ایران کے خلاف اقدام، اسرائیل کی تباہی کی سند کی توثیق ہے ۔۔۔ صہیونی ماہرین
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: شیخی بھگارنا اور ڈینگ ہانکنا ہمیشہ سے ان تمام استعماری طاقتوں کا بنیادی رویہ رہا ہے جو یہودیوں کی شاگردی کرکے ممالک اور اقوام عالم کو زیر نگیں لانے کے لئے کوشاں رہی ہیں؛ کامیاب رہی یا پھر ناکام مگر جہاں کامیاب رہی ہیں وہاں وہ متعلقہ اقوام و ممالک کو خوفزدہ کرکے ان کو اپنی نوآبادیوں میں تبدیل کر چکی ہیں۔ اسی استعماری اصول کے تحت صہیونی ریاست بھی کئی برسوں سے اپنے انگریزی اور امریکی آقاؤں کو سکھائے ہوئے سبق پر عمل درآمد کرتے ہوئے ایران کو جنگ کی دھمکیوں پر تلی ہوئی ہے۔ یہ دھمکیاں اور شیخیاں اسرائیلی حکمرانوں کی تقاریر، اجلاسوں، غیر ملکی – بالخصوص بکے ہوئے عرب نیز امریکی اور یورپی – حکمرانوں اور بین الاقوامی فورموں کے اہلکاروں کے ساتھ ملاقاتوں میں دہرائی جا رہی ہیں، خطے کی ننھی عرب ریاستوں اور امریکہ یا پھر برطانیہ کے ساتھ علاقائی پانیوں میں جنگی مشقوں کا اہتمام کیا جا رہا ہے یا پھر ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی مشقیں بھی کی جا رہی ہیں۔ [گوکہ اسرائیل اور اس کے آقاؤں اور عرب حواریوں کی بدقسمتی دیکھئے کہ آج خطے کے لوگ بالخصوص ایرانی باشندے، ماضی کی طرح ڈینگیں مارنے سے تو کیا، دشمنوں کے ایٹمی حملوں کی دھمکیوں اور موت کے خطرے سے بھی خوفزدہ نہیں ہوتے]۔
گذشتہ ایک عشرے کے دوران صہیونی ریاست نے کئی مرتبہ نفسیاتی اور ابلاغیاتی جنگ کے ذریعے دنیا والوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ گویا وہ ایران پر حملے کے لئے پر تول رہی ہے! لیکن سب نے دیکھا کہ یہ سب جھوٹ تھا؛ اور یہ کہ جو گھرے ہوئے غزہ کے خطے سے شکست کھائے وہ ایران پر حملے کی جرأت کیونکر کر سکتا ہے!
کچھ مغرب نوازوں کو یہ باور کرانا بہت دشوار ہے کہ صہیونی ریاست ایران پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی چنانچہ وہ عالمی حالات کو اسرائیلی حملے کی تاخیر کا سبب قرار دینے کی سعی کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ تو پھر انہیں اتنی ساری سفارتی اور فوجی اقدامات، جنگی مشقوں اور دھمکیوں کا سہارا کیوں لینا پڑ رہا ہے؟ کیا بین الاقوامی صورت حال رکاوٹ ہے یا کوئی اور بات ہے جس کی رازداری ہے؟ ہم نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے اسرائیلی ماہرین کے خیالات و آراء کو بہترین ذریعہ سمجھ کر، انہیں اپنے صارفین و قارئین کی خدمت میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے:
کیا اسرائیل مغرب کی معیت کے بغیر ایران کے خلاف کوئی اقدام کرے گا؟
سب سے زیادہ دہرایا جانے والا سوال یہی ہے کہ کیا اسرائیل مغرب کی حمایت کے بغیر خودسرانہ طور پر ایران کے خلاف، الگ تھلگ ہو کر؛ کوئی کاروائی کرے گا؟ ایٹمی مذاکرات کے سالوں کے دوران جب بھی صہیونیوں نے امریکہ اور یورپ سے ایران کے خلاف فوجی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے، انہیں نفی میں جواب ملا ہے، جس کے بعد انھوں نے یہ کہنا شروع کیا ہے کہ انہیں ایران پر حملے کے لئے مغرب کی حمایت کی ضرورت نہیں ہے! اور ان اپنے وسائل اس کے لئے کافی ہیں! سوال یہ ہے کہ صہیونی جرنیلوں کے یہ دعوے حقیقت سے کتنے قریب ہیں؟ کیا صہیونی تن تنہا ایران جیسی فوجی طاقت کے خلاف اقدام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں؟ جواب عیآں ہے اور ایران کے ساتھ اکیلے لڑ پڑنے کے نتائج تو عیاں تر ہیں؛ کیونکہ صہیونی فوج لڑنے کے لئے نہیں بلکہ قتل عام کرنے اور کامیاب ہونے کے لئے بنی تھی اور اب جبکہ آس پاس کی قومیں مرنے سے ڈرنا چھوڑ گئے ہیں تو یہ فوج اپنی افادیت کھو چکی ہے! اور ہاں جعلی اسرائیل کے اپنے ہی ماہرین کا موقف بھی اسی حقیقت کو ظاہر کرتا ہے۔
آنجہانی صہیونی سربراہ شمعون پیریز نے سنہ 2008ع میں فرانسیسی اخبار لی فگارو (Le Figaro) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا:
“اگر اقتصادی پابندیاں ایران کو اپنی ایٹمی سرگرمیاں رول بیک کرنے پر مجبور نہ کرسکیں تو اسرائیل دستیاب فوجی آپشنز کو بروئے کار لائے گا، اور اسرائیل البتہ ایران کے خلاف یکطرفہ اقدام کو مد نظر نہیں رکھے گا۔۔۔ البتہ میری ترجیح یہ ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام جنگ شروع کئے بغیر روک لوں! اگر ہم ایران کے خلاف یکطرفہ اقدام کریں تو کامیابی کا کوئی امکان نہیں ہے؛ ہم اتنے بھی لاپروا نہیں ہیں کہ اس ایران کے خطرے کو مزید شدید کردیں جو اسرائیل کو دھمکیاں دیتا رہتا ہے”۔
صہیونی خفیہ ادارے “آمان” ریسرچ یونٹ میں ایران ڈیسک کے سابق سربراہ ڈینی سٹرینووچ (Danny Citrinowicz) کا کہنا ہے:
“ایران سے لڑنے کے لئے اسرائیل کی طاقت و صلاحیت – امریکی حمایت کے بغیر – بہت کم ہے، گوکہ ہم ایران کی ایٹمی تنصیبات کو کسی حد تک نقصان پہنچا سکتے ہیں مگر اس جنگ کے لئے اسرائیل کی صلاحیت کا انحصار امریکی ارادے پر ہے”۔
صہیونی ادارے “انسٹی ٹیوٹ فار نیشنل سیکیورٹی اسٹڈیز [INSS] کے ریسرچ فیلو ڈورون ماتزا (Doron Matza) کا کہنا ہے:
“اسرائیل کا لذت پرست معاشرہ فوجی چپقلشوں کے لئے نہیں بنا ہے، کم از کم یہ معاشرہ ان طاقتوں کے خلاف لڑنے کا نہیں ہے جو فلسطین کی مقاومتی تحریکوں سے بہت زیادہ بڑی ہیں، جیسے ایران، جو ایک فوجی طاقت ہے۔ یقینی امر ہے کہ فلسطییوں کے ساتھ ایک مہینے کی لڑائی ایران کے ساتھ 30 روزہ جنگ سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ اور یوکرین کی جنگ کی تصویریں اس حقیقت کو بالکل عیاں کرتی ہیں۔ اور پھر اسرائیلی فوج کو مزید یاد نہیں پڑتا کہ ایک چند پہلو اور چند فریقی جنگ کیسی ہوتی ہے؟ اسرائیل کی فوج بھی اس کے آرام طلب معاشرے کے لئے ایران کا سامنا کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں ہے”۔
جاری
تبصرہ کریں