امریکہ کے تزویراتی اتحادیوں کا مشرق کی طرف رجحان
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: چینی صدر شی جن پنگ کا سات دسمبر 2022ع کے دورہ ریاض، اور ریاض میں دو عربی نشستوں کے انعقاد، نے بین الاقوامی نظام میں تبدیلیوں کے حوالے سے نئے حقائق کو نمایاں کر دیا ہے: طاقت کے توازن میں مشرق کے حق میں تبدیلی، عالمی اداروں اور رجحانات میں امریکہ کی انتہائی کمزوری، اور اس کے علاقائی اتحادیوں کے درمیان اس کے مشرقی حریفوں کی حمایت کا رجحان، بین الاقوامی نظام میں ظاہر ہونے والی اہم ترین تبدیلیوں میں سے سے ایک ہے؛ جس پر ہم ذیل میں مختصر روشنی ڈالیں گے۔
امریکہ کی خیالی بالادستی اور واشنگٹن کے مورچے سے اتحادیوں کا فرار
ڈانلڈ ٹرمپ کے دورہ صدارت میں، واشنگٹن سیاسی اور سفارتی ظرافتوں سے کم ہی کام لیتا تھا اور اپنی حکمت عملیوں کے طاقت کے ذریعے آگے بڑھانے کے لئے کوشاں تھا۔ امریکہ نے دنیا پر حکمرانی کے اس شیوے کے ذریعے اپنے عرب اتحادیوں کو باور کرایا تھا کہ گویا یہ حکمت عملی کار آمد ہے۔ دوسری طرف سے امریکہ بھی عرب ریاستوں سے تیل اور دولت کے سوا کچھ بھی نہیں چاہتا تھا اور اپنے عرب اتحادیوں کو علی الاعلان دودھ دینے والی گائے کا لقب دیتا تھا؛ یا یوں کہئے کہ ان دو اتحادیوں کی توقعات حالات پر قابو پانے کے سلسلے میں ان کی ظاہری صلاحیتوں تک محدود تھیں۔
عشروں سے صورت حال یہ تھی کہ عربوں کی دولت کے مقابلے میں انہیں وائٹ ہاؤس کی سیاسی حمایت حاصل رہتی تھی؛ اتحاد کا یہ ستون جو بائیڈن کے دور صدارت میں ہل گیا کیونکہ جو بائیڈن کو امریکی طاقت کے سلسلے میں شدید غلط فہمیوں سے دوچار ہوئے؛ اور بہت دیر سے انہيں سمجھ آ گئی کہ یک قطبی کا عالمی دور اختتام پذیر ہو چکا ہے۔ [وہ بھی اس وقت جب امریکہ کو نہایت خفت کے ساتھ افغانستان سے بھاگنا پڑا اور اس کے اتحادیوں کے درمیان بے چینی پھیل گئی اور انھوں نے چین اور روس کی طرف دیکھنا شروع کیا]؛ عرب ممالک – جو امریکہ کے علاقائی اتحادی اور مغربی ایشیا میں اس کے مفادات کی چوکیداری کرتے رہے تھے، – [ٹرمپ کے توہین آمیز برتاؤ کو برداشت کرنے کے بعد] بائیڈن کے توہین آمیز رویے کو برداشت نہ کر سکے اور کسی حد تک مغرب کی طرف مائل ہوئے۔
مشرقی رقیبوں کے مقابلے میں امریکیوں کو درپیش بھاری چیلنجوں کا سامنا
مغربی پالیسی سازی اور مشرقی پالیسی سازی کے نمونوں میں اہم ترین فرق، “ممالک کو اہمیت دینے” اور “ان کے معاملات میں مداخلت” سے عبارت ہے۔ مشرقی طاقتیں اپنے اتحادیوں سے اندرونی استحکام کے تحفظ اور بیرونی سطح پر مفادات کے حصول کی توقع رکھتی ہیں، خلیج فارس کی عرب ریاستوں کے ساتھ چین اور روس کا رویہ اسی اصول پر استوار ہے۔ چین عربوں سے توقع رکھتا ہے کہ بین الاقوامی فورموں میں بیجنگ کے مفادات کے ساتھ براہ راست مخالفت نہ کریں اور اقتصادی تبادلوں میں چین کو اپنا تزویراتی شریک سمجھ لیں۔
جبکہ، عرب ممالک بھی امریکہ کے ساتھ سابقہ اتحاد کا خلاء چین کے ساتھ متحد متحد کرکے پر کرتے ہیں، اور ایک ایسے ملک کے ساتھ اپنی اقتصادی شراکت جاری رکھتے ہیں جو ان کے سیاسی نظامات پر تنقید نہیں کرتا۔ چینی صدر نے ریاض میں عراق سے لبنان تک اور مصر سے سوڈان تک کے سربراہوں سے بات چیت کی اور ان ممالک کے وسائل – تیل لے کر زرعی پیداوار تک – سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ بیجنگ کی طرف سے اپنے اتحادیوں پر محض اقتصادی نظر، چین کو امریکہ کے اتحادیوں کے ساتھ بہت آسانی سے لین دین کی اجازت دیتی ہے اور ان ممالک کو اس ملک کی طرف کھینچ لیتی ہے۔
انسانی حقوق کے کھوکھلے دعوے امریکہ کو بھاری پڑ رہے ہیں
امریکہ نے کبھی بھی اپنے عرب اتحادی ممالک میں انسانی حقوق اور جمہوریت کو اہمیت نہیں دی ہے لیکن جب اسے سستا تیل خریدنے یا دوسرے مفادات حاصل کرنے کی ضرورت پڑی ہے، اس نے ان ممالک کو جمہوریت، سیاسی آزادی اور انسانی حقوق کے سیاسی اوزار سے بلیک میل کیا ہے اور ساتھ ہی قابو میں نہ آنے والے ممالک پر مغربی ساختہ اقدار مسلط کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے؛ جبکہ [چین سمیت] مشرقی ممالک اپنی خارجہ پالیسی میں اپنی اخلاقیاتی اقدار کو مد نظر رکھتے ہیں اور ان اقدار سے اپنے عزائم تک پہنچنے اور دوسرے ممالک میں مداخلت کا بہانہ نہیں نکالتے۔
ادھر جب سے امریکہ کے کمزور پڑنے کے بعد حالیہ برسوں میں انسانی حقوق کے حوالے سے امریکی رویوں میں بھی تبدیلی آئی ہے؛ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ امریکی ڈیموکریٹ جماعت کے پاس – اندرون ملک اپنی برتری اور ریپبلکن جماعت کے ساتھ اپنا فرق جتانے – کے، پرانے نعروں کا سہارا لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ لیکن ماضی کے برعکس، اس بار انسانی حقوق کے پرانے نعرے بائیڈن انتظامیہ کے لئے بہت بھاری پڑ گئے؛ اور یہ نعرے نہ صرف امریکہ کے اندر بحران کا سبب بنے بلکہ اس نے پورے مغرب کو (یوکرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے) عظیم بحران کی دلدل کے بیچ تنہا چھوڑ دیا۔ چنانچہ اب تیل پیدا کرنے والے عرب ممالک مشرقی طاقتوں کے اتحادی ہیں، اور بالواسطہ طور پر روس کی بساط پر کھیل رہے ہیں؛ اس توقع کے ساتھ کہ شاید امریکہ اور مغرب – یوکرین کے بحران کی وجہ سے – مزید کمزور ہو جائے۔
مقبولیت اور اثر و رسوخ؛ بین الاقوامی اداروں میں امریکہ کے کھوئے ہوئے اوزار
امریکہ نے دنیا کے لئے ادارے بنانے کی تحریک کا آغاز کیا تو تجزیہ کچھ یوں تھا کہ گویا یہ بین الاقوامی ادارے اور تنظیمیں، عالمی سطح پر امریکہ کے قانونی-مالیاتی اور انتظامی-فوجی بازؤوں کا کردار ادا کریں گی اور بعدازیں دنیا میں وہی ہوگا جب وائٹ ہاؤس چاہے گا۔ دو قطبی نظام [اور مشرقی اور مغربی بلاکوں] کے ظہور اور امریکہ کے بالادست قوت بننے کے شروع میں یہ صورت حال اقوام متحدہ، سلامتی کونسل، عالمی تجارتی تنظیم (WTO) اور پھر نیٹو کے عسکری اتحاد کی کارکردگی میں عیاں ہوکر دکھائی دی۔
یہ صورت حال امریکہ کے حق میں، جاری رہی، یہاں تک کہ حالیہ چند عشروں کے دوران مشرق نے ایک بار پھر طاقت حاصل کر لی اور جدید معاشی طاقتیں ظہور پذیر ہوئیں۔ اب امریکہ کی رقیب نئی طاقتیں اپنے لئے اور اپنے اتحادیوں کے درمیان، ادارے اور بین الاقوامی تنظیموں کو فروغ دے رہی ہیں؛ تاکہ ان کے فیصلوں کی انتظامی اور تنفیذی پشت پناہی کو یقینی بنا سکیں۔
مبینہ تیسری دنیا کے ممالک نے روس اور چین کی قیادت میں، اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر نئی سیاسی تنظیموں اور سیاسی اتحادوں کی بنیاد رکھی جو مغرب اور امریکہ پر شدید ترین ضربیں لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں؛ اس کی یک نمایاں مثال – تیل کی قیمتیں کم کرنے کے سلسلے میں – تیل پیدا کرنے والے ممالک کی نئی “اوپک پلس” کا فیصلہ ہے؛ اور امریکہ نے اپنے کمزور اور اپنے ہی حمایت یافتہ اتحادیوں کے سامنے سر تعظیم خم کرنے کے باوجود، انہیں اس فیصلے سے منحرف نہیں کر سکا اور اب اس کو مجبور ہوکر طویل عرصے تک اس تنظیم کے قیام اور اس کے فیصلے برداشت کرنا پڑیں گے۔
گویا یہ امریکہ پھر وہ امریکہ نہیں بن سکے گا!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں