بائڈن “عظیم تر اسرائیل” نامی خواب کے تعاقب میں
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: کوئی کہتا ہے کہ جو بائڈن ایران کا اثر و رسوخ کم کرنے اور عربوں کو ایک بار پھر ایرانی کے خیالی خطرے کی یاددہانی کرانے اور نادان حکمرانوں کو اس خیالی خطرے کے مقابلے میں بڑی مقدار میں اسلحہ فروخت کرنے، نیز عرب ریاستوں اور اسرائیل کا فوجی اتحاد قائم کرنے مغربی ایشیا کے دورے پر آ رہے ہیں؛ کوئی کہتا ہے کہ امریکہ میں افراط زر اور اشیاء ضرورت کی قلت، بالخصوص پیٹرول کی قیمتوں میں بڑھتے ہوئے اضافہ، امریکہ کے اگلے صدارتی انتخابات میں بائڈن کے لئے، خطرہ بنا ہؤا ہے اور یورپ کو بھی روس کی طرف سے گیس اور تیل کی برآمدات کم ہونے کے باعث ایندھن کی شدید قلت یورپی صنعت و معیشت خطرناک مستقبل سے دوچار ہے، چنانچہ وہ عرب ریاستوں کو بڑے پیمانے پر تیل اور گیس امریکہ اور یورپ برآمد کرنے پر تیار کرنے کے لئے کوشاں ہیں؛ لیکن سب سے عجیب پیشین گوئی – یا پھر سیاسی امید- سابق صہیونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو نے ظاہر کی ہے اور ویہ ہے کہ اسرائیلی ریاست بائڈن کی موجودگی میں سعودی عرب سمیت دوسرے عرب ممالک کے ساتھ مکمل سمجھوتہ منعقد کرنا چاہتی ہے۔
آج سے ساڑھے تین سال قبل صہیونی ریاست کو اندرونی سیاسی بحران اور عدم استحکام سے دوچار ہونا پڑا، اور اس وقت سے اب تک چار یا پانچ بار پارلیمانی انتخابات کا انعقاد کیا گیا اور پانچویں یا چھٹے انتخابات کا بھی اعلان ہوچکا ہے اور اس وقت یائیر لاپیڈ نامی شخص اس ریاست کا عبوری وزیر اعظم بنا بیٹھا ہے۔ نیتن یاہو کو مخالف جماعتوں نے تقریبا ایک سال قبل برطرف کردیا اور نفتالی بینیٹ کو وزیر اعظم بنایا جو ایک سال سے زیادہ برقرار نہ رہ سکا اور وہ بھی “سابق وزیر اعظم” بن گیا ہے۔ نیتن یاہو کو چونکہ بدعنوانی اور اخلاقی فساد کے الزامات کا بھی سامنا ہے چنانچہ وہ صرف بیرونی مسائل ہی کی خاطر نہیں بلکہ زیادہ تر خود اور اہل خانہ کو عدالتی کاروائیوں سے بچانے کے لئے کسی بھی قیمت پر اقتدار میں واپسی چاہتا ہے، اور اسی امید سے اس نے امارات، سوڈان، بحرین، اور مراکش کے ساتھ اپنے دور کی سازباز میں سعودی عرب – خاص کر سعود ولی عہد محمد بن سلمان – کے کردار کے بارے میں انکشافات و اعترافات کے سلسلے کا آغاز کر دیا ہے۔
البتہ جو بائڈن بھی اس سلسلے میں خاموش نہیں رہے اور واشنگٹن پوسٹ میں ایک مضمون بعنوان “میں سعودی عرب کیوں جا رہا ہوں” (Why I’m going to Saudi Arabia) کے ضمن میں اپنے سابقہ موقف اور اس جمال خاشقجی کے قتل پرسعودی حکمرانوں کو سزا دینے کے وعدے سے پوری طرح منحرف ہوکر لکھا: “سعودی عرب خلیج فارس تعاون کونسل کی چھ رکن ریاستوں کے اتحاد میں بنیادی کردار ادا کرتا رہا ہے اور اس وقت <میرے کچھ ماہرین کے تعاون سے تیل کی منڈی میں استحکام پیدا کرنے کے لئے کوشاں ہے>”۔
جب انسانی حقوق کے دعوے دھواں ہوکر ہوا میں بکھر جاتے ہیں
ادھر امریکی ماہرین نے الزام لگایا ہے کہ “بائڈن تیل کی خاطر اپنے تمام تر اصولوں اور انتخابی وعدوں کو پامال کرچکے ہیں اور درحقیقت اپنی ساکھ، آبرو اور عزت کو امریکہ میں “اسرائیلی لابی” کے عارضی اہداف پر قربان کر چکے ہیں تاکہ زیادہ سے زیادہ عرب ممالک کو “صہیونی ریاست کے ساتھ سازباز کے جال” میں پھنسا دیں اور یوں پورے جزیرہ نمائے عرب پر اسرائیل کو مسلط کردیں اور [شکست خوردہ] صہیونی منصوبے “عظیم تر اسرائیل” پر عمل درآمد کر دیں”۔
صہیونیوں کا وہمیاتی منصوبہ “عظیم تر اسرائیل” وہی منصوبہ ہے جو جعلی یہودی مکتوبات بعنوان “ابراہیم کے ساتھ خدا کا عہد” (God’s covenant with Abraham) کے تحت “اسرائیل کی نئی قلمرو” کے تحت بنایا گیا ہے۔
سی این این نے جون کے آخری دنوں میں “بائڈن کے دورہ مقبوضہ فلسطین” اور “اسرائیل سے ان کی سعودی عرب عزیمت” پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ دورہ سعودی عرب اور [عارضی] صہیونی ریاست کے درمیان سازباز کے عمل کو تیز کرنے کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔ صہیونی ذرائع نے بھی ان ہی دنوں میں لکھا کہ سعودی عرب اور [جعلی] اسرائیلی ریاست بائڈن کے دورے سے پہلے ہی، سازباز کے راستے پر کچھ قدم اٹھانے کے لئے عجلت سے کام لے رہے ہیں۔
کھوکھلے دعوے …
ادھر بائڈن نے کچھ امریکی قانون دانوں کے تجزیوں پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اپنے مضمون “میں سعودی عرب کیوں جا رہا ہوں” میں لکھتے ہیں: “ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ اس دورے کی مخالفت کر رہے ہیں لیکن انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے بارے میں میرا نظریہ میرے بیرونی دوروں میں ہمیشہ ترجیحی حیثیت رکھتا ہے؛ اور اس دورے میں بھی، میں اس مسئلے – جیسے اسرائیل اور مغربی کنارے کی صورت حال – کو توجہ دوں گا”۔
بائڈن کے انتخابی نعروں کو کیا ہؤا؟
بائڈن کا کہنا ہے کہ “میں پہلے امریکی صدر کے طور پر “اسرائیل” سے براہ راست “سعودی عرب” کے دورے پر جاتے ہوئے اپنے اوپر فخر کرتا ہوں اور مجھے امید ہے کہ اس دورے کی حصول یابیاں اس کے نقصانات سے زیادہ ہونگی؛ خاص طور پر ایسے حال میں جبکہ حقوق اور قانون کے حوالے سے سرگرم کارکن مجھ پر ان اصولوں کی قربانی دینے الزام لگا رہے ہیں”۔
واضح رہے کہ بائڈن کا طیارہ 15 جولائی (سنہ 2022ع) کو بن گوریون ہوائی اڈے سے براہ راست پرواز کرکے حجاز شریف کے ساحلی شہر جدہ میں اترے گا۔ سی این این نے اس دورے کو اسرائیل اور سعودیہ کے درمیانہ تعلقات کی بہتری کا سبب قرار دیا ہے؛ [گوکہ سعودی-اسرائیلی دوستانہ روابط جو 70 برسوں سے پس پردہ چل رہے تھے، گذشتہ عشرے میں عیاں ہوچکے ہیں اور آج ان دو کے باہمی تعلقات ہمیشہ سے زیادہ مستحکم اور ان کے درمیان تعاون ہمیشہ سے زیادہ وسیع و عریض ہے؛ البتہ اس سے پہلے سعودیوں اور یہودیوں کو “تقیہ” کرنا پڑ رہا تھا، اور اب ان کا خیال ہے کہ مسلم امہ کا عزم و ارادہ کچلا جا چکا ہے اور کوئی بھی نہیں ہے جو ان کا راستہ روک لے]۔
جب ذلت آمیز سمجھوتہ ترجیح ہو…
صہیونی اخبار “یدیعوت آحرونوت” نے فاش کیا ہے کہ بائڈن کے سفر کے آغاز سے پہلے، پس پردہ وسیع پیمانے پر کھچڑیاں پک رہی تھیں، اور کوشش یہ ہے کہ مغربی ایشیا میں بائڈن کی آمد سے پہلے ہی سازباز کا یہ پایۂ تکمیل تک پہنچے۔
کسی پر پوشیدہ نہیں ہے کہ امریکہ ہمیشہ اور ہر جگہ اپنے مفادات کو ہی ترجیح دیتا ہے، اسی لئے جب بھی اسے اپنے مفادات کی راہ میں رکاوٹ پیش آتی ہے، تو اس کے نعروں، دعؤوں اور وعدوں کا رنگ بدل جاتا ہے۔
امریکہ نے ہمیشہ سے سعودی عرب سمیت عرب ریاستوں کو ایران کے موہوم خطرے سے ڈرا کر سینکڑوں اربوں کا اسلحہ فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ صہیونی ریاست کے ساتھ تعاون پر مجبور کرتا رہا ہے اور سعودی عرب کو شیردار گائے سے تشبیہ دیتا رہا ہے؛ اور دیکھا جائے تو گذشتہ کئی عشروں میں اس نے سعودیوں کو ایک پائی کا فائدہ نہیں پہنچایا ہے اور اپنے خزانے کو سعودی اور خلیج فارس کی دوسری ریاستوں کی دولت سے بھرتا رہا ہے۔ چنانچہ اب یہ یہ توقع بالکل بے جا ہے کہ بائڈن اسرائیل کے ذریعے سعودیوں کو کوئی فائدہ پہنچائیں گے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ انہيں ہماری طرح پورا احساس ہے کہ صہیونی ریاست طبی موت (Clinical death) کا شکار ہو چکی ہے اور اس کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہے چنانچہ وہ اسرائیل ریاست کو آکسیجن فراہم کرنے آ رہے ہیں! اسی بنا پر ہی صہیونی حکمران پوری ڈھٹائی سے “سعودی عرب کے لئے اسرائیلیوں کی کھلی ہوئی بانہوں” کے بارے میں بات کررہے ہیں اور جن میں سابق صہیونی وزیر اعظم نیتن یاہو بھی شامل ہے جو کہہ رہا ہے کہ “اگر میں دوبارہ بر سر اقتدار آیا تو سعودی عرب اور دوسری عرب ریاستوں کے ساتھ مکمل مصالحت کا اہتمام کروں گا”۔ [تاہم، بائیڈن کو یہ احساس نہیں ہے کہ اس نیم مردہ جسم کو آکسیجن پہنچنے میں بہت دیر ہو چکی ہے]۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: السيد ابو ايمان
تبصرہ کریں