امریکی جیلیں؛ دہشت گرد بننے کے کارخانے

ابوغریب، گوانتانامو اور کمپ بوکا، عراق میں امریکہ کی قائم کردہ جیلیں، ابوبکر البغدادی اور ابومحمد الج جبولانی کے لیے خوفناک مقامات نہ تھیں، بلکہ یہ ایک سنہرا موقع تھا جس نے داعش اور بعد میں تحریر الشام جیسے گروہوں کے قیام کی راہ ہموار کی

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ابوغریب، گوانتانامو اور کمپ بوکا، عراق میں امریکہ کی قائم کردہ جیلیں، ابوبکر البغدادی اور ابومحمد الج جبولانی کے لیے خوفناک مقامات نہ تھیں، بلکہ یہ ایک سنہرا موقع تھا جس نے داعش اور بعد میں تحریر الشام جیسے گروہوں کے قیام کی راہ ہموار کی۔

فارس نیوز ایجنسی: “ہم کبھی بغداد یا کسی اور جگہ اس طرح اکٹھے نہیں ہو سکتے تھے… یہاں (بوکا جیل میں) ہم نہ صرف محفوظ تھے بلکہ القاعدہ کے رہنما سے چند سو میٹر کے فاصلے پر تھے۔” یہ ابو احمد کے الفاظ ہیں، جو داعش کے ایک رکن ہیں، اور انہوں نے 2014 میں گارڈین کے ساتھ گفتگو میں ان خیالات کا اظہار کیا۔

گارڈین نے اپنی ایک رپورٹ “داعش کی اندرونی کہانی” میں امریکی جیلوں کے اندر پیش آنے والے کئی واقعات کو بے نقاب کیا ہے۔ ان جیلوں کے سابق قیدی آج دنیا کی مشہور دہشت گرد شخصیات بن چکے ہیں۔ ابوبکر البغدادی اور جولانی ان میں سے سب سے نمایاں ہیں۔
بوکا میں کیا ہوا؟

بوکا کیمپ ایک ایسا خوفناک نام تھا جو عراق میں گرفتار کیے گئے تمام افراد کے دلوں میں لرزہ طاری کر دیتا تھا۔ شاید 2000 کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں کسی نے سوچا بھی نہ ہو کہ یہ جگہ مستقبل میں دنیا کے مشہور دہشت گردوں کی تربیت گاہ کہلائے گی، اور یہاں سے تربیت یافتہ افراد دنیا کو تشدد اور بربریت میں مبتلا کر دیں گے۔
ابراہیم عواد ابراہیم البدری السامرائی، جو ابوبکر البغدادی کے نام سے مشہور ہے اور القاعدہ عراق کا رہنما تھا، فروری 2004 میں امریکی افواج کے ہاتھوں فلوجہ (بغداد کے مغرب میں) سے گرفتار ہوا اور اسے بوکا کیمپ منتقل کر دیا گیا۔ بوکا نے بغدادی کے لیے ایک اہم موقع فراہم کیا کہ وہ اپنے تعلقات کا دائرہ دیگر گروہوں اور قیدیوں کے ساتھ بڑھا سکے اور داعش کے قیام کی بنیاد رکھ سکے۔

ابو احمد نے گارڈین کے ساتھ اپنے انٹرویو میں بوکا کی داعش کے قیام میں اہمیت اور بغدادی کے لیے قیدیوں کے احترام کا ذکر کیا۔ اس نے وضاحت کی کہ:
“وہ [ابوبکر بغدادی] امریکی افواج میں بہت احترام کا حامل تھا۔ اگر وہ کسی اور کیمپ میں جانا چاہتا تو جا سکتا تھا، لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے تھے۔ اور اسی دوران، ان کی قیادت میں ایک نئی حکمت عملی امریکیوں کی آنکھوں کے نیچے تیار ہو رہی تھی، اور وہ اسلامی ریاست کی تشکیل تھی۔”
اس سابقہ بوکا قیدی نے زور دیتے ہوئے کہا:
“اگر عراق میں امریکی جیلیں نہ ہوتیں، تو آج داعش کا وجود نہ ہوتا۔ بوکا کیمپ ایک فیکٹری تھی۔ اس نے ہم سب کو بنایا۔ اس نے ہماری نظریہ سازی کی… جیل بہترین ماحول تھا۔ ہم سب [تکفیری افراد] اس بات پر متفق تھے کہ جیل سے باہر آنے کے بعد ہم دوبارہ ملاقات کریں گے… ہم میں سے اکثر وہی کام کرنے لگے جو گرفتاری سے پہلے کر رہے تھے [دہشت گردانہ کارروائیاں]، لیکن اس بار ہم اسے بہتر طریقے سے انجام دے رہے تھے۔”

بغدادی نے جیل سے رہائی کے بعد داعش کی بنیاد رکھی اور عراق کے بڑے حصوں کے ساتھ ساتھ شام کو بھی افراتفری میں ڈال دیا، اور اپنے گروپ کی سرگرمیوں کو وسعت دی۔ حالانکہ بعد میں عراق اور شام کی افواج اور مزاحمتی مزھاذ کی حمایت سے اس گروپ پر بڑی حد تک قابو کیا گیا اور اسے عراق و شام کے کئی علاقوں سے نکال باہر کیا گیا، لیکن اس گروپ نے کئی سالوں تک مغربی ایشیا کو عدم استحکام کا شکار رکھا اور دیگر باغی گروپوں کے قیام کی راہ ہموار کی۔

بغدادی اور داعش نے آج کے تحریر الشام کے قیام کی بنیاد رکھی۔

الجولانی، البغدادی کا ممتاز شاگرد رہا ہےالجولانی اور البغدادی کی ملاقات 2010 میں کمپ بوکا میں ہوئی۔ الجولانی، جو اب اپنے اصلی نام “احمد الشرع” کو میڈیا اور عوام میں عام کرنے کی کوشش کر رہا ہے، 2010 میں امریکی افواج کے ہاتھوں گرفتار ہوا اور بوکا بھیجا گیا۔ یہ واقعہ اس کے داعش کے ساتھ تعلقات اور اس کی بعد کی کارروائیوں کا آغاز تھا۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق، الجولانی نے میڈیا سے اپنی گفتگو میں بتایا کہ 2011 میں بشار الاسد کی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت شروع ہونے کے بعد، البغدادی نے اسے شام جانے اور وہاں تنظیم کی ایک شاخ قائم کرنے کا حکم دیا۔
بعد ازاں، الجولانی نے “جبهہ النصرہ” کے نام سے ایک مسلح گروپ قائم کیا، جو خفیہ طور پر داعش کے ساتھ وابستہ تھا۔ لیکن 2013 میں الجولانی نے اس گروپ کا داعش سے تعلق توڑ دیا اور القاعدہ میں شامل ہو گیا۔ تاہم، القاعدہ کے ساتھ اس کا تعلق بھی زیادہ دیر قائم نہ رہ سکا، اور آخر کار 2016 میں ایک ریکارڈ شدہ پیغام میں اس نے القاعدہ سے اپنی علیحدگی کا اعلان کر دیا۔
“ہیئت تحریر الشام”، جو آج دنیا بھر میں ایک معروف نام ہے، 2017 میں الجولانی کی قیادت میں قائم ہوا۔ اس نے اعلان کیا کہ اس کے جنگجو دیگر باغی گروپوں کے ساتھ ضم ہو کر تحریر الشام کی تشکیل دے چکے ہیں۔ یہ باغی گروپ اب دمشق اور شام کے کئی علاقوں پر قابض ہے اور شامات پر حکمرانی کا خواب دیکھ رہا ہے۔
*امریکی جیلیں، تکفیریوں کی تربیت گاہ*

امریکہ کے کچھ سابقہ حکام نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ ان کے جیلوں نے تکفیری گروہوں کی تربیت میں کردار ادا کیا۔ ایما اسکائی، جو امریکی فوج کی سابق مشیر تھیں اور عراق کی صورتحال میں اہم کردار ادا کر چکی ہیں، نے داعش پر ایک دستاویزی فلم میں واضح طور پر ان جیلوں کے کردار کا ذکر کرتے ہوئے کہا:
“کچھ افراد جو ان جیلوں میں وقت گزار چکے تھے، ان جیلوں کو جہادی [تکفیری] تربیتی کیمپ کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ قیدیوں نے جیل میں ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہوئے نئے نیٹ ورک بنائے۔”
اس سے پہلے، ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی یہ بیان دیا تھا کہ باراک اوباما اور ہیلری کلنٹن نے داعش کو قائم کیا۔

https://farsnews.ir/E_Moein/173539