ایام عزائے فاطمیہ اور ہم

آج کی بڑی مشکل یہ ہے کہ ایک بڑا نعرہ ہمارے بعض دوستوں کی طرف سے دیا جاتا ہے کہ کیا ہم بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کے قاتلوں پر لعنت نہ بھیجیں کیا ہم بی بی کے قاتلوں کو معاف کر دیں ، کیا ہم بی بی کے پہلو پر جلتا ہوا دروازہ گرانے والوں کو بھول جائیں ، ان سے اتحاد کرلیں جنہوں نے بی بی کو رلا رلا کر شہید کر دیا؟

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: آج وہ ایام ایک بار پھر آن پہنچے ہیں جو بی بی دوعالم شہزادی کونین جناب فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت سے منسوب ہیں، بی بی کی شہادت کے سلسلہ سے مختلف روایتوں کی بنیاد پر جہان تشیع میں ۱۳ جمادی الاولی سے ۳ جمادی الثانیہ تک غم منایا جاتا ہے اور ان ایام غم کو ایام عزائے فاطمیہ کے نام سے جانا جاتا ہے ، ایام عزائے فاطمیہ میں جہاں ایک طرف ہم سب کے لئے ضروری ہے کہ رسول (ص) کی اکلوتی بیٹی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی جانسوز شہادت پر غم منائیں وہیں یہ ایام ہم سے غور و فکر کا مطالبہ کرتے ہیں ،کہ ہم غور کریں کہ وہ کیا اسباب تھے جنکی بنا پر رسول اللہ کی وفات کے ۶۵ سے ۹۰ دنوں کے اندر لوگ اتنے بدل گئے کہ حضور سرور کائنات کے گھر پر لکڑیاں لیکر چلے آئے اور اس دروازے کو جلا دیا جس پر حضور کھڑے ہو کر سلام کیا کرتے تھے ، آج اپنی قوم اپنے ملک کے حالات کے پیش نظر ضروری ہے کہ ہم ایک طرف تو اس بات کی کوشش کریں کہ ان ایام میں بی بی دوعالم سلام اللہ علیہا کی شخصیت سے لوگوں کو آشنا کریں وہیں دوسری طرف ہمیں کوشش کرنا چاہیے کہ اپنے معاشرے میں پائے جانے والے انحراف کا تجزیہ کریں اور غور کریں کہ ہماری بڑی مشکلات کیا ہیں ، اور بصیرت و آگاہی کے ساتھ اجتماعی مسائل کو دیکھتے ہوئے اس انداز سے غم منائیں کہ ہمارے دشمن کو موقع نصیب نہ ہو سکے اور وہ ہمارے جذبات سے غلط استفادہ نہ کر سکیں۔

کیا ہم بی بی فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کے دشمنوں پر لعنت نہ بھیجیں؟
آج کی بڑی مشکل یہ ہے کہ ایک بڑا نعرہ ہمارے بعض دوستوں کی طرف سے دیا جاتا ہے کہ کیا ہم بی بی زہرا سلام اللہ علیہا کے قاتلوں پر لعنت نہ بھیجیں کیا ہم بی بی کے قاتلوں کو معاف کر دیں ، کیا ہم بی بی کے پہلو پر جلتا ہوا دروازہ گرانے والوں کو بھول جائیں ، ان سے اتحاد کرلیں جنہوں نے بی بی کو رلا رلا کر شہید کر دیا؟، ایسے لوگوں سے دست بستہ گزارش ہے کہ وہ بتائیں کون سا شیعہ ہے جو یہ کہتا ہے کہ آپ دشمنان زہرا پر لعنت نہ کریں یا انکے قاتلوں کو معاف کر دیں ، ہرگز وہ شیعہ نہیں ہو سکتا جو دشمنان زہرا سلام اللہ علیہا کے لئے اپنے دل میں نرم گوشہ رکھتا ہو، مسئلہ دشمنان زہرا سلام اللہ علیہا سے دشمنی کا انکے دشمنوں پر لعنت بھیجنے کا نہیں ہے مسئلہ یہ ہے کہ ہمیں بصیرت فاطمی کے ساتھ ولایت کے دشمنوں کو رسوا بھی کرنا ہے اور اس بات پر بھی توجہ رکھنا ہے کہ دشمن ہمیں آپس میں ایک دوسرے سے نہ لڑا دے ،ہمارے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے مرحلہ میں ہم بی بی کو عالم انسانیت کو پہچنوائیں ہم یہ بتائیں کہ کتنی عظیم شخصیت تھی جب دنیا اس بات کو جان لے گی کہ کتنی عظیم شخصیت تھی، اور اس شخصیت کے ساتھ کچھ لوگوں نے کتنا برا سلوک کیا اور اس سلوک کی وجہ کیا تھی تو ہم لعنت بعد میں کریں گے ہر صاحب فکر و شعور ان ملعونوں پر لعنت کرتا پہلے نظر آئے گا جنہوں نے در بتول کو آگ لگائی ، لیکن اسکے لئے ضروری ہے کہ پہلے ہم خود یہ سمجھیں کہ بی بی دو عالم نے اتنی بڑی قربانی کیوں دی ، کیوں شہادت جناب محسن کے بعد بھی آپ باہر نکلیں ؟ کیوں دربار میں جا کر آپ نے خطبہ فدک دیا ؟ اگر ہم یہ سمجھ جائیں گے تو راہ ولایت میں ولایت کی شناخت کی راہ میں اسکے دفاع کی راہ میں اسی انداز کو اپنائیں گے جو بی بی نے اختیار کیا ، شہزادی کونین نے بڑی ہی خوبصورتی کے ساتھ اپنے خطبہ کے ذریعہ ان لوگوں کے چہروں سے نفاق کی نقاب کو الٹ دیا جو رسول اللہ کی مسند پر غاصبانہ قبضہ جمائے بیٹھے تھے دین کے نام پر دین کو لوٹ رہے تھے آپکے خطبہ کے جو مطالب ہیں انشا ء اللہ انہیں پھر کسی موقع پر بیان کیا جائے گا فی الحال اتنا کہ بی بی نے اپنے حقیقی دشمن کو پہنچوایا اور بتایا کہ میرا حقیقی دشمن وہ ہے جو ولایت کا دشمن ہے آج ہمیں بھی اسی بات کو سمجھنے کی ضرور ت ہے کہ ہمارا حقیقی دشمن کون ہے۔

دشمنی کی تاریخ اور ہمارا دشمن
اگر ہم دشمن شناسی کی ضرورت اور دشمنی کی تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو ہمیں نظر آئے گا کہ دوستی و دشمنی کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی انسان کی تاریخ ، جب سے انسان نے اس دنیا میں قدم رکھا ہے جب سے آپسی مفادات کے درمیان ٹکراو کی صورت پیدا ہوئی ہے تبھی سے دشمنیوں نے بھی جنم لیا ہے ۔ایک زمانہ تھا جب دوستی و دشمنی کا معیار قوم قبیلہ و رنگ و نسل کو بنایا جاتا تھا لیکن آج دوستی و دشمنی کی بنیاد نظریات پر ہے ، دنیا میں ہر طرف نظریات کا تصادم نظر آتا ہے ایسا نہیں ہے کہ قوم قبیلہ و رنگ و نسل کی بنیادوں پر اب دشمنیاں ختم ہو گئی ہوں وہ اپنی جگہ پر اب بھی قائم ہیں اور ہم وقتا فوقتا انکی بنیاد پر ٹکراو و تصادم کو بھی دیکھتے رہتے ہیں لیکن نظریاتی دشمنی کی بنیاد پر جو خون خرابہ ہورہا ہے اسکی بات ہی الگ ہے ۔حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کسی سے دشمنی ذاتی نہ تھی نہ قوم قبیلے سے کوئی دشمنی تھی پھر بھی آپکو جنگیں لڑنا پڑیں جن کے پیچھے نظریہ ہی کارفرما تھا ،یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا کارنامہ تھا کہ آپ نے ۲۳ سال کی مختصر سی مدت تبلیغ میں قوم قبیلہ و رنگ و نسل کے فرق کو مٹا کر اس جاہل معاشرے کو توحید کے محور تلے جمع کر دیا جو ذرا ذرا سی بات پر چالیس چالیس سال جنگوں کا تجربہ رکھتا تھا وہ لوگ جو اب تک قوم قبیلہ کی بنیادوں پر مال و منال و مقام و منصب و دنیا کے لئے لڑ رہے تھے وہی ہر چیز کو بھلا کر توحید کی بالا دستی کے لئے اہل باطل سے لڑتے نظر آئے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اتنا بڑا انقلاب بپا کر دیا کہ جو کل تک ایک دوسرے کا منھ دیکھنا گوارا نہیں کرتے تھے وہی اب شانہ بشانہ توحید کے لئے دشمن خدا سے لڑنے اور راہ خدا میں شہادت کو اپنے لئے باعث افتخار سمجھنے لگے ، اسلام کی جتنی بھی جنگیں ہیں کسی میں بھی تلاش کرنے کے باوجود کہیں شخصی و ذاتی دشمنی کا پہلو نظر نہیں آتا ابتدائے اسلام سے لیکر اب تک ہر جگہ نظریہ کی بنیاد پر کلمہ گویوں سے دشمنی کی گئی ہے ، اور آج تک یہی سلسلہ جاری ہے۔ نظریہ کی بنیاد پر دشمنی جب بھی ہوئی ہے دشمن کو ہر اس جگہ شکست فاش ہوئی ہے جہاں ہم نے دشمن کے حربوں و اسکی نیرینگی چالوں کو پہچان کر بروقت فیصلہ لیا ہے اور دشمن کو دوستوں کے بھیس میں اپنی صفوں میں داخل ہونے سے روکے رکھا ہے ،اس لئے کہ دشمن جب دیکھ لیتا ہے کہ اب حق سے مقابلہ نہیں ممکن تو وہ تفنگ و تلوار و نیزے و بھالے لیکر نہیں آتا ہے وہ لبوں پر مسکراہٹ سجا کر ہاتھوں میں پھولوں کا گلدستہ لیکر دوست کے روپ میں آتا ہے اور بڑی خاموشی کے ساتھ آتا ہے اب یہ ہماری بصیرت کے اوپر ہے ہماری نگاہ عمیق کے اوپر ہے کہ ہم دشمن کو مختلف چولے بدلنے کے بعد بھی پہچان لیں اور نہ صرف پہچان لیں بلکہ اسے رسوا بھی کریں اور اسکے مکروہ عزائم میں کامیاب بھی نہ ہونے دیں ۔

جاری