فاران تجزیاتی ویب سائٹ: ڈونلڈ ٹرمپ، بطور امریکہ کے 47ویں صدر، دوبارہ وائٹ ہاؤس میں واپس آ گئے ہیں۔ وہ ایسے وقت میں دوبارہ اقتدار میں آئے ہیں کہ انکا اس سے پہلے بھی سابقہ رہا ہے وہ پہلے بھی 2016 سے 2020 تک واشنگٹن کے سب سے اہم فرد تھے۔ اگرچہ ان کے بارے میں ایک چار سالہ تجربہ اور تصویر موجود ہے، لیکن یہ سوال اب بھی اٹھتا ہے کہ اس بار ٹرنپ کا طرز عمل کیا ہوگا؟ کیا وہ بدل چکے ہیں یا پچھلی مدت کی طرح غیر متوقع ہونے پر اصرار کریں گے؟ بنیادی طور پر، کیا ٹرمپ ایک سیاسی شخصیت بننے کے قریب ہیں یا وہ سیاست کے میدان میں ایک تاجر رہنا چاہتے ہیں؟ کیا وہ سیاست پر یقین رکھتے ہیں یا ترجیح دیتے ہیں کہ ایک سوداگر کے طور پر کام کریں؟ یہ تحریر خاص طور پر اسی سوال کا جواب دینے کی کوشش کرتی ہے کہ ٹرمپ ایران کے ساتھ کس طرح کا رویہ اپنائیں گے اور ان کے کیا مقاصد ہیں۔
پہلی بات یہ ہے کہ اپنی پچھلی حکومت میں ٹرمپ نے ایران کے ساتھ سخت رویہ اپنایا۔ انہوں نے ایران کے خلاف زیادہ سے زیادہ دباؤ کی پالیسی اپنائی اور سخت ترین پابندیاں عائد کیں۔ ٹرمپ نے مئی 2018 میں جوہری معاہدے سے نکل کر ایران کے خلاف سب سے سخت موقف اختیار کیا۔ ٹرمپ حکومت کی ایران کے ساتھ مقابلہ آرایی کی بنیادی بات، جسے جان بولٹن اور روڈی جولیانی جیسے قریبی مشیروں نے سپورٹ کیا اور اس پر زور دیا، یہ تھی کہ ایران اسلامی انقلاب کی 40ویں سالگرہ نہیں دیکھ پائے گا! یہی وجہ ہے کہ جس دن سے ٹرمپ جوہری معاہدے سے نکلے، امریکی میڈیا نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے اور اسلامی جمہوریہ کا نظام 10 ماہ سے بھی کم عرصے میں گر جائے گا، اور جنوری اور فروری 2019 (دی اور بہمن 97) حکومت کے 40 سالہ اقتدار کا خاتمہ ہوگا!لیکن ٹرمپ کی دھمکیوں، امریکی حکام اور میڈیا کے بھاری نفسیاتی جنگ کے باوجود، ان کے تمام حساب کتاب اور منصوبے غلط ثابت ہوئے، اور آج اس موہوم ڈیڈ لائن کو 6 سال گزر چکے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ ٹرمپ اب بھی اپنی ایسی تصویر پیش کرنا پسند کرتے ہیں کہ سب ان سے ڈرتے ہیں اور کوئی ان کی خواہشات کے خلاف مزاحمت نہیں کر سکتا۔ اس تصویر کو اجاگر کرنے کے لیے دو حربے استعمال کیے جا رہے ہیں؛ ایک “پاگل آدمی کا نظریہ” (Madman Theory) ہے، جس کا مقصد یہ ہے کہ یہ باور کرایا جائے کہ ٹرمپ غیر متوقع فیصلے لیتے ہیں اور کوئی بھی ان کے خلاف خطرہ مول نہیں لے سکتا۔ وہ پاگل ہیں، اس معنی میں کہ وہ اپنے مخالف کو وجود سے مٹا سکتے ہیں۔ دوسرا حربہ “طاقت کے ذریعے امن” (Peace Through Strength) کی حکمت عملی کا استعمال ہے۔ یہ حکمت عملی روک تھام کی طاقت پر مبنی ہے اور کوشش کرتی ہے کہ ٹرمپ کو اس طرح پیش کیا جائے کہ وہ سب کو اپنے سامنے امن پر مجبور کر سکتے ہیں، وہ بھی طاقت کے ذریعے؛ حالانکہ یہاں امن کا مطلب زیادہ تر ٹرمپ کا اپنے مخالف سے مراعات لینا ہے۔ بہرحال، ٹرمپ کی یہ تصویر کشی اس لیے ہے کہ وہ خارجہ پالیسی میں زیادہ سے زیادہ مراعات حاصل کر سکیں۔
ایران کے ساتھ ٹرمپ کا سامنا بھی زیادہ تر انہی دو حربوں اور ٹرمپ کی ایک خوفناک تصویر کشی کے ذریعے کیا گیا ہے۔ ان حربوں اور تصویر کشی کا مقصد یہ ہے کہ یہ تاثر دیا جائے کہ ایران کے پاس ٹرمپ کے سامنے واحد راستہ مذاکرات اور معاہدہ ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ 2018 میں، جب وہ اسلامی جمہوریہ کے زوال کی تصویر پھیلا رہے تھے، ٹرمپ کے وزیر خارجہ پومپیو نے حد تک اصل کھیل کو ظاہر کیا تھا اور کہا تھا کہ ہمارا مقصد ایران کے ساتھ ایک جامع معاہدہ ہے؛ ایک ایسا معاہدہ جو ایران کی علاقائی اور میزائل طاقت کو نشانے پر مرکوز تھا
اس تحریر کا تیسرا اور آخری نکتہ یہ ہے کہ ٹرمپ کی پچھلی حکومت کے ایران کے ساتھ رویے کا وہی منظرنامہ ایک نئے رنگ و روپ کے ساتھ دوبارہ عمل میں لایا جا رہا ہے تاکہ تمام راستے مذاکرات اور ایک نام نہاد بڑے معاہدے کی طرف لے جائیں۔ اس بار بھی یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ مزاحمتی محور اور ایران کمزور ہو چکے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ پہلے تو ٹرمپ کی پچھلی حکومت میں، جب امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے مغربی قدس منتقل کیا گیا اور صدی کی ڈیل کا اعلان کیا گیا، کیا امریکہ کے مقاصد مزاحمت کو ختم کرنے میں کامیاب ہوئے؟ اگر مزاحمت کمزور ہوتی تو اکتوبر 2023 میں طوفان الاقصیٰ واقع نہ ہوتا۔ آج بھی مزاحمت زندہ ہے، یہی وجہ ہے کہ صہیونی حکومت کو حزب اللہ اور حماس دونوں کے ساتھ جنگ بندی پر مجبور ہونا پڑا۔
دوسرا، ایران ٹرمپ کے کھیل اور اس کی تصویر سازیوں سے بخوبی واقف ہے اور وہ اسے اور امریکی حکومت کو حقیقت کے طور پر دیکھتا ہے۔ آج امریکہ مختلف چھوٹے اور بڑے مسائل میں الجھا ہوا ہے؛ اس کا سخت حریف چین اور روس ہے اور یورپ کے ساتھ بھی چیلنجز کا سامنا کرے گا۔ اصل مسئلہ اندرون ملک ایک مغرب نواز دھارا ہے جو امریکہ کو تصویر سازیوں اور میڈیا کی جنگ سے باہر نہیں دیکھنا چاہتا! لیکن اسلامی جمہوریہ بیرونی سیاست کے منظرنامے کا گہرائی سے تجزیہ کرے گا اور پاگل آدمی کے نظریے کو صرف ایک نظریے کے طور پر دیکھے گا۔
مصنف : ترجمہ زیدی ماخذ : فاران خصوصی
تبصرہ کریں