حالات حاضرہ ۱ نومبر 2024

ایران کے جوابی حملے سے صہیونی لرزہ براندام/ نعیم قاسم کا انتخاب انتہائی دقیق: علامہ جواد نقوی

اگرچہ اسرائیل نے یہ سوچا تھا کہ حماس اور حزب اللہ کے قائدین کو مار کر انہیں پسپا کر دے گا لیکن اس کی یہ خام خیالی تھی حماس اور حزب اللہ نے اپنے قائدین کی شہادتوں کے بعد جتنے مضبوط حملے کئے ہیں اتنے پہلے نہیں کئے تھے

فاران: اس ہفتے کا ایک اہم موضوع ایران پر اسرائیل کا حملہ ہے جو گزشتہ ہفتے انجام پایا، ایران نے اسرائیل کے اوپر ایک بھرپور حملہ کیا تھا جسے اسرائیلی اپنے بڑے بڑے دعووں کے باوجود نہیں روک پائے تھے اور ایران کے اسّی فیصد میزائل اپنے ٹارگٹ پر لگے تھے اور ان کے ایئربیس اور دیگر فوجی ٹھکانوں کو ایران نے نشانہ بنایا تھا اور اس کے بعد حزب اللہ نے ان کے سب سے بڑے کمانڈو یونٹ کو نشانہ بنایا یہ حزب اللہ کا بہت ہی بھاری حملہ تھا جس سے ان کو مزاحمتی طاقت کا اندازہ ہوا۔
اسرائیل کا ایران پر جوابی حملہ بظاہر ایک علامتی حملہ ہی لگتا تھا جتنے وہ ڈائلاگ بول رہے تھے نہ اتنا بڑا اور نہ ہی کامیاب حملہ تھا اور عراق کی سرزمین کو استعمال کر کے اسرائیل نے ایران کے تین شہروں میں موجود فوجی ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ عراق میں موجود امریکی اڈوں سے یہ حملہ کیا گیا اور یہ دراصل امریکہ ہی کا حملہ تھا اسرائیل نے اس میں اعزازی طور پر شرکت کی تھی یہ دکھانے کے لیے کہ یہ اسرائیلی حملہ ہے۔
اس حملے میں چار ایرانی فوجی شہید ہوئے۔ ایرانیوں نے ساری ویڈیو نشر کیں اپنے حملے کی بھی اور ان کے حملے کی بھی ویڈیو نشر کیں۔
فوجی تجزیہ کاروں کے بقول ایران کا حملہ شدید اور نقصان دہ حملہ تھا لیکن ان کا حملہ کوئی زیادہ نقصان دہ نہیں تھا۔ اور دوسری بات یہ کہ حملہ امریکہ کا تھا اسرائیل کو صرف نمائشی طور پر سامنے رکھا تھا۔ اصل میں امریکہ اور اسرائیل ایران کے ساتھ جنگ چاہتے بھی ہیں اور نہیں بھی چاہتے۔ انہیں ایک تو اس بات کا خدشہ ہے کہ ایران کی جوابی کاروائی میں انہیں بھی شدید نقصان ہو گا دوسرے ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ ساری مشکلات جو انہیں غزہ، لبنان، عراق، یمن سب جگہوں سے درپیش ہیں وہ صرف ایران کی وجہ سے ہیں۔ اس لیے اس مزاحمت کو ختم کرنے کے لیے وہ چاہتے ہیں کہ سیدھا ایران پر حملہ کریں اور ایران کا حال وہیں کر دیں جو عراق، افغانستان اور لیبیا کا کیا ہے یعنی ایران کا انفراسٹریکچر تباہ کر دیں لیکن ان کو اس بات کا خوف بھی ہے کہ ایران کے پاس بھی طاقت ہے اور وہ جوابی کاروائی میں علاقے میں موجود ہمارے انفراسٹریکچر کو بھی نابود کر سکتا ہے، چونکہ خلیجی ممالک میں خصوصا عرب امارات کی سات ریاستوں میں امریکہ اور اسرائیل کے اڈے ہیں۔ اسی طرح جو دبئی شیشے کا شہر ہے اسے تو ایران اپنے توپوں کے ذریعے ہی تباہ و برباد کر سکتا ہے اور اسی طرح جو امریکی اڈے قطر، بحرین و کویت وغیرہ میں موجود ہیں وہ ایرانی میزائلوں کی زد میں ہیں اور امریکی بحری بیڑے بھی ایرانیوں کی زد میں ہیں اور ایرانیوں نے پہلے سے اپنے میزائلوں کا رخ ان کی طرف موڑ رکھا ہے۔
آپ کو معلوم ہے کہ کچھ سال پہلے بھی ایک مرتبہ امریکہ کے ساتھ جنگ کا خدشہ بڑھ گیا تھا اور امریکہ اپنے سمندری بیڑے خلیج میں لے آیا تھا اس وقت ایرانی کمانڈروں کے ساتھ ہوئی ایک میٹنگ میں رہبر معظم نے ان سے اپنی دفاعی توانائی کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم ان کے حملے کے پہلے منٹ میں ہی ان پر جوابی کاروائی کر سکتے ہیں اور ان کا اتنا نقصان کر سکتے ہیں تو رہبر معظم نے کہا کہ یہ کافی نہیں ہے بلکہ تمہارے پہلے حملے میں ساٹھ لاکھ امریکی فوجی مرنے چاہیے۔ اس طریقے سے آپ اپنی تیاری کریں۔ تو اس کے بعد انہوں نے ویسے ہی تیاری کی تھی اس وقت سے اب تک تقریبا آٹھ دس سال ہو چکے ہیں اب تو وہ کافی پیشرفت کر چکے ہیں۔ لہذا امریکیوں کو یہ اندازہ ہے کہ ان کا کتنا نقصان ہو سکتا ہے اس لیے اس حملے کی کمانڈ انہوں نے اپنے پاس رکھی ہے لہذا عراق سے یہ حملہ محدود سطح کا اور کم نقصان دہ حملہ کیا ہے تاکہ ایران زیادہ مشتعل نہ ہو۔ لیکن اس حملے کے فورا بعد رہبر معظم نے اپنی افواج کو حکم دیا ہے کہ اسرائیل کو ہماری طاقت کا اندازہ نہیں ہے اب ایسا حملہ کرو کہ امریکہ اور اسرائیل کو ہماری طاقت کا صحیح اندازہ ہو جائے پچھلے حملوں میں ہم نے اپنی پوری طاقت نہیں دکھائی لہذا وہ غلط فہمی کا شکار ہیں۔
آج ہی امریکہ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ ایران بہت بڑے حملے کی تیاری کر رہا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ ہم اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ہم تو کہتے ہیں کہ آپ ساتھ کھڑے رہیں تاکہ آپ کو بھی اندازہ ہو جائے کہ نتیجہ کیا نکلتا ہے۔
لیکن دوسری طرف ایران بھی اصل میں یہ نہیں چاہتا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ براہ راست جنگ چھیڑے بلکہ خود امریکہ بھی یہ نہیں چاہتا۔ چونکہ امریکہ کو پتا ہے کہ اگر امریکہ براہ راست سامنے آتا ہے تو پھر دوسری طاقتیں بھی آگے آئیں گی روس اور چین بھی میدان میں اتر آئیں گے اور سارا خطہ ہی ویران ہو جائے گا۔ لیکن ایران تو مکمل طور پر اس جنگ کو ٹالنا چاہتا ہے کہ بطوری کلی جنگ نہ ہو۔
لیکن اس جنگ کے حوالے سے اسرائیل اور ایران کی جنگی حکمت عملی بہت مختلف ہے اگر میں کہوں کہ ایک سو اسّی ڈگری مختلف ہے تو مبالغہ نہیں ہے ایران یہ چاہتا ہے کہ لمبی جنگ ہو فرسائشی جنگ ہو دشمن کو تھکا دینے والی جنگ ہو۔ اس جنگ کا ایران کو بہت بڑا تجربہ ہے۔ ایک جنگ ہوتی ہے آنا فانا، اس نے اس کو مارا اس نے اس کو مارا قبضہ کیا ایران یہ نہیں چاہتا۔ ایسی جنگ میں نقصان زیادہ ہوتا ہے فائدہ کم ہوتا ہے۔ لیکن تھکا دینے والی جنگ میں دشمن کے اعصاب ختم ہو جاتے ہیں۔ اسرائیل نے غزہ پر جب حملہ شروع کیا تھا تو اس نے کچھ گھنٹے مانگے تھے کہ چند گھنٹوں میں حماس کا صفایا کر دے گا اور یرغمالیوں کو واپس لے لے گا۔ لیکن آپ دیکھ لیں کہ ۱۳ مہینوں سے جنگ جاری ہے اور یرغمالی واپس نہیں لے پایا، حماس اتنی قربانیوں کے باوجود اپنی جگہ ڈٹی ہوئی ہے، مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہے چونکہ حماس کی جنگ تھکا دینے والی جنگ ہے لیکن اسرائیل تھک چکا ہے لوگ تھک چکے ہیں ایران کی پالیسی یہ ہے کہ چھاپا مار جنگ ہو ایران کے جتنے بھی جنگی ماہرین ہیں چاہے وہ ان کی ملکی فوج ہو یا سپاہ قدس بریگیڈ ہو یہ سب کلاسیک جنگ کے ماہرین نہیں ہیں یہ چھاپا مار جنگ کے ماہرین ہیں۔ چھاپا مار جنگ یعنی آپ نے دشمن کو نقصان پہنچا کر اس کے علاقوں پر قبضہ نہیں کرنا بلکہ واپس اپنے ٹھکانوں پر آ جانا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ شکاری جنگ ہے۔ امریکہ چھاپا مار جنگوں میں کئی مرتبہ برے طریقے سے شکست کھا چکا ہے ویٹنام اس کی ایک مثال ہے کہ جہاں سے وہ برے طریقے سے شکست کھا کر واپس آیا اور اس کی ایک تازہ ترین مثال افغانستان کی جنگ ہے۔ وہ افغانستان کو ایک مرتبہ ملیا میٹ کر کے اسے ختم کرنا اور اس پر قبضہ کرنا چاہتا تھا لیکن اسے آخر کار تھک ہار کر وہاں سے بھاگنا پڑا۔ لیکن ایران کی مہارت اس کے برخلاف ہے۔ اور یہ دو الگ الگ مہارتیں ہیں۔ جیسے آپ کشتی اور باکسنگ کی مثال لے لیں۔ امریکہ اور اسرائیل کی مثال باکسنگ کی ہے لیکن ایران کی مہارت کشتی والی ہے۔ وہ تابڑتوڑ حملے کرنے والے ہیں لیکن ایران اور حماس وغیرہ کشتی گیر ہیں جو ٹھہر ٹھہر کے سوچ سمجھ کر دشمن کو زیر کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ لہذا ایران ایسی جنگ کی طرف قطعا نہیں جائے گا کہ ایران اور امریکہ کی براہ راست جنگ ہو حتی اسرائیل کے ساتھ بھی براہ راست جنگ کے حق میں نہیں ہے۔
اگرچہ اسرائیل نے یہ سوچا تھا کہ حماس اور حزب اللہ کے قائدین کو مار کر انہیں پسپا کر دے گا لیکن اس کی یہ خام خیالی تھی حماس اور حزب اللہ نے اپنے قائدین کی شہادتوں کے بعد جتنے مضبوط حملے کئے ہیں اتنے پہلے نہیں کئے تھے جیسے آج ہی کی خبر ہے کہ حزب اللہ نے سات اسرائیلی مارے ہیں جن میں ان کے آفیسر بھی شامل ہیں اور خاص طور پر جو نیتن یاہو کے گھر پر ڈرون حملہ کیا گیا یہ جنگ کے اندر بہت بڑا ٹرننگ پائنٹ تھا کہ صہیونیوں کے سرغنہ کے گھر کو براہ راست ٹارگٹ کیا گیا۔
بہرحال ایران نے ابتدا سے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ ہم جلدبازی بھی نہیں کریں گے اور سستی بھی نہیں دکھائیں گے۔ اس کا مطلب یہی کہ جب وقت مناسب ہو گا بہت سوچ سمجھ کر حملہ کریں گے امریکیوں نے ابھی سے پیشنگوئی کر دی ہے کہ ایران کا یہ حملہ انتہائی شدید اور بہت نقصان دہ ثابت ہو گا۔
اسی دوران حزب اللہ کی یہ پیشرفت ہوئی ہے کہ حزب اللہ نے اپنے نئے سربراہ کا اعلان کر دیا ہے شیخ نعیم قاسم سید حسن نصر اللہ کے نائب تھے حزب اللہ کے بانیوں میں ان کا شمار ہوتا ہے اور حزب اللہ کے اندر سب سے زیادہ سینئر بھی تھے لہذا حزب اللہ کا یہ انتخاب بہت ہی دقیق ہے شیخ نعیم قاسم کی شخصیت بہت اہم شخصیت ہے ۱۹۸۲ میں جب حزب اللہ بنی تھی تب سے اب تک نعیم قاسم حزب اللہ کے ڈپٹی سیکریٹری رہے ہیں اور ان کا تجربہ اس میدان میں بہت زیادہ ہے حزب اللہ سے پہلے بھی یہ بہت متحرک اور فعال شخص تھے مبلغ اور اسکول ٹیچر کی حیثیت سے بھی کام کر چکے ہیں حزب اللہ کے بننے کے بعد ان کو اسی طرح کی ذمہ داریاں دی گئیں یعنی نوجوانوں کو تربیت کرنا، انہیں ٹریننگ دینا اور اداری امور کو سنبھالنا۔
سید حسن نصر اللہ حزب اللہ کے سربراہ تھے ظاہر ہے وہ اداری کام نہیں کر سکتے تھے ان کا کام احکامات صادر کرنا تھا آگے ان احکامات کو مختلف یونٹوں میں لاگو کروانا اور حزب اللہ کے تمام امور کو منظم کرنا یہ نعیم قاسم کی ذمہ داری تھی۔ اس لیے حزب اللہ کے اندر یہ سب سے زیادہ اہم شخص تھے اور ہر جگہ حزب اللہ کے اجلاس میں انہیں کو بھیجا جاتا تھا۔ جیسے میں یوں کہوں کہ حماس کے سیاسی سربراہ اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد یحییٰ سنوار جو فیلڈ کمانڈر تھے ان کو سربراہ مقرر کیا گیا جو ایک بہترین انتخاب تھا گرچہ وہ شہید ہو گئے، اسی طرح حزب اللہ کے اندر بھی نعیم قاسم فیلڈ کمانڈر ہیں ان کا قیادت کے لیے انتخاب انتہائی مناسب ہے۔ چونکہ ان کو خود ٹریننگ کی ضرورت نہیں انہوں نے سب کو ٹریننگ دی ہے آپ دیکھتے ہیں جتنے بڑے بڑے کمانڈر شہید ہوئے ہیں وہ سب ان کے ہی تربیت یافتہ تھے لہذا امید ہے کہ ان کی سربراہی میں حزب اللہ مزید پھلے پھولے گی اور اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانے میں انہیں کامیابی حاصل ہو گی۔