ میں ابراہیم معاہدے کی پیش رفت کا ذمہ دار کے طور پر جانے جاتے ہیں اپنے ایک تبصرے میں لکھتے ہیں:
“نہ ٹرمپ اور نہ ہی ان کی انتخابی مہم نے روس کے ساتھ کوئی سمجھوتہ کیا تھا۔ آدھے وقت تو ہم خود ٹرمپ کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہو سکتے تھے! ٹرمپ کے قریبی ساتھی اکثر میڈیا میں ان کے بیانات کی تردید کرتے تھے۔”
تبصرہ کریں