ایک بہیمانہ قتل
فاران: الینوائے پولیس نے بتایا ہے کہ شکاگو سے تعلق رکھنے والے ایک شخص نے چھ سالہ مسلمان لڑکے کو چاقو سے قتل اور اس کی ماں کو شدید زخمی کر دیا ہے۔ امریکی پولیس نے تشدد کے اس “غیر انسانی اور بزدلانہ” عمل کی مذمت کی۔ امریکن کونسل آف اسلامک ریلیشنز نے یہ اعلان کیا ہے کہ مجرم قاتل نے جرم کرتے وقت فلسطین اور اسلام مخالف نعرے لگائے۔ اس کونسل نے امریکی سیاست دانوں اور میڈیا کے درمیان اسلام دشمنی اور فلسطین دشمنی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ پولیس نے بتایا کہ 71 سالہ گھر کے مالک جوزف چوبا نے اس بچے کو اپنے پلین فیلڈ کے گھر میں چاقو کے 26 وار کرکے شدید زخمی کر دیا، یہ چھ سالہ بچہ ہسپتال جاتے ہوئے راستے میں دم توڑ گیا. حکام نے بتایا کہ اس کی 32 سالہ ماں کو بھی چاقو کے درجنوں زخم آئے ہیں اور وہ ہسپتال میں ہیں، تاہم ان کے زندہ رہنے کی امید ہے۔
جوزف چوبا پر فرسٹ ڈگری قتل، قتل کی کوشش اور حملہ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔ شکاگو میں ول کاؤنٹی شیرف کے دفتر نے ایک بیان میں کہا ہے کہ “تفتیشی افسر اس بات کا تعین کرنے میں کامیاب رہے کہ اس وحشیانہ حملے کے دونوں متاثرین کو مشتبہ شخص نے اس لیے نشانہ بنایا کہ وہ مسلمان ہیں۔ پولیس نے حماس اور اسرائیل کے درمیان مشرق وسطیٰ کے تنازعات کو اس قتل کی وجہ قرار دیا ہے۔ پولیس نے جوزپ چوبا پر نفرت پر مبنی جرائم کے دو الزامات عائد کیے ہیں۔ یہ عمل اتنا غیر انسانی اور بلا جواز تھا کہ وائٹ ہاؤس کو بھی اس کی مذمت کرنی پڑی۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے X پر لکھا: “جِل اور میں نے کل الینوائے میں ایک بچے کے وحشیانہ قتل اور بچے کی ماں کے قتل کی کوشش کے بارے میں سنا۔۔۔ فلسطینی مسلمان خاندان کے خلاف اس قابل نفرت فعل کی امریکہ میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ امریکیو، ہمیں اکٹھا ہونا چاہیئے، اسلامو فوبیا اور کسی بھی قسم کے تعصب اور نفرت کو مسترد کرنا چاہیئے۔‘‘ بائیڈن کے اس موقف پر غور کرتے ہوئے سوال یہ ہے کہ وہ صیہونی حکومت کی جانب سے بچوں کے قتل عام پر خاموش اور لاتعلق کیوں ہے۔؟ بہرحال فلسطینی بچے کے اس بہیمانہ قتل میں صیہونی حکومت کے حامی اس امریکی انتہاء پسند کا مجرمانہ عمل، بچوں کو قتل کرنے والی اسرائیلی حکومت کے معمول کے رویئے کی یاد دلاتا ہے۔
الاقصیٰ طوفان آپریشن کے آغاز کے بعد اور غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں میں صیہونی حکومت کی فضائیہ کے وحشیانہ اور وسیع فضائی حملوں کے دوران اب تک 2670 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں، جن میں 700 سے زائد بچے ہیں۔فلسطینی قدس نیٹ ورک نے اعلان کیا ہے کہ “ایک ہفتے میں اسرائیلی بمباری سے شہید ہونے والے فلسطینی بچوں کی تعداد گذشتہ 20 مہینوں میں شہید ہونے والے یوکرینی بچوں کی کل تعداد سے زیادہ ہے۔” اقوام متحدہ کے ادارے یونیسیف کے ترجمان نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ “غزہ میں بچوں کے لیے نہ صرف اب کوئی محفوظ جگہ نہیں رہی بلکہ وہاں پانی، خوراک اور دوائی ناپید ہے۔” اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ امریکی شہری جوزف چوبا کا جرم امریکہ میں انتہاء پسندی، نسل پرستی اور نفرت پر مبنی تشدد کے پھیلاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔
اس سلسلے میں ایف بی آئی کے سربراہ کرسٹوفر رے نے حماس اور صیہونی افواج کے درمیان جھڑپوں کے درمیان پرتشدد انتہاء پسندی میں اضافے کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا: اس میں کوئی شک نہیں کہ خطرات بڑھ رہے ہیں۔ امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف دھمکیوں کے بڑھتے ہوئے رجحان کو دیکھتے ہوئے کونسل آف امریکن اسلامک ریلیشنز نے امریکی سیاست دانوں اور میڈیا میں اسلام دشمنی اور فلسطین دشمنی کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ امریکہ میں “ڈونلڈ ٹرمپ” کے دورِ صدارت میں مسلمانوں کے خلاف اسلامو فوبیا اور تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ واضح طور پر اسلام مخالف اور مسلم دشمنی کے حامل تھے اور اسلامو فوبیا کے شدید حامی تھے۔
امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد میں شدت
امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک نیز جسمانی اور زبانی تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے، اس میں انتہائی دائیں بازو کے گروہوں کا عمل دخل زیادہ ہے۔ مسلمانوں کے خلاف پروپیگنڈے اور میڈیا کی جنگ خاص طور پر مقبوضہ فلسطین میں حالیہ پیش رفت کے بعد مزید بڑھ گئی ہے۔ اسلامو فوبیا کے اس رجحان میں مسلمانوں کے خلاف پرتشدد حملے، اسلامی عبادت گاہوں کو جلانا، مسلمانوں کے خلاف زبانی حملے، دھمکیاں اور مختلف تعلیمی اور پیشہ وارانہ امور میں اسلام کے پیروکاروں کے خلاف امتیازی سلوک جیسے واقعات شامل ہیں۔ حماس اور صیہونی حکومت کے درمیان لڑائی کے نام پر شکاگو میں ایک مسلمان ماں اور بچے کے خلاف حالیہ جرم بھی امریکہ میں مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافے کی ایک علامت ہے۔
تبصرہ کریں