فاران تجزیاتی ویب سائٹ: جبکہ اسرائیلیوں نے سید حسن نصراللہ کے جنازے میں پوری کوشش کی کہ ہجوم کو منتشر کریں اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کریں، آج سید ہاشم صفی الدین کے جنازے میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔
ابھی سید حسن نصراللہ کے جنازے کو ایک دن بھی نہیں گزرا؛ وہ جنازہ جس کے بارے میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ خدشہ تھا کہ کہیں اسرائیل اپنے وعدے سے پھر نہ جائے اور اپنے بم اسٹیڈیم کمیل شمعون میں نہ گرا دے۔ مگر سید حسن کے جنازے میں شریک لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ حتیٰ کہ بی بی سی کے سینئر صحافی بھی اپنی حیرت کو چھپا نہ سکے۔
چودہ لاکھ سے زائد افراد؛ مرد، عورتیں، بچے، بزرگ، بے حجاب اور باحجاب سب اسٹیڈیم کے اندر اور باہر موجود تھے اور یہاں تک کہ آس پاس کی گلیوں میں بھی تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ سب آئے تھے تاکہ “سید” کو الوداع کہہ سکیں اور بالآخر انہیں جنوبی بیروت کے علاقے ضاحیہ میں ان کے پرانے ساتھیوں، یعنی حاج عماد مغنیہ اور حاج قاسم سلیمانی کے حوالے کر دیا ۔
سید ہاشم کا آبائی وطن ان کا انتظار کر رہا تھا
سید ہاشم صفی الدین کا جسد خاکی اب تک سپرد خاک نہیں کیا گیا۔ انہیں اپنے اس گاؤں جانا تھا جہاں وہ پیدا ہوئیے تاکہ اپنے ہم وطنوں کے درمیان دفن ہو سکیں۔ اسی لیے آج انہیں دیر قانون النہر گاؤں لے جایا گیا۔ ان کی تشیع جنازہ کچھ گھنٹے پہلے شروع ہوئی، اور پورا گاؤں ان کے ہم وطنوں اور ہم عقیدہ لوگوں سے بھر گیا۔ گلیاں اتنی بھری ہوئی ہیں کہ کچھ لوگ گھروں کی چھتوں سے ہجوم کے ساتھ چل رہے ہیں۔
اگر ہم کٹے سروں سے ڈرتے…
لوگوں کے ہاتھوں میں فلسطین، حزب اللہ، ایران کے جھنڈے، مزاحمتی شہداء کی تصاویر اور دیگر پرچم نظر آ رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ آئے ہیں تاکہ اسرائیل کو کل کی طرح یہ پیغام دیں: “ہمیں مارو، ہم مزید بیدار ہوں گے۔” البتہ، یہ ان کا واحد نعرہ نہیں ہے۔ مجلس کے مداح ایران کی ماتمی مجالس کی طرح نوحہ خوانی کر رہے ہیں، اور اس کے بیچ بیچ میں لوگوں کی “لبیک یا حسین” کی صدائیں گونج رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے سب یہی کہنا چاہتے ہیں: “ہم زہراؑ کے اس بیٹے کی نسل سے ہیں، جس نے خون کو تلوار پر غالب کر دیا۔”
سب سے زیادہ جو نعرہ سید ہاشم کے جنازے کے پیچھے لگ رہا ہے، وہ وہی نعرہ ہے جو کل بھی سنائی دیا تھا۔ جب اسرائیل کے سیاہ جنگی طیارے سید حسن کے جنازے کے اوپر سے گزرے، تو لوگ اپنی جان کے خوف سے بھاگنے کے بجائے اپنے مکے بلند کرکے چِلّا اٹھے: “هیهات منا الذلة!”
اسرائیلیوں کی گھبراہٹ ۔
سچ کہوں تو، کل صہیونیوں کو بہت غصہ آیا ہوگا! اسرائیلی فوج نے اپنی تسلی کے لیے پہلی بار سید حسن نصراللہ کی شہادت کی ویڈیو جاری کی تاکہ دنیا کو دکھا سکے: “دیکھو، ہم کتنے طاقتور ہیں!” لیکن پہلے کی طرح، جب انہوں نے یحییٰ سنوار کی شہادت کی ویڈیو جاری کی تھی، ان کا وار الٹا انہی پر پڑا۔ یہ ویڈیو انہی کے خلاف استعمال ہوئی، اور کئی مزاحمتی چینلز نے اسے دوبارہ نشر کر کے دنیا کو اپنے رہنماؤں کی مظلومیت دکھائی۔
دوسری طرف، ان ویڈیوز نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ ہمارا دشمن کتنا طاقتور اور کتنے بھاری جنگی ساز و سامان سے لیس ہے۔ لیکن یہی وہ مزاحمت کے حامی ہیں جو ان ہتھیاروں کے سامنے ڈٹے رہے، پلک تک نہیں جھپکی، اور ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے۔ وہی ہیں جو اپنے شہید رہنماؤں کے نقش قدم پر چل رہے ہیں اور دنیا کو بتا رہے ہیں: “ہم اس اسرائیل سے زیادہ طاقتور ہیں، جو امریکی اسلحے کے زور پر ملک در ملک تسلط جما رہا ہے؛ حقیقتاً، ہم کتنے حسین و دیدہ زیب ہیں!”
امام خمینیؒ کی تصویر بھی موجود تھی
سید ہاشم کے جنازے کے پیچھے، 3 میٹر لمبی اور 2 میٹر چوڑی تصاویر مزاحمتی فوجیوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ پہلی تصویر امام خمینیؒ کی تھی اور آخری تصویر سید عماد مغنیہ کی۔ ان تصاویر کے پیچھے، حزب اللہ کے سپاہی انتہائی احترام کے ساتھ مارچ کر رہے تھے، اور سینکڑوں فوجی پہلے سے اس راستے پر کھڑے تھے جہاں سے سید ہاشم کا جسد گزرنے والا تھا۔ وہ سب، ہاتھ ماتھے پر رکھے، اپنے شہید رہنما کے استقبال میں منتظر کھڑے تھے۔
ایک ایسا منظر جو کسی میڈیا کا محتاج نہیں
کل اور آج، حزب اللہ کے شہداء کے جنازوں کے گرد جمع ہونے والا ہجوم اتنا وسیع ہے کہ اسے میڈیا کی ضرورت ہی نہیں۔ جیسے اربعین کا قافلہ خود ایک میڈیا بن جاتا ہے، ویسے ہی یہ اجتماع کسی خبررساں ادارے کا محتاج نہیں۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں