بحرینی صحافی: یمن عالمی مسلمانوں کی اخلاقی قبلہ گاہ ہے
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بحرینی خاتون صحافی سندس الاسعد نے “یمن کے خلاف جارحیت کے پہلؤوں کا جائزہ” کے زیر عنوان منعقدہ سیمینار کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا: یمنی عوام کے ساتھ نجد و حجاز پر مسلط سعودی قبیلے کی بہت پرانی دشمنی ہے اور اس دشمنی نے سنہ 2005ع سے نئی صورت اختیار کرلی اور رفتہ رفتہ عسکری تقابل میں تبدیل ہوئی لیکن [موٹے دماغ والے] سعودی کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ وہ امریکی استکبار کی پشت پناہی میں دشمنی کا جو نیا اظہار کررہے ہیں، اس کے مقابلے میں ان کو یمنی عوام کی طرف سے اس طرح کی شدید اور دائمی سیاسی اور سماجی مقاومت [Resistance] کا سامنا کرنا پڑے گا۔
انھوں نے بنی سعود کے انسان دشمنانہ اقدامات، خونخواریوں اور درندگیوں کے مقابلے میں یمنی عوام کی توانا، مستعد اور پرجوش مقاومت کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا: یمن اور یمن میں اٹھنے والی تحریک اس میں سرگرم جماعتیں ایسے مراکز ایسی قوتیں اور کالونیاں ہیں جنہوں نے اسلامی اور انسانی مثالیت پسندی سے جنم لیا ہے اور ان سب میں وہ تمام قوتیں اور کالونیاں ہیں جو اسلامی اور انسانیت پسندانہ نظریات سے پیدا ہوئی ہیں جو سعودی عرب کے خلاف متحدہ مرکزوں (núcleos) میں تبدیل ہوچکی ہیں۔
انھوں نے کہا: اس خطے میں صرف سعودی عرب ہی ایک ایسی قیادت کو تسلیم کرتا ہے جو اپنے لوگوں کی کوئی عزت نہیں کرتی اور بعض ممالک کے تزویراتی اقدامات سے خطے کی بالادستی خطرے میں پڑ گئی ہے۔
انھوں نے کہا: صہیونی ریاست یمن پر سیاسی اور سماجی تسلط جمانا چاہتی ہے؛ لیکن یہ لوگ ہرگز نہیں جانتے کہ یمن میں ان کے اہداف و مقاصد کو کبھی بھی جامۂ عمل نہیں پہنایا جاسکتا؛ حتی جو شیطانی اقدامات وہ یمنی عوام کے دینی اور مذہبی تشخص کے مقابلے میں انجام دینا چاہتے ہیں، یمن کے کسی ایک فرد کے لئے بھی قابل قبول نہیں؛ اور ہم سب کو یہ حقیقت ذہن نشین کرلینا چاہئے کہ سعودی ریاست کی جڑیں تکفیری نظریات میں پیوست ہیں اور تمام مغربی حکومتیں جانتی ہیں کہ یمنی باشندے ہرگز وہ لوگ نہیں ہیں جو ان نظریات کے ایک فیصد کو بھی تسلیم کرنے کے لئے تیار ہوجائیں اور جارحیت کو تسلیم کریں۔
محترمہ سندس الاسعد نے یمن کو مسلمانوں کی اخلاقی قبلہ گاہ قرار دیا اور کہا: یمن کے موجودہ قائدین کو اس ملک کے عوام کی تائید و حمایت حاصل ہے اور مستقبل میں بھی یہی قیادت باقی رہے گی اور سعودی حکمران اسے تبدیل نہیں کر سکیں گے۔
انھوں نے کہا: یمن کے عوام کی مقاومت، ایران کے عظیم اسلامی انقلاب کی روشنی میں معرض وجود میں آئی ہے اور سماجی عدل کی یہ تحریک استعمار اور صہیونیت کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔ ایران ایک نئے دینی نظام کا موجود ہے جس نے ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد اور انصاف پسندی کا نظریہ (Idealogy)، لالچی اور حریص قوتوں کے خلاف مزاحمت کرنے والے مظلوم ممالک کو رائج کیا۔
ان کا کہنا تھا: مغربی ممالک کو جان لینا چاہئے کہ یہ مظلوم ممالک ایران کے ساتھ اپنے موجودہ اتحاد کو قائم و دائم رکھیں گے اور دشمنوں اور ان کے مظالم و جرائم کے خلاف جم کر لڑیں گے، اور یہ اتحاد اور مقاومت اور اس کی جدوجہد و استقامت ایک عظم طاقت اور استحکام کی عکاسی کرتی ہے جو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر، معرض وجود میں آیا ہے اور سب جانتے ہیں کہ اللہ کا ہاتھ اور اس کی طرف کی ہمہ جہت مدد و نصرت ان کا اصل سہارا ہے۔
بحرین کی خاتون صحافی محترمہ سندس الاسعد نے یقین دہانی کرائی کہ سعودی عرب روز بروز تنہا سے تنہاتر ہوتا جائے گا اور مقاومت اور حکمران سعودی خاندان کے درمیان ایک تصادم وقوع پذیر ہوگا اور یہ تصادم سعودیوں کی طرف سے ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جو اس کی خطاکاریوں اور غلطیوں کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت کریں گے؛ اور اسی رو سے اس نظریئے کو زیادہ تقویت ملتی ہے کہ اگر مظلوم قوتیں خطاکاروں کے خلاف مقاومت اور جدوجہد نہ کریں تو خطاکار قوتیں ان پر اپنا دباؤ بڑھاتی رہیں گی [چنانچہ اس کا لازمہ یہی ہے کہ سعودی جابروں اور مقاومت کے درمیان ایک وسیع و عریض تصادم ضرور وقوع پذیر ہوگا سوا اس کے کہ ریاض کے ظالم و جابر حکمران یا تو ظلم و ستم چھوڑ کر معمول کی پرامن حکمرانی کی طرف پلٹیں یا پھر نجد و ریاض کے مسلمان جاگ کر انہیں گھر بھیج دیں اور عوام کی مرضی کے مطابق جمہوری حکومت قائم کریں]۔
تبصرہ کریں