امریکی اخبارنویس کا انتباہ: امریکہ زوال پذیر/ امریکیوں کے زوالِ عقل کی دلچسپ علامتیں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ایک امریکی میڈیا کارکن نے خبردار کرتے ہوئے کہا: امریکہ! جاگ جا؛ یہ ٹائٹینک جہاز برف کے گلیشیئر سے ٹکرا گیا ہے اور عنقریب ڈوب جائے گا۔
خانہ بدوش
امریکی ریاست جارجیا سے ایوان نمائندگان کی خاتون رکن، مارجوری ٹیلر گرینے (Marjorie Taylor Greene) نے خشک دودھ کی فراہمی کے حوالے سے امریکی ماؤں کی ناکامی پر کئی بار زور دیتے ہوئے، یوکرین کو بائیڈن انتظامیہ کی 40 ارب ڈالر کی فوری امداد پر کڑی نکتہ چینی کی ہے۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ – جو کم از کم سوویت اتحاد کے ٹوٹنے کے بعد سے دنیا کا آقا و سرور بنا بیٹھا تھا – سنہ 2008ع کے مالی بحران کے بعد سے تیزی سے بگڑتی ہوئی عمومی سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی صورتحال سے دوچار ہوتا آ رہا ہے۔ اس ملک میں بڑھتی ہوئی گہری سماجی دراڑوں اور نسلی تناؤ میں شدید تناؤ کے ساتھ ساتھ، یہ ملک معاشی لحاظ سے بھی 30 ٹریلین (30000 ارب ڈالر) قومی قرضوں کی وجہ سے دھماکہ خیز صورت حال سے دوچار ہے۔
امریکہ کے قومی قرضہ جات، امریکی ڈیبٹ کلاک سے ماخوذ
اسی اثناء میں، ملکی انتظام میں وفاقی حکومت کو درپیش مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود یوکرین کو جو بائیڈن کی 40 ارب ڈالر کی امداد جیسے سیاسی اور توسیع پسندانہ اقدامات، نے امریکی سیاستدانوں کو بھی احتجاج کرنے پر مجبور کرکے رکھ دیا ہے۔
حال ہی میں ایوان نمائندگان میں جارجیا سے خاتون ریپبلکن رکن مارجوری ٹیلر گرینے نے یوکرن کو جو بائیڈن انتظامیہ کی 40 ارب ڈالر کی امداد پر کڑی نکتہ چینی کی ہے اور ان کا کہنا تھا کہ ایسے حال میں کہ امریکی مائیں اپنے بچوں کو خشک دودھ کی فراہمی سے عاجز ہیں۔
مارجوری نے بائیڈن انتظامیہ نے ریاکاری، جھوٹ، منافقت اور خوبصورت مگر جھوٹے نعروں کے پیچھے پناہ لینے کا الزام لگایا ہے۔
ایک علامتی مصداق کے طور پر، ایسے حال میں امریکہ میں ہر سال کم از کم 700 ارب ڈآلر فوجی اخراجات کو مختص کئے جاتے ہیں، اس ملک کے سابقہ فوجی بہت دشوار اور ذلت آمیز زندگی گذارنے پر مجبور ہیں۔ میگزین “نیوز ویک” نے نومبر 2021ع میں رپورٹ دی تھی کہ کم از کم 37000 سابقہ امریکی فوجی بے گھر ہیں۔
لیکن ایک خاتون امریکی اخبار نویس نے سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر ایک ویڈیو کلپ نشر کیا ہے جس میں اس نے مختلف نمونے پیش کرتے ہوئے امریکہ میں “سماجی عقلیت کے زوال” (Decline of collective rationality) کے سلسلے میں خبردار کیا ہے۔ اس امریکی خاتون کے الفاظ عمرانیاتی لحاظ سے بہت زیادہ اہم اور قابل غور ہیں، کیونکہ گھر کے اندر سے اس طرح کے انکشافات عام طور پر ہالی ووڈی تصاویر میں دکھائے جاتے ہیں اور اس ملک میں طاقت کے اصل دھارے میں ان کی گنجائش نہیں ہے۔
مذکورہ اخبارنویس کے انکشافات ملاحظہ ہوں:
– گویا کسی شیطانی مخلوق نے امریکہ پر حملہ کیا ہے ۔۔۔ سب کچھ بدل گیا ہے اور کچھ بھی پہلے کی طرح نہیں ہے ۔۔۔ ہم ایسی قوم میں تبدیل ہوئے ہیں جو سماجی عقلیت کو کھو چکی ہے۔
– اگر ایک مرد عورت ہونے کا دعویٰ کرے تو ہم اس دعوے میں اس کا ساتھ دیتے ہیں۔
– اگر روس امریکی انتخابات کے نتائج پر اثر ڈالے تو یہ اچھی بات نہیں ہے لیکن اگر کروڑوں پناہ گزین انتخابات کے نتائج کو بدل دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لیکن اگر ٹرمپ اس خطرے کے بارے میں تحقیق کرے تو مجرم ہے۔
– وہ لوگ جو کبھی بھی غلاموں کے مالک نہیں رہے ہیں ان پر لازم ہے کہ ان لوگوں کو گذشتہ سینکڑوں سال کی غلام پروری کا تاوان ادا کریں، جو کبھی بھی غلام نہیں رہے ہیں۔
– جو لوگ کبھی بھی کسی یونیورسٹی میں نہیں گئے، ان پر لازم ہے کہ ان طلباء کے بھاری قرضے ادا کریں جو تعلیم حاصل کرنے کے لئے قرضہ لینے پر مجبور ہوئے ہیں۔
– ٹی بی یا پولیو کے مریض امریکہ میں داخل ہو جائیں تو ان پر کوئی ممانعت نہيں ہے لیکن اگر کتے ہمارے ملک میں داخل ہونا چاہیں تو ان کے پاس بھی کووڈ-19 ویکسین لگوانے کا سرٹیفکیٹ ہونا لازمی ہے۔
– ماہرین اور مشہور سائنسدانوں کو امریکہ میں داخلے کے لئے کٹھن مراحل سے گذرنا چاہئے لیکن سرحدوں پر، لوگوں کی ناموس پر جارحانہ حملہ کرنے والوں اور اسمگلروں کے داخلے پر کوئی قدغن نہیں ہے اور انہیں خیرمقدم بھی کہا جائے گا۔
– سرحدوں پر دیوار کشی کے اوپر پانچ ارب ڈالر کی لاگت کا آنا ناقابل قبول ہے لیکن غیر قانونی مہاجرین کو صحت کی مفت سہولتوں کی فراہمی پر 1500 ارب ڈالر خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
– یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں نقل کرو گے تو تمہیں جیل جانا پڑے گا لیکن، ملک ميں داخلے کے لئے جعل سازی سے کام لو گے تو تمہیں یونیورسٹی میں مفت تعلیم کی سہولت دی جائے گی۔
– جو لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ مرد اور عورت کی جنسیت اہمیت نہیں رکھتی، وہی لوگ خاتون صدر کے انتخاب پر اصرار کرتے ہیں۔
– ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ حو ملک سوشلسٹ ہوجائے، وہ زوال اور شکست و ریخت کا شکار ہو تباہ ہے، جبکہ ہم خود سوشلسٹ ہو رہے ہی!
– ہم میں سے بہت سے ایسے ہیں جو اپنی پیدائش سے پہلے کے واقعات کی سزا کاٹ رہے ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہیں کہ ان سے اپنے کئے کی بازخواست نہیں ہوتی۔
– مجرمین کو گرفتاری کے بعد رہا کیا جاتا ہے اور اپنے جرائم کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں لیکن اگر کوئی جرم کا سد باب کرنا چاہے تو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا ملزم ٹہرایا جاتا ہے۔ اس دیوانگی کے بارے میں اگر بات کرنا چاہو گے تو تم پر نسل پرستی کا الزام دھرا جاتا ہے۔
– قاتل مجرم کو جان سے مارنا جرم سمجھا جاتا ہے لیکن نومولود بچوں اور ماں کے پیٹ میں جنین کا قتل مجاز ہے!
– دنیا پلٹ گئی ہے۔ حق کو باطل کر دیتے ہیں اور باطل کو حق۔ برائی کا حکم دیا جاتا ہے اور اچھائیوں سے روکا جاتا ہے۔
اس خاتون اخبار نویس نے اپنا کلام اس جملے پر ختم کیا ہے:
“امریکہ! جاگ جا! یہ ٹائٹینک جہاز برف کے گلیشیئر سے ٹکرا گیا ہے اور عنقریب ڈوب جائے گا”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں