بحرین میں صہیونی رژیم کے اہداف

"بحرین، اسرائیل کو ایران کے مقابلے میں اپنا اہم اتحادی تصور کرتا ہے اور تل ابیب سے تعلقات بڑھانے کا خواہش مند ہے۔ اس کا یہ جھکاو افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے بعد مزید شدت اختیار کرچکا ہے، کیونکہ اب وہ امریکہ سے اپنی مدد اور حمایت کرنے کے بارے میں مایوس ہوتا جا رہا ہے۔"

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دشمنانہ پالیسیوں، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے حکمرانوں کی نادانی اور سابق صہیونی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو کی موقع پرستی کا نتیجہ اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم، متحدہ عرب امارات اور بحرین کے درمیان 15 ستمبر 2020ء کے دن “ابراہیم اکارڈز” نامی معاہدے کی صورت میں ظاہر ہوا۔ یوں ان دو عرب ریاستوں نے گذشتہ طویل عرصے سے غاصب صہیونی رژیم کے ساتھ موجود درپردہ تعلقات کو فاش کر دیا اور انہیں منظر عام پر لے آئے۔ ان کے اس اقدام کے نتیجے میں خطہ نئی اور خطرناک صورتحال میں داخل ہوگیا۔ یہ ایسا خطرہ ہے جسے دور کرنے کیلئے امت مسلمہ کی بیداری اور اسلامی ممالک کے حکمرانوں کو جرات اور مثبت اقدامات انجام دینے کی ضرورت ہے۔

بحرین اور صہیونی رژیم کے درمیان تعلقات کی تاریخ
1993ء میں تنظیم آزادی فلسطین (پی ایل او) اور اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کے درمیان اوسلو معاہدہ طے پایا۔ اس کے بعد بحرین اور صہیونی رژیم کے درمیان تعلقات بھی کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے۔ ستمبر 1994ء میں صہیونی وزیر ماحولیات نے بحرین کے دارالحکومت منامہ کا دورہ کیا۔ اس کے بعد صہیونی رژیم کے سابق صدر شیمون پرز نے 2000ء میں بحرینی ولیعہد سلمان بن حمد آل خلیفہ سے ملاقات کی۔ 2009ء میں بھی شیمون پرز اور صہیونی وزیر خارجہ زیپی لیونی نے نیویارک میں بحرین کے فرمانروا سے ملاقات انجام دی۔ بحرینی حکمرانوں کا دعویٰ تھا کہ صہیونی حکمران خطے میں قیام امن کیلئے سنجیدہ ہیں، لہذا ہم ان سے تعلقات بڑھا رہے ہیں۔ 2005ء میں بحرینی حکومت نے صہیونی رژیم کی مصنوعات درآمد کرنے کی پابندی ختم کر دی۔

غاصب صہیونی رژیم کی فوج کی جانب سے جاری کردہ معلومات کی روشنی میں بحرین اور صہیونی رژیم کے درمیان ایران اور فلسطینی گروہوں کے بارے میں انٹیلی جنس اور فوجی شعبوں میں بھی تعاون جاری ہے۔ چینل اسکائی نیوز نے 2015ء میں خبر دی تھی کہ بحرین غاصب صہیونی رژیم سے فولادی گنبد نامی فضائی دفاعی نظام خریدنے کیلئے مذاکرات کر رہا ہے۔ بعض رپورٹس کے مطابق آل خلیفہ خاندان کے افراد علاج معالجے کے سلسلے میں مقبوضہ فلسطین گئے۔ اسی طرح صہیونی رژیم اور بحرین کے دینی مراکز کے درمیان تعاون کی خبریں بھی منظر عام پر آئی ہیں۔ 2011ء میں جب بحرین میں عوامی انقلابی تحریک اپنے عروج پر تھی، صہیونی اخبار ہارٹز نے وکی لیکس کی کچھ ایسی دستاویزات شائع کیں، جن سے بحرینی حکمرانوں اور صہیونی حکام کے درمیان خفیہ تعلقات ظاہر ہوتے تھے۔

صہیونی رژیم سے تعلقات فاش ہونے کے خطے کی سکیورٹی پر اثرات
خلیجی ریاستوں کو درپیش بعض مشکلات جیسے انسانی قوت کی کمی اور سب سے اہم عوامی حمایت سے محرومیت اور عوام میں محبوبیت کا فقدان اس بات کا باعث بنا ہے کہ اس کے حکمران ہمیشہ سے دیگر حکومتوں سے اپنی سکیورٹی خریدنے کی کوشش کرتے رہیں۔ اس بارے میں اسٹریٹفورڈ سنٹر سے وابستہ مغربی ایشیاء کے امور کے ماہر رائن بوہل (Ryan Bohl) کہتے ہیں: “ابراہیم معاہدے میں بحرین کی پوزیشن منفرد حیثیت کی حامل ہے، کیونکہ بحرینی عوام کی اکثریت بحرینی حکمرانوں کو ناجائز اور غیر قانونی سمجھتی ہے۔” 1960ء تک بحرینی حکومت اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کیلئے برطانیہ اور امریکہ پر بھروسہ کرتی رہی۔ اب بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ بحرین اور متحدہ عرب امارات اسی مقصد کیلئے صہیونی رژیم سے سکیورٹی اور فوجی تعلقات بڑھا رہے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم خلیجی ریاستوں سے دوستانہ تعلقات استوار کرکے کچھ خاص مقاصد حاصل کرنے کے درپے ہے، جن میں سے اہم ترین علاقائی اور عالمی سطح پر گوشہ نشینی اور تنہائی سے باہر آنا ہے۔ صہیونی حکمران فلسطینی گروہوں کے مقابلے میں شدید دباو کا شکار ہیں اور وہ اس دباو کو کم کرنے کیلئے دیگر عرب حکومتوں سے تعلقات خوشگوار ظاہر کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ مزید برآں، صہیونی حکمران ایران کو اپنا اصلی ترین اور خطرناک ترین دشمن تصور کرتے ہیں۔ بحرین میں بھی 60 فیصد آبادی شیعہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ لہذا صہیونی حکمران بحرین میں شیعہ دشمن حکومت برسراقتدار رکھنا چاہتی ہے، تاکہ اس کے ذریعے بحرینی شیعہ عوام اور گروہوں کو کمزور حالت میں رکھ سکے۔

عالمی تعلقات عامہ کے ماہر جرجیو کیفیرو اس بارے میں کہتے ہیں: “بحرین، اسرائیل کو ایران کے مقابلے میں اپنا اہم اتحادی تصور کرتا ہے اور تل ابیب سے تعلقات بڑھانے کا خواہش مند ہے۔ اس کا یہ جھکاو افغانستان سے امریکہ کے فوجی انخلاء کے بعد مزید شدت اختیار کرچکا ہے، کیونکہ اب وہ امریکہ سے اپنی مدد اور حمایت کرنے کے بارے میں مایوس ہوتا جا رہا ہے۔” ایسے حالات میں گذشتہ ہفتے اسرائیل کے عبری میڈیا نے خبر دی ہے کہ صہیونی رژیم اپنی تاریخ میں پہلی بار ایک سابق فوجی افسر کو بحرین میں اپنے نمائندے کے طور پر بھیجنے کا فیصلہ کر چکی ہے۔ صہیونی ٹی وی کے چینل 13 کے مطابق ابھی تک تل ابیب نے کسی عرب ملک میں یہ کام انجام نہیں دیا ہے۔