امریکہ کا کریہ چہرہ ٹرمپ کے زبانی

تیسری ہزاری کی تیز رفتار تبدیلیوں نے ثابت کر کے دکھایا ہے کہ عالمی جغرافیے کے صفحے پر مزید امریکہ نام کی کوئی بڑی طاقت باقی نہیں رہے گی اور اس کے ناجائز اولاد قدس شریف پر قبضہ کرنے والے غاصب اسرائیلی ریاست کا بھی کوئی نام و نشان نہ رہے گا۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: حال ہی میں سابق امریکی صدر ٹرمپ نے حال ہی میں ڈونلڈ ٹرمپ نے الینوائے (Illinois) میں اپنے حامیوں کے سامنے ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں حکمرانی کا اصل چہرہ بے نقاب کیا ہے جو قابل توجہ ہے:
1۔ ہماری صورت حال خطرناک ہو رہی ہے، ہم اس طرح سے متزلزل ہوئے ہیں، کہ دنیا میں مضحکہ بنے ہوئے ہیں، لوگ ہمارا مذاق اڑا رہے ہیں؛
2۔ امریکہ میں اظہار و بیان کی آزادی اور ذرائع ابلاغ کی آزادی، نہیں ہے؛
3۔ جرائم میں اضافہ ہؤا ہے، غیر قانونی ہجرت و نقل مکانی کا بازار گرم ہے، اور امریکہ اقتصادی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے؛
4۔ امریکہ گذشتہ 40 سالوں میں سب سے زیادہ افراط زر اور اپنی تاریخ میں ایندھن کی سب سے زیادہ قیمتوں کا سامنا کر رہا ہے؛
5۔ اپنا سیاسی اور اقتصادی اعتبار اور بالادستی کھو چکا ہے۔
جو کچھ ٹرمپ نے بیان کیا ہے درحقیقت آج کے امریکہ کا سیاسی – اقتصادی – سماجی چہرہ اور شکل و صورت ہے۔ سابق امریکی صدر اس ٹوٹ پھوٹ میں اپنے کردار کی طرف اشارہ کئے بغیر، امریکہ میں اپوزیشن کا کردار ادا کر رہا ہے۔ امریکہ کی صورت حال کے بارے میں ٹرمپ کا بیانیہ امریکی سیاسی کھیل میں شریک کھلاڑی، یا ایک ناقد کا بیانیہ نہیں ہے۔ وہ ایک ایسی اپوزیشن کا لب و لہجہ استعمال کر رہا ہے جس کے اپنے چہرے کا بگاڑ اس کے رقیب کے چہرے کے بگاڑ سے کچھ زیادہ بہتر نہیں ہے۔ اس نے ایک بے انتہا متنازعہ اور کشیدہ انتخابات میں صدارتی کرسی جوزف بائڈن کو واگذار کر دی اور کہا کہ یہ انتخابات آلودہ تھے، ڈیموکریٹ جماعت نے دھاندلی اور جعل سازی کے ذریعے انتخابات جیت لئے ہیں۔ آج ایک [ہر لحاظ سے] بوڑھے شخص نے سرمایہ داری نظام کے سب سے بڑے ملک میں اس [ڈوبتی] سلطنت کا وارث کے طور پر اقتدار سنبھالا ہے جس کا اپنا کوئی اختیار اور اپنی سوچ اور جسم پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔
ٹرمپ کے ان پانچ جملوں کا لب لباب یہ ہے کہ “امریکہ میں آزادی نہیں ہے اور انسانی حقوق اور جمہوریت کا بھی یہاں کوئی اتہ پتہ نہیں ہے۔
حال ہی میں مشہور امریکی اقتصاددانوں نے بیان جاری کرکے اگلے سال امریکہ میں ایسی کساد بازاری (Recession) کی وعید دی ہے جس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اگر ہم امریکہ کے بارے میں امریکی اقتصاددانوں کی رائے اور امریکی سرکار کے اعداد و شمار کے ہی مطابق خط غربت کے نیچے بسنے پر مجبور ساڑھے چار کروڑ امریکیوں کو بھی ٹرمپ کے بیان کردہ ان چند جملوں سے ملا دیں تو اس صورت میں، ہمیں اس تصویر کا ایک اور حصہ ملے گا جو وائٹ ہاؤس آج اپنے طرز حکمرانی کے بارے میں پیش کرتا ہے۔ آج کل کچھ یورپی اور امریکی ذرائع ابلاغ کے کیمرے بڑے امریکی شہروں کے مضافات میں سڑکوں کے کنارے زندگی کے ایام بسر کرنے والوں، اور پرانی بسوں اور گاڑیوں اور گتے کے ڈبوں میں سونے پر مجبور لوگوں کی رقت انگیز تصاویر پیش کر رہے ہیں؛ ایک بڑی [ماضی کی بالادست] طاقت جو آج بھی بڑی طاقت کی اداکاری کر رہی ہے۔ انسان کو یقین نہیں آتا ایک بڑی طاقت اس حد تک تزلزل اور تنزلی کا شکار ہو چکی ہو!
ہالی ووڈ اور مغربی ذرائع ابلاغ کی فوج کے ہاتھوں تصورات اور آرزؤوں کی مجسم سازی بھی اس چہرے کو سنوار نہیں سکی اور انہیں خود ہی ہر روز اپنی ٹوٹ پھوٹ اور بدنمائی ناگزیر طور پر عیاں کرنا پڑ رہی ہے۔ عجیب یہ ہے کہ مشرقی اور اسلامی ممالک میں نہ صرف بعض ذرائع ابلاغ بلکہ حکمران بھی – جن کا گمان یہ ہے کہ امریکہ آج بھی شاید گذشتہ کل کی طرح طاقتور ہے – امریکی حکمرانی کے کریہ اور بدنما چہرے کے بناؤ سنگھار کی ذمہ داری [رضآکارانہ طور پر!] سنبھالے ہوئے ہیں۔
امریکہ آج “بے مستقبلی”، (Futurelessness) “مطلق عدم کارگزاری” (Absolute inefficiency) اور “تعطل” (Deadlock) سے دوچار ہے۔ یہ وہ حقیقت ہے جس کو واشنگٹن سمیت امریکی شہروں میں مصرروف عمل تھنک ٹینکس – جن کا کام فکری موضوعات تیار کرنا، مستقبل کی پیشین گوئی کرنا اور مسائل کے حل کے لئے تجاویز پیش کرنا ہے – چلا چلا کر بیان کر رہے ہیں لیکن وائٹ ہاؤس میں کوئی بھی ان کی آواز سننے کے لئے تیار نہیں ہے۔
امریکہ کی ٹوٹ پھوٹ کی پیشین گوئیاں اس کے اندرونی اور بیرونی عوامل کی رو سے کی جاتی ہے اور قابل مشاہدہ اسباب و عوامل کی رو سے امریکہ کی ٹوٹ پھوٹ کے لئے تقریبی (Approximate) وقت کا تعین کیا جا سکتا ہے؛ مگر لیکن کچھ وجوہات تجزیہ نگاروں کی آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، امریکہ کی ٹوٹ پھوٹ پیشین گوئی، اندازوں اور تخمینوں سے پہلے انجام کو پہنچے گی؛ جیسا کہ ہم نے سوویت اتحاد نامی سلطنت کی ٹوٹ پھوٹ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) جیسے بزرگوں نے معاصر تاریخ کی شاہراہوں پر مارکسیت اور شیوعیت (Marxism) کمیونزم کی ہڈیوں کے چٹخنے کی آواز سنی تھی، لیکن اس دن کے کریملن کے رہنما سننے کو تیار نہیں تھے۔
امریکہ آج عالمی سطح ایک خطرناک کھیل کے میدان میں کود گیا ہے۔ امریکہ نے یورپ کو روس کے ساتھ زورآزمائی کے لئے میدان میں اتارا ہے۔ آج یوکرین چار ماہ کے عرصے میں 1000 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا کر :یورپ کے شام” میں تبدیل ہو گیا ہے۔ امریکہ نے اس اقدام کے ذریعے حکمرانی (Governance) کو نئے مرحلے میں داخل کر دیا ہے، جو ایک فیصلہ کن تاریخ موڑ بھی ہو سکتا ہے۔
من حیث المجموع دنیا ناگزیر طریقے سے “کثیر قطبی” نظام کی طرف بڑھ رہی ہے اور امریکہ جو سوویت اتحاد کے خاتمے کے بعد دنیا پر “مطلق العنان حکمرانی” کا دعویدار تھا، اپنی خیالی کرسی سے گر چکا ہے۔
آج دنیا پھر ایک ہی قطب [امریکہ] کی حکمرانی نہیں ہے، آج امریکی ترجمانی میں عالمی اجماع جیسی عبارات کا استعمال ممکن نہیں رہا ہے۔ اب انہیں ایشیا اور یورپ سے اپنے سپاہیوں کو جمع کرکے گھر بلانا ہوگا اور دنیا کے لوگوں کو اپنی مرضی کی زندگی بسر کرنے دینا ہوگا۔ امریکہ کے بغیر زندگی، دنیا میں امن و آشتی کی ضمانت ہے۔
ٹرمپ کی سابق انتظامیہ کے اراکین موجود حکومت کے کردار سے مایوس اور دنیا میں امریکی ضعف سے ناامید ہو کر ایک بار پھر سرگرم ہوئے ہیں، ٹرمپ کے نائب مائک پینس اور وزیر خارجہ مائک پومپیو سیاسی پسماندگی کی انتہا پر – تھوڑے سے وقفے کے بعد یکے بعد دیگر – آلبانیا پہنچ ایرانی دہشت گرد ٹولے ایم کے او (منافقین) کیمپ کا دورہ کر چکے ہیں جو ان کے اور ان دہشت گرد ٹیم کی پسماندگی کی بڑی علامت ہے۔ امریکیوں کی بےبسی کی انتہا دیکھئے کہ وہ اسلامیہ جمہوریہ ایران کے مقابلے میں کچھ شیطان پرستوں، بدعنوان مفروروں، ڈاکؤوں، ہم جنس بازوں، غدار بہائیوں اور کچھ تلاش معاش میں ملک سے بھاگنے والوں کا سہارا لینے پر مجبور ہیں اور اس نام نہاد بڑی طاقت کی بے بسی کی انتہا دیکھئے کہ وہ آج کل کچھ اندرونی سیاستدانوں کو شہنشاہیت پسندوں سمیت بیرونی ملک مقیم مخالف جماعتوں سے ملانے کی کوششیں کر رہی ہے۔
امریکہ کے بالکل بگڑے ہوئے حالات کو مغربی ایشیا میں دیکھنا ہو تو بہتر ہے کہ جعلی اسرائیلی ریاست کی صورت حال کو دیکھا جائے جسے دیکھ کر امریکہ کا لٹکا ہؤا منہ زیادہ بہتر انداز سے نظر آئے گا۔ نفتالی بینیٹ – جو ساڑھے تین سال کے مختصر عرصے میں پانچویں مرتبہ کنیسٹ (صہیون پارلیمان) کی تحلیل اور قبل از وقت انتخابات کا اعلان کرنے کے بعد مستعفی ہو چکا ہے – آج سے چند ہی دن قبل ایران کے خلاف شیخیاں بگھارنے اور غل غپاڑہ کرنے اور ایران کے خلاف “ایک ہزار خنجروں کی حکمت عملی” یا “ایک ہزار خنجروں کے ذریعے قتل” کی پالیسی کی رٹ لگانے میں مصروف تھا – کو اچانک اپنا بگڑا چہرہ اپنے قد کے برابر آئینے میں نظر آ ہی گیا اور سر جھکا کر اعتراف کرنے پر مجبور ہؤا کہ “اسرائیل کو ایک ہمہ جہتی جنگ اور اندرونی انہدام کا سامنا ہے”۔ اور یہ کہ “تاریخ میں کوئی بھی یہودی حکومت 80 سال سے زیادہ قائم نہیں رہ سکی ہے اور اسرائیل بھی اپنی آٹھویں دہائی اگلے پانچ سال میں مکمل کرلے گا”، اگر کر سکے!۔
اور ہاں نفتالی بینیٹ نے صہیونی ریاست کی تاریخ کی غیر مستحکم ترین اور مختصر ترین حکومت کا ریکارڈ بھی اپنے نام کر لیا ہے: وزارت عظمیٰ 13 جون 2121غ‍ استعفا 30 جون 2022ع‍؛ یہی نہیں بلکہ وہ اگلے انتخابات میں بھی شرکت نہیں کرے گا۔ صہیونی ریاست سنہ 1967ع‍ کے بعد کسی جنگ میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے، اور صرف مقبوضہ علاقوں میں تعمیر و ترقی اور مقبوضہ حدود کی حفاظت میں مصروف رہی ہے؛ اور پھر اسے حزب اللہ اور حماس کے ہاتھ مسلسل شکستوں کا تلخ تجربہ بھی حاصل ہے۔
تیسری ہزاری کی تیز رفتار تبدیلیوں نے ثابت کرکے دکھایا ہے کہ عالمی جغرافیے کے صفحے پر مزید امریکہ نام کی کوئی بڑی طاقت باقی نہیں رہے گی اور اس کے ناجائز اولاد قدس شریف پر قبضہ کرنے والے غاصب اسرائیلی ریاست کا بھی کوئی نام و نشان نہ رہے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: محمد کاظم انبارلوئی، مؤتلفہ پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور روزنامہ رسالت کے سابق ایڈیٹر انچیف۔