بحر سے نہر تک کی فلسطینی حکمت عملی، صہیونیت کا حتمی زوال

یائیر لاپیڈ نے ایسے حال میں وزارت عظمیٰ کا موقع حاصل کیا ہے کہ صہیونی ریاست کو پیچیدہ حقائق کا سامنا ہے۔ مقبوضہ سرزمینوں میں سیاسی اور معاشی کامیابیوں کو بڑھتے ہوئے آبادیاتی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: عالمی یہودی کانگریس کا سربراہ اور آسٹریا میں سابق امریکی سفیر لکھتا ہے: سب سے بڑا چیلنج جو صہیونی ریاست کو خطرے سے دوچار کر رہا ہے، ایران کی جوہری صلاحیت نہیں بلکہ مقبوضہ سرزمینوں کی آبادیاتی ساخت ہے، اور آج ان سرزمینوں کی اکثریتی آبادی فلسطینیوں پر مشتمل ہے۔
ایک سالہ وزیر اعظم نفتالی بینیٹ کے بعد یکم جولائی (2022) کویائیر لاپیڈ غاصب عارضی ریاست کا چودہواں وزیر اعظم بنا وہ بھی عبوری وزیر اعظم جو یکم نومبر کے چار سال میں پانچویں مرتبہ پارلیمانی انتخابات منعقد کرانے تک بر سراقتدار رہے گا۔
عالمی یہودی کانگریس کے سربراہ اور آسٹریا میں سابق امریکی سفیر رونالڈ ایس لاؤڈر (Ronald S. Lauder) نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک مضمون میں اس شدید خطرے کا جائزہ لیا ہے جو صہیونی ریاست کے وجود کو خطرے میں ڈال رہا ہے؛ مضمون کے اہم نکات:
یائیر لاپیڈ نے ایسے حال میں وزارت عظمیٰ کا موقع حاصل کیا ہے کہ صہیونی ریاست کو پیچیدہ حقائق کا سامنا ہے۔ مقبوضہ سرزمینوں میں سیاسی اور معاشی کامیابیوں کو بڑھتے ہوئے آبادیاتی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
ائیر لاپیڈ صہیونیوں کا عبوری وزیر اعظم
– اسرائیل [لاؤڈر کے بقول] اس وقت اپنے سنہرے دور سے گذر رہا ہے۔ سنہ 2006 میں لبنان کی دوسری جنگ کے بعد 15 سال کے عرصے سے یہاں نسبتا امن و سکون اور تزویراتی استحکام قائم ہے، ان برسوں میں اسرائیل کی معاشی حالت بھی بالیدگی کی نشاندہی کرتی ہے اور سالانہ نمو کی شرح 3.5 تھی جو 2021 میں حیرت انگیز حد تک بڑھ کر 8 فیصد ہوگئی؛ قرضوں کی شرح امریکہ سے بہت کم تھی اور بےروزگاری کی شرح تقریبا صفر ہے اور زندگی کا معیار بھی استحکام کے ساتھ، بڑھ رہا ہے۔
– ٹیکنالوجی کی ترقی نے اسے دنیا کی فرنٹ لائن میں لا کھڑا کیا ہے جس کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نے اسرائیل کا رخ کیا ہے۔ اس نے خلیج فارس کی چھ عرب ریاستوں کے ساتھ امن کے سمجھوتے پر دستخط کئے ہیں اور عرب ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات مضبوط ترین تعلقات میں شمار ہوتے ہیں۔ امریکہ کے علاوہ چین، جاپان، بھارت، یورپ اور برازیل بھی اسرائیل کو تزویراتی شریک گردانتے ہیں، اور حالانکہ اس کی آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے، اس کی جی ڈی پی کی شرح برطانیہ کے برابر ہے۔
– مذکورہ بالا تمام کامیابیوں کے باوجود، اسرائیل کے وجود کو سنجیدہ خطرہ لاحق ہے جس کا ایران کے ایٹمی پروگرام سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ یہ خطرہ آبادیاتی ساخت (Demographic composition) سے جنم لے رہا ہے۔ گذشتہ عشروں میں پہلی بار سنہ 2020ع‍ بحیرہ روم اور دریائے اردن کے درمیانی علاقوں میں عربوں کی آبادی اسی علاقے میں رہنے والے یہودیوں کی آبادی سے کسی حد تک بڑھ گئی ہے۔ یہ اعدادوشمار صہیونی ریاست کے فوجی ڈھانچے سے متعلق دو تحقیقی اداروں نے فراہم کئے ہیں۔
– شرح پیدائش کے رجحانات میں کچھ تبدیلیوں کے باوجود، فلسطینی آبادی کی یہ مختصر سی برتری اگلے یا دو عشروں میں نمایاں ہوگي۔
صہیونی ریاست مشکل دو راہے پر
– اس کے معنی یہ ہونگے کہ اگر موجودہ صورت حال جاری رہی اور صہیونی ریاست مغربی کنارے پر اپنی حکمرانی کو بدستور جاری رکھے، تو اسے مختصر سی مدت میں ایک مشکل دوراہے اور دشوار مخمصے سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اگر فلسطینیوں کو مکمل شہریت کا حق اور مکمل حقوق دے تو اس صورت میں اسرائیل ایک یہودی ریاست نہیں ہوگا اور اگر انہیں حقوق نہ دے تو جمہوری ریاست نہیں ہوگا۔ ان دونوں صورتوں میں اسرائیل ایک جمہوری ریاست کے طور پر اپنا وجود کھو جائے گا۔
اکثر فلسطینی صہیونی ریاست کے مسلحانہ جنگ کے خواہاں ہیں
– اس سے بھی زیادہ پیچیدہ صورت حال کا سبب وہ بنیادی تبدیلیاں ہیں جو فلسطینی برادری میں جاری ہیں اور فلسطینی مرکز برائے پالیسی اور سروے ریسرچ کے سربراہ خلیل شقاقی (Dr. Khalil Shikaki) کے فراہم کردہ اعداد و شمار کے مطابق مغربی کنارے میں صرف 25 فیصد فلسطینی اسرائیل کے ساتھ بات چیت کی حمایت کرتے ہیں، اور 28 فیصد ابھی تک دو ریاستی حل کے حامی ہیں جبکہ مغربی کنارے کے 55 فیصد عوام اسرائیل کے خلاف مسلحانہ جدوجہد کی حمایت کرتے ہیں۔
– فلسطینی نوجوان اب امن و مصالحت، سازباز اور سرزمین فلسطین کی یہودیوں اور فلسطینیوں کے درمیان تقسیم، جیسے نظریات کی حمایت نہیں کرتے اور وہ یک ریاستی حل کو قبول کر چکے ہیں۔ ابھرتے ہوئے آبادیاتی حقائق اور فلسطینیوں کی بڑھتی ہوئی مخالفانہ ذہنیت اس پیشین گوئی کا ماحول فراہم کرتی ہے کہ اسرائیل کو جلد ہی اس آپشن کا سامنا کرنا پڑے گا: ایک فرد، ایک ووٹ۔”
اگر یہودی مطلق اکثریت کھو جائیں تو صہیونیت ٹوٹ جائے گی
– صہیونیوں کو درپیش کوئی بھی خطرہ اس خطرے سے زیادہ خطرناک نہیں ہے۔ صہیونیت کا بنیادی مفروضہ یہ تھا کہ روئے زمین پر ایک نقطہ ایسا ہونا چاہئے جہاں یہودیوں کی اکثریت ہو تاکہ یہ اکثریت حق خود ارادیت کو ایک جمہوری دائرے میں نافذ کر سکے۔ چنانچہ اگر یہودیوں کے پاس مطلق اکثریت نہ رہے تو صہیونیت ٹوٹ جائے گی۔
– بدقسمتی سے، عمومی بے حسی اور ایک نا اہل سیاسی نظام نے اسرائیل کو اس چیلنج سے نمٹنے سے روک رکھا ہے۔ زیادہ تر اسرائیلی کہتے ہیں کہ آگ کی بارش میں پسپا نہیں ہونا چاہئے، لیکن جب تشدد کی لہریں تھم جاتی ہیں، تو اقدام کرنے میں عجلت کی ضرورت محسوس نہیں کرتے، اور انہیں یقین ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی خطرے کا سامنا کئے بغیر ملینوں فلسطینیوں پر حکومت کرسکیں گے”۔
صہیونی ریاست ہر گذرتے دن کے ساتھ پاتال کے قریب تر ہوتی جا رہی ہے
– معاشی کامیابیاں، فوجی قوت اور بین الاقوامی پوزیشن (1) نے اسرائیل کو اندھا کر دیا ہے اور اس حقیقت کو نہیں دیکھ پا رہا، کہ ہر گذرتے دن کے ساتھ ان کی ریاست پاتال کے قریب تر ہوتی جا رہی ہے۔ یہ وہ زمانہ ہے کہ اسرائیل کے دوست اور اتحادی اس تشویش کا اظہار کریں۔ میں نے گذشتہ 40 سال کے عرصے سے “یہودی مملکت” کے لئے کام کیا۔ میں اسرائیل سے محبت کرتا ہوں اور اس کے تحفظ کا پابند ہوں اور اس کے لئے ہر ممکن کام کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن آج میری ذمہ داری یہ ہے کہ نئے وزیر اعظم کو [یائیر لاپید] کو اس مشکل پر غور کرنے اور راستہ بدلنے کی دعوت دوں۔
– بائڈن کا دورہ مغربی ایشیا ایک انوکھا موقع ہے، اور مجھے امید ہے کہ یائیر لاپیڈ [نام نہاد] امریکی-صہیونی-عربی سیکورٹی الائنس [جو ان کے بقول وجود میں آئے گا] سے بھرپور فائدہ اٹھائیں۔ اور فلسطینیوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لئے تخلیقی روش سے فائدہ اٹھانا پڑے گا اور امریکہ اور اعتدال پسند فلسطینیوں کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر اس مسئلے کے حل کی کوشش کریں؛ اگرچہ دو ریاستی حل کے منصوبے پر عمل درآمد ممکن لگتا ہے، لیکن لاپیڈ کو اپنی پوری قوت بروئے کار لا کر “یک ریاستی” المیے کا سد باب کریں؛ (2) کیونکہ کوئی بھی مشن اس مشن سے زیادہ ضروری نہیں ہے کیونکہ اسرائیل کا مستقبل خطرناک آزمائش سے دوچار ہے۔
—–
1۔ بین الاقوامیت سے امریکہ اور یورپ کی مراد مغربی دنیا ہے اور اسرائیل کی جبری مقبولیت بھی مغرب میں سکہ رائج الوقت ہے۔
2۔ رونالڈ ایس لاؤڈر یقینا یائیر لاپیڈ کو قریب سے جانتے ہیں اور اسی بنا پر اس سے کافی امیدیں وابستہ کئے ہوئے ہیں لیکن ان (لاؤڈر) کی بدقسمتی یہ ہے کہ اولا لاپیڈ عبوری وزیر اعظم ہیں، اور ثانیا مقبوضہ فلسطین پر امریکہ، یورپ، یہودی کانگریس جیسے اداروں اور اقوام متحدہ کی مدد سے مسلط ہونے والی صہیونی ریاست سیاسی استحکام کے دور سے کافی عرصہ قبل گذر چکی ہے چنانچہ ایک عبوری وزیر ا‏عظم سے امیدیں رکھنا، ایک لاحاصل جذباتی خواہش کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔