این پی ٹی اور صیہونی ریاست
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کو تلف کرنے کے لیے ایک مناسب کارروائی کی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 149 رکن ممالک نے ایک قرارداد جاری کی، جس میں صیہونی حکومت سے کہا گیا کہ وہ “جوہری ہتھیاروں کی تیاری، پیداوار اور اس کے تجربہ نیز جوہری ہتھیار رکھنے سے باز رہے۔” قرارداد میں صیہونی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ وہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کو تسلیم کرے اور اپنی تمام جوہری تنصیبات کو جامع بین الاقوامی جوہری توانائی کے SAFE GUARD RULES تحفظات کے تحت رکھے۔ اگرچہ امریکہ اور یورپی ممالک اپنے موقف اور پالیسی میں خود کو جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ پر پابندی کے معاہدے (این پی ٹی) کے محافظ قرار دیتے ہیں، لیکن عملی طور پر دیکھا جائے تو امریکہ اور کینیڈا نے اس قرارداد کے خلاف ووٹ دیا اور بعض یورپی ممالک نے مخالفت میں یا ووٹ دینے سے باز رہے۔ ادھر یوکرائن نے بھی اپنا سابقہ ووٹ واپس لے لیا اور قرارداد کے خلاف ووٹ دیا۔
جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہر سال جاری کی جانے والی یہ قرارداد اس سے قبل مصر کی جانب سے نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پیش کی گئی تھی اور فلسطینی اتھارٹی، بحرین، اردن، مراکش اور متحدہ عرب امارات سمیت 19 ممالک نے اس کی حمایت کی تھی۔ اس قرارداد میں کہا گیا ہے کہ صیہونی حکومت مشرق وسطیٰ کی واحد ریاست اور اقوام متحدہ کے 193 ممالک میں سے ایک ہے، جس نے ایٹمی ہتھیاروں کے پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس سے قبل کویت سمیت بعض ممالک نے بین الاقوامی برادری سے کہا تھا کہ وہ صیہونی حکومت کو NPT میں شامل کرانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں پوری کریں، تاکہ مشرق وسطیٰ کو اس قسم کے ہتھیاروں سے نجات دلائی جا سکے۔
انٹرنیشنل اٹامک انرجی کے 66ویں سالانہ اجلاس میں کویت کے سفیر نے اپنے خطاب میں عالمی برادری سے کہا کہ وہ مشرق وسطیٰ کو جوہری اور مہلک ہتھیاروں سے نجات دلانے کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرے اور اس تناظر میں تل ابیب کو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (NPT) میں شامل ہونے کی ترغیب دیں۔ یو این او میں کویت کے مستقل نمائندے طلال الفصام نے “اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں” کی شق پر بحث کے دوران بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے پالیسی ساز اداروں میں اس حکومت کی جوہری صلاحیتوں کا جائزہ لینا ضروری قرار دیا۔ این پی ٹی معاہدے پر یکم جولائی 1968ء کو دستخط کیے گئے تھے۔ امریکہ اور انگلینڈ سمیت 59 دیگر ممالک نے اس پر اس وقت دستخط کیے۔
اس وقت ایران سمیت دنیا کے 186 ممالک اس معاہدے کے رکن ہیں۔ صیہونی حکومت دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے، جو ابھی تک اس معاہدے میں شامل نہیں ہوئی ہے۔ این پی ٹی معاہدے کے نفاذ اور اس کے اضافی پروٹوکول کی نگرانی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کی ذمہ داری ہے، جسے اقوام متحدہ کی خصوصی ایجنسیوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کا قیام 1957ء میں عمل میں آیا اور اس کا کام ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کو آسان بنانے کے ساتھ ساتھ ایٹمی پروگرام کو فوجی مقاصد سے دور رکھنا تھا۔ اس ایجنسی کا ہیڈ کوارٹر ویانا میں ہے۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی این پی ٹی کے نگران ادارے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کی طرف سے ایک سرپرست ادارے کے طور پر کام کرتی ہے۔ لہذا وہ امن و سلامتی کی ذمہ دار ہے، لیکن تاریخ شاہد ہے کہ بے لگام صہیونی حکومت نے آج تک نہ این پی ٹی معاہدے پر دستخط کئے ہیں، نہ آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں کو معائنے کی اجازت دی ہے۔ اسرائیل کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں کی وجہ سے عالمی اداروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا چاہیئے اور دنیا کے ممالک اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔ اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ جنرل اسمبلی کی قراردادیں مشاورتی ہوتی ہیں اور ان پر عمل درآمد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوتی، اس کے باوجود یہ اسمبلی “یونین فار پیس” کے طریقہ کار کو استعمال کرکے اپنی قرارداد کے لیے ایک ایگزیکٹو میکانزم بنا سکتی ہے۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صیہونی حکومت کو این پی ٹی میں شامل ہونے اور اس کی خفیہ جوہری سرگرمیوں کو ختم کرنے کی ضرورت سے متعلق قرارداد کو سفارت کاری میں ایک قدم آگے سمجھا جاسکتا ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے اور اس کے لیے مزید انتظامی میکانزم کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ صیہونی حکومت نے گذشتہ دہائیوں کے دوران مغربی حمایت پر انحصار کرتے ہوئے بین الاقوامی اداروں پر صیہونی مافیا کا اثر و رسوخ بڑھایا ہے اور دوسری طرف صیہونی معاشرے میں انتہاء پسندی اور نسل پرستانہ رجحانات مسلسل اور تیزی سے پھیلتے جا رہے ہیں اور اس نے انتہاء پسندی کے قیام کے لیے زمین تیار کر دی ہے۔ نیتن یاہو کی موجودہ امن مخالف کابینہ اس غاصب حکومت کے جوہری ہتھیاروں کو دنیا کے لیے خطرناک بناسکتی ہے۔
تبصرہ کریں