امریکی صدر کا عنقریب دورہ ریاض اور ممکنہ اہداف

عرب ممالک یہ سوچ کر دھڑا دھڑ امریکہ سے اسلحہ خریدنے میں مصروف ہیں کہ یوں خطے میں ان کی قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بن جائے گا۔ لیکن ان کی یہ سوچ محض غلط فہمی ہے۔ امریکہ بھی ان کی اس غلط فہمی سے بخوبی آگاہ ہے لیکن اپنے اقتصادی مفاد کی خاطر ان کی غلط فہمی کو مزید ہوا دیتا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: امریکی صدر جو بائیڈن عنقریب مشرق وسطی کا دورہ کرنے والے ہیں جس میں وہ پہلے مقبوضہ فلسطین اور اس کے بعد سعودی عرب جائیں گے۔ مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے ان کا یہ دورہ انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔ اسی طرح ان کے اس دورے کے ممکنہ اہداف کے بارے میں بھی کافی تجزیے سامنے آ رہی ہیں۔ ہم اس دورے کے ممکنہ اہم اہداف کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔
1)۔ عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کا فروغ
جب سے جو بائیڈن برسراقتدار آئے ہیں، امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات بہت زیادہ کشیدگی کا شکار رہے ہیں۔ اس کی ایک بنیادی وجہ صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران جو بائیڈن کا یہ اعلان کرنا تھا کہ وہ کامیابی کی صورت میں انسانی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے سعودی عرب کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی پر سزا دیں گے۔

لیکن صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جو بائیڈن عالمی حالات اور خطے کی صورتحال کے سبب یو ٹرن لینے پر مجبور ہو گئے۔ امریکی صدر ایسے وقت عرب حکمرانوں سے ملاقات کیلئے آ رہے ہیں جب روس کے ساتھ مغربی طاقتوں کا ٹکراو اپنے عروج پر ہے۔ لہذا امریکہ اپنے علاقائی اتحادوں کو مزید مضبوط بنانے کے درپے ہے۔ اس مقصد کیلئے امریکی صدر جو بائیڈن خطے میں اپنے اتحادی عرب ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کریں گے۔ دوسری طرف یوکرین کی جنگ عرب حکمرانوں کو اپنی اہمیت بڑھانے کا مناسب بہانہ فراہم کر چکی ہے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران امریکہ سمیت یورپی ممالک کیلئے ایک اہم ایشو انرجی کی ضروریات پورا کرنا رہا ہے۔ یہ بحران اس وقت مزید شدت اختیار کر گیا جب امریکہ اور یورپ نے روس سے تیل اور گیس خریدنے کے بائیکاٹ کا اعلان کیا تھا۔

2)۔ تل ابیب کی رفتہ سلامتی واپس لوٹانے کی کوشش
امریکی صدر جو بائیڈن اپنے مشرق وسطی دورے کے دوران مقبوضہ فلسطین کے سفر پر بہت زیادہ زور دے چکے ہیں۔ حتی جب یہودی بستیوں میں بدامنی کی لہر دوڑ چکی تھی اور تل ابیب حکومت بھی سیاسی بحران کا شکار تھی اور کینسٹ تحلیل ہو چکی تھی تب بھی وائٹ ہاوس نے یہ یقین دہانی کروائی کہ جو بائیڈن طے شدہ منصوبے کے تحت مقبوضہ فلسطین ضرور جائیں گے۔ مقبوضہ فلسطین میں بھی کئی ہفتوں کی سیاسی کشمکش کے بعد یائیر لیپید نے نیفتلی بنت کی جگہ وزارت عظمی کا عہدہ سنبھال لیا ہے اور امریکی صدر کے استقبال کی تیاری ہو رہی ہے۔ صہیونی حکمران امریکی صدر سے دو توقعات رکھتے ہیں۔ ایک سعودی عرب کی جانب سے اسرائیل سے دوستانہ تعلقات کے اعلان میں جلدی اور دوسرا اسلامی مزاحمت کی کاروائیوں میں کمی۔

غاصب صہیونی رژیم کی بقا اور سلامتی اب تک وائٹ ہاوس میں آنے والے تمام امریکی حکمرانوں کی پہلی ترجیح رہا ہے۔ موجودہ امریکی صدر جو بائیڈن بھی اس اصول سے مستثنی نہیں ہیں۔ واشنگٹن کی جانب سے تل ابیب کی غیر مشروط اور بھرپور حمایت دو اہم بنیادوں پر استوار ہے جن میں اتحادی ممالک کی پوزیشن مضبوط بنانا اور سیاسی صہیونزم کے بارے میں امریکہ کی تاریخی ذمہ داری شامل ہیں۔ اس وقت اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم شدید سکیورٹی بحران کا شکار ہے اور اس کی قومی سلامتی شدید خطرات سے روبرو ہے۔ ایسے میں امریکی صدر جو بائیڈن کے مشرق وسطی خطے کے دورے کا ایک اہم مقصد اسرائیل کی متزلزل قومی سلامتی کو مضبوط بنانا ہے۔ لیکن خطے کی موجودہ صورتحال کی روشنی میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ امریکی صدر یہ مقصد حاصل نہیں کر پائیں گے۔

3)۔ علاقائی فوجی اتحاد کی آڑ میں اسلحہ کی فروخت
امریکی صدر جو بائیڈن کے اس دورے کا ایک اہم مقصد عرب ممالک کی مدد سے ایک علاقائی فوجی اتحاد تشکیل دینا ہے۔ امریکہ اس اقدام کے ذریعے دو اہم اہداف حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پہلا مقصد اسلحہ فروخت کرنا ہے جبکہ دوسرا مقصد وہ سکیورٹی چھتری تشکیل دینا ہے جس کا دعوی امریکہ گذشتہ کئی عشروں سے کرتا چلا آ رہا ہے۔ امریکہ کی معیشت اور آمدن کا بڑا حصہ اسلحہ فروخت کرنے پر استوار ہے۔ وائٹ ہاوس جس ملک کو بھی اپنے قومی مفادات کیلئے بے ضرر تشخیص دیتا ہے اسے اسلحہ فروخت کرتا ہے۔ اس بارے میں امریکی صدر کا تازہ ترین فیصلہ میڈریڈ میں منعقد ہونے والے نیٹو سربراہی اجلاس میں سامنے آیا ہے۔ انہوں نے اس کانفرنس کے موقع پر ترکی کو ایف 16 جنگی طیارے فروخت کرنے کا اعلان کیا تھا۔

عرب ممالک یہ سوچ کر دھڑا دھڑ امریکہ سے اسلحہ خریدنے میں مصروف ہیں کہ یوں خطے میں ان کی قومی سلامتی کا تحفظ یقینی بن جائے گا۔ لیکن ان کی یہ سوچ محض غلط فہمی ہے۔ امریکہ بھی ان کی اس غلط فہمی سے بخوبی آگاہ ہے لیکن اپنے اقتصادی مفاد کی خاطر ان کی غلط فہمی کو مزید ہوا دیتا ہے۔ امریکہ سے بڑے پیمانے پر فوجی سازوسامان خرید کر یہ عرب حکمران نہ صرف اپنی قومی سلامتی کو یقینی نہیں بنا رہے بلکہ الٹا اپنے ممالک کو فوجی ڈپو میں تبدیل کر رہے ہیں جو کسی بھی وقت بڑے دھماکے سے پھٹ سکتا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اپنے پاس موجود اسلحہ کے اسی ڈپو کی بنیاد پر یمن پر جارحیت کا آغاز کیا اور سات سال سے اس جنگ کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اسلحہ اور فوجی سازوسامان کی بنیاد پر نہ تو امن وجود میں آ سکتا ہے اور نہ ہی کسی ملک کی قومی سلامتی کا تحفظ ممکن ہے۔ فوجی سازوسامان کی زیادتی ایک ملک کی خارجہ پالیسی میں مزید شدت پسندی پیدا ہونے کا باعث بنتی ہے۔ عرب ممالک بھی اس حقیقت کا احساس کر چکے ہیں اور اب وہ مذاکرات اور سیاسی راہ حل کی جانب بڑھ رہے ہیں۔