اپنے وجود کے بقا کے لیے قربانیاں دینا ہر قوم کے لیے ضروری ہے: علامہ سید جواد نقوی

اس وقت جو یہ اتنی بے رحمی سے حماس کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ جو چوٹ ان کو حماس نے لگائی ہے اس کا اندازہ دنیا کو نہیں ہے ، حماس نے صدی کی ڈیل اور آئی میک کو ناکام بنا دیا۔ اور ظاہر سے بات ہے کہ حماس اور حزب اللہ کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ کام کرتا ہے وہ ایران کا ہے۔
فاران: گزشتہ ہفتے کی اہم مناسبت 7 اکتوبر کی مناسبت تھی جس دن غزہ کی جنگ کو ایک سال مکمل ہو گیا ایک سال مکمل ہو جانے کے بعد نہ صرف اس درندگی اور وحشیگری میں کوئی کمی نہیں آئی بلکہ تیزی آئی اور دنیا جس طریقے سے ایک سال سے خاموش تھی ابھی ویسے ہی آج بھی خاموش ہے۔ یہ ایک سال تاریخ انسانیت کا دردناک ترین سال تھا جس ایک نہتی اور مظلوم قوم ظلم و بربریت کا شکار رہی اور باقی پوری دنیا اسے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہی ہو اور خاموش بیٹھی رہے۔
7 اکتوبر 2023 کے دن کو اگر ہم دیکھیں تو خود یہ دن تو اپنی جگہ ایک اہم دن ہے جس دن حماس کے جنگجووں نے اسرائیلی حصار اور زندان کی زنجیروں کو توڑ اپنی سرزمین کے دفاع کے لیے ایک بڑا حماسہ خلق کیا یہ خود اپنی جگہ بہت اہم موضوع ہے۔ 7 اکتوبر کے بعد ہونے والے واقعات نے نامہ نگاروں اور تجزیہ نگاروں کو اتنا وقت نہ دیا کہ وہ اس واقعہ پر تبصرہ کر سکیں۔
اس ایک سال میں غزہ کے مظلوم اور نہتوں کو ان کے گھروں سے باہر نکال دیا گیا ان کا قتل عام کیا گیا اور نہ صرف یہ ایک سال بلکہ گزشتہ برسوں سے ان پر ایسے ہی ظلم کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں۔ ان سے ان کی سرزمین چھین لی گئی دنیا کے مختلف ملکوں میں وہ دربدر پھر رہے ہیں کیمپوں میں گزارا کر رہے ہیں اور کوئی ان کا پرسان حال نہیں ہے۔ اسی کے خلاف فلسطین میں جدو جہد جاری ہے کہ انہیں اپنی سرزمین پر واپس لایا جائے لیکن شیاطین کا عالمی اور علاقائی سطح پر اتنا گہرا تسلط ہے کہ وہ اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیتے۔ اصل جنایتکار اور مجرم امریکہ ہے اور دیگر تمام ممالک اس کی غلامی میں زندگی گزار رہے ہیں۔
جب کسی ملت پر تمام سیاسی راستے بند کر دئیے جائیں اور انہیں ایک قید خانہ کی طرح ایک چھوٹی سی جگہ پر محصور کر دیا جائے تاکہ وہ وہاں سسک سسک کر مر جائیں تو ایسے میں اس کے پاس عقل و خرد کی روشنی سوائے اس کے کوئی چارہ نہیں بچتا کہ وہ اپنے حق کے لیے قیام کریں۔
مسئلہ فلسطین امریکہ اور ان کے علاقائی متحد ممالک نے 2022 تک اس حد پہنچا دیا تھا کہ یہ مسئلہ بطور کلی لوگوں کے ذہنوں سے مٹ جائے اور بالکل فراموش ہو جائے۔ جب اتنے اہم مسئلے کو حتیٰ لوگوں کے ذہنوں سے پاک کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو تو ایسے میں اس قوم کے لیے ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ اپنے سر تن کی بازی لگا دے اور یہی کام انہوں نے کیا۔ انہوں نے اپنی ہستی کی بقا کے لیے یہ قیام کیا۔
ایسا نہیں ہے جیسے آج بعض میڈیا کے مینڈک اپنی جہالت کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ کیا انہیں اسرائیل کی طاقت کا اندازہ نہیں تھا، انہیں اندازہ تھا لیکن جس کی ہستی ہی ختم ہو رہی ہو اور ان کے پاس سوائے اس کام کے کوئی راستہ نہیں بچتا۔ ہرچند اس جنگ میں ان کا بے حد نقصان ہوا لیکن انہوں نے صفحہ ذہن، صفحہ ہستی اور صفحہ زمین سے اپنے آپ کو محو ہونے سے بچا لیا۔ یہ قوم قربانی کے اس جانور کی طرح تسلیم نہیں ہوئے جسے منڈی سے لایا جاتا ہے اور ذبح کر کے تقسیم کر دیا جاتا ہے۔ یہ اگر نہ بھی بولتے تب بھی انہوں نے مٹ جانا تھا لیکن تاریخ کے قصائیوں نے انہیں قتل تو کر دیا لیکن انہیں صحفہ ہستی سے مٹا نہیں سکے۔ جو قوم باقی رہنا چاہے اسے کوئی مٹا نہیں سکتا۔ لیکن جو قصائیوں کے سامنے تسلیم ہو جائے اسے کوئی بچا نہیں سکتا۔
فلسطینیوں کے لیے یہی راستہ بچا تھا کہ وہ خود کو قربان کر کے اپنا وجود بچائیں، کسی کے دل میں یہ تردید نہیں ہونا چاہیے کہ حماس نے ایسا اقدام کیوں کیا، حماس کا یہ اقدام اپنی بقا کی خاطر تھا اور ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے اسلامی ممالک یا اسلامی برادری پر بھروسہ کر کے یہ اقدام کیا ہو، انہیں معلوم تھا کہ اسلامی برادری ان کا ساتھ دینے والی نہیں ہے چونکہ وہ گزشتہ ستر بچتہر سالوں سے انہیں آزما چکے ہیں۔ انہوں نے یہ راستہ اللہ پر بھروسہ اور اپنے بازوں کی طاقت اور خون کی گرمی پر بھروسہ کر کے یہ راستہ انتخاب کیا۔ اور وہ اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہوئے۔ اور ایک مرتبہ پھر فلسطین کا مسئلہ عالمی مسئلہ بن گیا۔
دنیا کی صہیونی طاقتوں جن میں امریکہ، یورپ، عرب اور ہندو لابی سب شامل تھے نے منصوبہ بنایا تھا کہ فلسطینی قوم اور فلسطینی مسئلہ کا بالکل خاتمہ کر کے اسرائیل کو علاقے میں ایک پرامن ریاست کے طور پر تسلیم کر لیں جس کے تعلقات دوسرے ممالک کے ایسے ہوں جیسے علاقے کے دوسرے سارے ممالک کے آپس میں تعلقات ہیں۔ حماس نے اس منصوبہ کو بالکل نابود کر دیا اور اس کو خاک میں ملا دیا۔ اب ان کو دوبارہ اس منصوبہ کر عملی جامہ پہنانے کے لیے سو سال مزید کام کرنا پڑے گا۔
ایسے بڑے مقاصد کے لیے بڑی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے آج تک انہوں نے اپنی بقا کے لیے بڑی بڑی قیمتیں ادا کی ہیں۔ اور نہ صرف ملت فلسطین بلکہ ان کے واقعی ساتھی جیسے ملت لبنان، ملت یمن اور عراقی مجاہدین بھی ملت فلسطین کے لیے یہ قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اور ان سے بڑھ کر جو قوم ان سب کے سروں پر سایہ بن کر بیٹھی ہے وہ ملت ایران ہے جس نے اپنے وجود کی قیمت ادا کی ہے۔ قیمت ادا کئے بغیر نہ انقلاب آتا ہے اور نہ انقلاب باقی رہتا ہے اور یہ قیمت ہر وقت آنے پر ادا کرتے ہیں۔ اور جب تک یہ قیمت ادا کرتے رہیں گے تب تک باقی رہیں گے لیکن جب خستہ ہو جائیں گے اور قیمت کی ادا کرنا چھوڑ دیں گے تب مٹ جائیں گے۔ یہ تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اگر کوئی اپنے بقا کی قیمت ادا نہیں کر سکتی اس کے لیے زوال حتمی ہے۔
فلسطینی اور لبنانی جو قیمت ادا کر رہے ہیں یہ ان لوگوں کے لیے بڑے تعجب کی بات ہے جو دور دراز ذلت و پستی کے ساتھ اپنے گھروں میں بیٹھے تماشا دیکھ رہے ہیں ان کو یہ لگتا ہے کہ کیسے ممکن ہے اتنی آسانی سے یہ لوگ مر مٹ جانے کو تیار ہو جاتے ہیں چونکہ یہ تماشا دیکھنے والے مینڈکوں کی طرح کنویں کی پستی میں ہیں لہذا ان کے لیے یہ سمجھنا دشوار ہے انہیں یہ چیز سمجھنے کے لیے کنویں سے باہر آنا ہو گا۔ اور عقلی و فکری بلوغ حاصل کرنا ہو گا تب انہیں یہ سمجھ میں آئے گا کہ اپنی بقا کے لیے قوموں کو اپنی جانوں کی قیمت کیوں ادا کرنا ضروری ہوتا ہے۔
بہرکیف، ایک سال سے فلسطینی قوم اتنی بھاری قیمت ادا کر رہی ہے اور ان کے ارادوں میں ذرہ برابر لچک نہیں آئی، ایسا نہیں ہے کہ کسی طاقت نے انہیں مجبور کیا ہوا ہے وہ جبری طاقتوں کے سامنے سینہ سپر بنے رہیں۔ اور اپنے مستحکم ارادوں کے ساتھ پہلے روز کی طرح آج بھی اپنے حق کے حصول کے لیے میدان میں ڈٹے ہوئے ہیں اور ایک قدم بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہیں یہ استقامت اور پائیداری کا بہت بڑا عملی نمونہ ہے۔ اور پست اور ذلیل لوگوں کے لیے یہ ناقابل فہم ہے۔
ملت فلسطین اس قابل ہے کہ ساری دنیا اسے تعظیم پیش کرے نیز ان کے حامی قومیں جیسے لبنان کی شیعہ برادری، یمنی، عراقی مجاہدین اور ملت ایران جنہوں نے بھی فلسطین کے ساتھ گزشتہ ایک سال میں بھاری قیمت چکائی ہے یہ سب عزت و تعظیم کے قابل ہیں اور یہ پوری دنیا کے لیے استقامت اور پائیداری کا نمونہ ہیں۔ آج کے اس ذلیل و پست سماج کے دور میں اسلامی محاذ کا یہ کارنامہ اپنے آپ بہت عظیم کارنامہ ہے اور آئندہ نسلوں کے لیے یہ ایک نصاب بن چکا ہے اور موجودہ نسل کے لیے بیداری کا سبب بھی ہے۔
دوسری جانب ظلم، بربریت، وحشیگری اور درندگی کا بھی ایک سال مکمل ہو گیا ہے امریکہ جو اپنے وجود میں ہی درندہ صفت ہے جس کی بنیاد ہی ظلم و ستم پر رکھی گئی ہے ریاستھائے متحدہ امریکہ کی تاریخ بہت پرانی نہیں ہے آپ تاریخ پڑھ کر دیکھیں کہ یورپ کے کچھ استعمار گر سفید پوست لوگوں نے امریکہ کی سرزمین پر جا کر وہاں بسے سرخ پوست لوگوں کا قتل عام کیا ان کی نسل کشی کی ۔ نسل کشی امریکہ کے وجود میں ہے امریکہ کا نطفہ ہی نسل کشی سے شروع ہوا ہے۔ خطہ امریکہ کے مقامی لوگوں کی نسل کشی کر کے وہاں اپنے شہر بسائے گئے جو فلسطین میں ہو رہا ہے اس سے بھی زیادہ بےدردی سے وہاں کے مقامی لوگوں کے خون کے دریا بہائے اور لاکھوں کروڑوں لوگوں کا صفایا کر کے وہاں بسے ہیں۔ یہ بائیڈن و ٹرمپ سب غاصب ہیں اس سرزمین کے۔ یہ سب یورپ سے جا کر وہاں قابض ہوئے ہیں۔ لیکن وہاں کے سرخ پوست لوگوں نے مزاحمت نہیں کی اور تسلیم ہو گئے آج ان کے باقی بچے کچھے لوگ جو پورے براعظم امریکہ میں بکھرے ہوئے ہیں وہ ملت فلسطین کی استقامت کو دیکھ کر یہ ضرور سوچتے ہوں گے کہ کاش ہم نے بھی مزاحمت کی ہوتی تو آج ہمارا وجود ختم نہ ہوتا۔
نسل کشی امریکہ کی ذات میں ہے اور پھر ایسی بہت ساری دیگر سرزمینیں ہیں جہاں امریکہ نسل کشی کر چکا ہے جاپان، ویٹنام، عراق، افغانستان ان سب ملکوں میں امریکہ نسل کشی کر چکا ہے دنیا کا کوئی خطہ ایسا نہیں ہے جہاں انہوں نے جا کر لوگوں کا قتل عام نہیں کیا۔ باقی قومیں ڈر و خوف کی وجہ سے ان کے سامنے تسلیم ہو جاتے رہے ہیں جاپان کی قوم ڈر کر تسلیم ہو گئی اور آج تک امریکہ کے آگے تسلیم ہے لیکن فلسطینیوں نے مثال قائم کی ہے کہ ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔
اس بڑے شیطان نے دنیا بھر سے غنڈے اور درندہ صفت لوگ اکھٹا کئے اور مکار لومڑی برطانیہ کی مدد سے سرزمین فلسطین میں ایک ناجائز ریاست قائم کی 1917 سے اس سرزمین پر قبضہ شروع ہوا اور اس کے بعد 1948 میں اس ناجائز اولاد کو جنم دیا گیا تب سے آج تک اس ناجائز اولاد کو زندہ رکھنے لیے ایک دن بھی ایسا نہیں گزرا کہ انہوں نے ظلم و ستم نہ کیا ہو 1917 سے لے کر آج 2024 تک مسلسل انہوں نے ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔
اور دوسری جو چیز ان کے ساتھ شامل ہوئی وہ عرب ریاستوں کی خیانت ہے۔ چونکہ اس سے قبل فلسطین عثمانی خلافت کے زیر تسلط تھا اور عربوں نے برطانیہ کے اکسانے پر خیانت کر کے عثمانی خلافت کا تختہ الٹا عربوں کے کچھ وحشی قبائل کو برطانیہ نے حکومتوں کی لالچ دی جیسے آل سعود اور آل نھیان ہیں اور انہیں عثمانی حکومت کے خلاف کھڑا کیا، آج عرب ریاستوں کے جتنے حکمران ہیں یہ وہی خائن عرب قبیلے تھے جنہوں نے برطانیہ کے اکسانے پر عثمانی حکومت کا تختہ الٹا اور پھر انعام کے طور پر ان ریاستوں کی حکومت حاصل کی۔ اور اس وقت سے جو خیانت کار تھے وہ ابھی تک خیانت کر رہے ہیں 1932 سے آل سعود نے مسلمانوں کے خلاف خیانت شروع کی اور آج تک کرتے آ رہے ہیں۔ جنایکتار جنایتیں کرتے رہے اور خیانتکار خیانتیں اور دیگر ممالک صرف تماشا دیکھتے رہے اور اس طرح یہ ناپاک صہیونی ریاست وجود میں آئی۔
گزشتہ سال 7 اکتوبر سے تو ان کے جنایتوں کا ایک نیا چہر سامنے آیا ہے ورنہ گزشتہ ایک صدی سے یہ ظلم و ستم فلسطینیوں پر ایک دن کے لیے نہیں رکا ہے۔ سوشل میڈیا کے مینڈکوں کو صرف 7 اکتوبر ہی یاد ہے اس سے پہلے کی تاریخ سے وہ ناواقف ہیں۔ محمود عباس دیگر عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر فلسطین کا سودا کرنے جا رہے تھے تو حماس نے بڑھ کر ان کے اس منصوبہ کو ناکام بنایا ہے۔
ایک تو صدی کی ڈیل کا منصوبہ تھا جو ٹرمپ اور اس کے داماد نے عرب ریاستوں کے ساتھ مل کر بنایا تھا جسے حماس نے 7 اکتوبر کر ناکام بنایا آپ کو معلوم ہے کہ ٹرمپ نے قدس کو اسرائیل کا دار الخلافہ بنا دیا تھا اور گولان کا علاقہ جو شام کا حصہ تھا اسے اسرائیل کو تحفہ دے دیا تھا حماس نے اس اس صدی کی ڈیل کو بھی خاک میں ملایا۔
دوسرا منصوبہ جو چین کے مقابلے میں بنایا گیا تھا جو بہت اہم ہے جو امریکہ اور یورپ نے مل کر چین کو ناکام کرنے کے لیے منصوبہ بنایا تھا، یہ اصل میں چین کے اس منصوبہ کے خلاف تھا جو چین کا منصوبہ ون روڈ ون بیلٹ تھا یعنی پوری دنیا کو ہوائی، آبی اور خشکی راستوں سے آپس میں متصل کرنا۔ جو تاریخ میں چین کا پہلا یہ مقام تھا، شاہراہ ریشم جس کے ذریعے پوری دنیا چین سے متصل تھے اسی منصوبہ کو آج چین نے ون روڈ ون بیلٹ کے نام سے پوری دنیا کو آپس میں متصل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کے تحت یہ تھا کہ پوری دنیا میں کچھ آزاد شاہراہیں اور آزاد ایئرپورٹس اور بندرگاہیں تیار کی جائیں جن کے ذریعے پوری دنیا آپس میں مل کر تجارت کر سکے۔ اس منصوبہ کو وہ پوری تیاری سے آگے بڑھا رہے تھے جس کی وجہ سے امریکہ پر بھوکلاہٹ طاری ہوئی۔ امریکہ نے اس خوف سے کہ پوری دنیا پر چین کا قبضہ نہ ہو جائے چین کو لگام دینے کے آئی میک نام کا منصوبہ بنایا۔ شاہرہ ریشم چین سے شروع ہوتا ہے لیکن آئی میک کا منصوبہ ہندوستان سے شروع ہوتا ہے۔ ہندوستان کی بندرگاہوں سے سامان نکلے گا اور عرب ریاستوں سے ہوتا ہوا بندرگاہ حیفا کو جوڑ کر یورپ سے ملانا تھا۔ اس منصوبہ پر کام شروع ہو چکا تھا اور وہ اس منصوبہ کو کافی آگے لے جا چکے تھے تااینکہ حماس نے 7 اکتوبر کو یہ حملہ کر کے اس منصوبہ کو بھی ناکام بنا دیا۔
اس وقت جو یہ اتنی بے رحمی سے حماس کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس کی ایک وجہ یہی ہے کہ جو چوٹ ان کو حماس نے لگائی ہے اس کا اندازہ دنیا کو نہیں ہے ، حماس نے صدی کی ڈیل اور آئی میک کو ناکام بنا دیا۔ اور ظاہر سے بات ہے کہ حماس اور حزب اللہ کے پیچھے جو ماسٹر مائنڈ کام کرتا ہے وہ ایران کا ہے۔
اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوتا تو اسرائیل نہ صرف ایک پرامن ریاست میں تبدیل ہو جاتا بلکہ پوری دنیا کی تجارتی ضرورت بن جاتا اور تجاری گزرگاہ کے طور پر اسے دیکھا جاتا اور اسرائیل کی اہمیت ہندوستان، عرب ریاستوں اور یورپ کے لیے بے انتہا بڑھ جاتی۔ لہذا یہ منصوبہ حماس نے خاک میں ملا دیا۔  گرچہ غزہ مسمار ہو گیا ہے لیکن غزہ کو ایک طرف رکھیں اور صدی کی ڈیل کو ایک طرف رکھیں پھر دیکھیں کہ کس نے کس کا زیادہ نقصان کیا ہے۔ حماس نے ان کے منصوبہ کو مسمار کر کے صہیونی لابی کا بڑا نقصان کیا ہے یا انہوں نے غزہ کو مسمار کر کے حماس کا بڑا نقصان کیا ہے؟ اسی طرح جو صہیونی لابی کا آئی میک منصوبہ حماس نے مسمار کیا ہے اس کے مقابلے میں غزہ یا ضاحیہ کی مسماری کچھ بھی نہیں ہے۔ لہذا اگر ان دونوں کا موازنہ کیا جائے تو جو چوٹ حماس نے لگائی ہے وہ ہزارھا گنا زیادہ ہے اس نقصان سے جو اسرائیل نے ان کو پہنچایا ہے۔