باضابطہ مذاکرات کیلئے خواہش کا اظہار
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: عراق کے وزیر خارجہ فواد حسین نے کہا ہے کہ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے ہم سے کہا ہے کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کے درمیان بغداد اور عراق میں ہونے والی ملاقات کی تیاری کریں اور عراق اس میٹنگ کی تیاری بھی کر رہا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر یہ ملاقات ہوئی تو ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات سیاسی اور عوامی مرحلے میں داخل ہو جائیں گے۔ اس سے قبل عراق کی میزبانی اور ثالثی میں دونوں ممالک کے حکام کے درمیان مذاکرات کے 5 دور ہوچکے ہیں، جو بنیادی طور پر سکیورٹی امور سے متعلق تھے۔ سیاسی اور اعلیٰ سطحی مرحلے میں مذاکرات کا داخلہ ظاہر کرتا ہے کہ سلامتی کے امور پر مذاکرات کامیاب رہے ہیں اور اب مذاکرات کو اعلیٰ سطحوں پر سیاسی مرحلے میں داخل کرنے کے لیے ضروری اعتماد اور بھروسہ فراہم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
ایران اور سعودی عرب کے درمیان مذاکرات، ان مذاکرات میں شامل تینوں فریقوں ایران، عراق اور سعودی عرب کے لیے اہم ہیں۔ صدام کے بعد کا نیا عراق علاقے کی بعض طاقتوں کے درمیان ایک پل بن کر ان طاقتوں کے درمیان توازن قائم کرنا چاہتا ہے۔ ایران کے لیے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بحال کرنا توقع کے عین مطابق ہے، کیونکہ پڑوسی ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات کی پالیسی، صدر رئیسی کی حکومت کی ترجیح اور ایجنڈا مین شامل ہے، ایران تو پہلے بھی سعودی عرب کے ساتھ تعلقات برقرار رکھنے کا خواہاں رہا ہے اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بگڑ جائیں۔ ایران کے ساتھ سیاسی تعلقات منقطع ہونے سے قبل ایران کے صدر سے لے کر رہبر معظم کے مشیر تک سعودی حکام سے تعلقات کو برقرار رکھنے اور مضبوط کرنے کے لیے اپنی خیر سگالی اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے سعودی عرب کا دورہ کرچکے ہیں۔
لیکن ایسا لگتا ہے کہ سعودی عرب عراق میں ایک نئے سیاسی نظام کی تشکیل اور ایران اور اس ملک کے شیعوں کے حق میں توازن کی تبدیلی کے نتیجے میں مایوسی کا شکار ہوگیا تھا اور وہ اس تبدیلی کا ذمہ دار ایران کو سمجھتا تھا۔ سعودی عرب عراق میں امریکی مداخلت کا حامی تھا اور ایران سعودی عرب کے برعکس عراق میں امریکہ کی فوجی جارحیت کا شدید مخالف تھا۔ البتہ بعد میں خود عراق میں امریکہ کی فوجی حکمت عملی اور عسکری عزائم ناکامی کا شکار ہوئے، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ برسوں کی دشمنی کی پالیسی اپنانے کے بعد سعودی حکام اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس پالیسی کے جاری رہنے سے اس ملک کی توانائی اور وسائل کا ضیاع ہی ہوا ہے اور اب اس کو جاری رکھنا ممکن نہیں رہا۔ امریکہ اور اسرائیل نواز ہونے سے مسلمانوں اور اسلامی ممالک کی نظروں میں سعودی عرب کی ساکھ اور مقام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ دوسری طرف ایران کے ساتھ تعلقات کی قربت اور بہتری اس ملک کے لیے کئی فوائد لا سکتی ہے۔
ایران سعودی تعلقات کی بہتری اور بحالی کی راہ میں بعض رکاوٹیں موجود ہیں اور صیہونی حکومت تہران اور ریاض تعلقات کی بہتری اور بحالی کو سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کی راہ میں اس اقدام کو سب سے بڑی رکاوٹ سمجھتی ہے۔ صیہونی حکومت نے بعض عرب اور بااثر مافیا کو استعمال کرتے ہوئے ایران اور سعودی عرب کے درمیان سیاسی تعلقات کی بحالی کو روکنے کے لیے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائیں، لیکن دونوں ممالک کی سیاسی خواہش تعلقات کی بحالی اور بہتری پر تیار ہے۔ اسی تناظر مین ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنعانی چافی نے اہم بیان جاری کیا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب کے مذاکرات کے بارے میں انہوں نے بتایا کہ اب تک تہران اور ریاض کے وفود کے بغداد میں پانچ بار مذاکرات ہوچکے ہیں، جس کا مثبت نتیجہ رہا ہے۔ ترجمان وزارت خارجہ نے بتایا کہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے بھی دونوں ممالک کے مابین علی الاعلان اور باضابطہ مذاکرات کے لئے اپنی خواہش ظاہر کی ہے، جسے ایک مثبت قدم سمجھا جا سکتا ہے۔
تبصرہ کریں