بشاراسد کے بعد شام میں اسرائیل کی لشکر کشی پر ایران اور دیگر ممالک کا ردعمل

ایسی صورت حال میں جبکہ صہیونی حکومت کے شام کے بنیادی ڈھانچوں پر حملے مسلسل جاری ہیں اور اسرائیلی فوج کے مطابق شام کی 70 سے 80 فیصد فوجی صلاحیت ختم ہو چکی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران نے ان حملوں اور جولان کے مزید حصوں پر اسرائیل کے قبضے کی سخت مذمت کی ہے۔

فاران تجزیاتی خبرنامہ: ایسی صورت حال میں جبکہ صہیونی حکومت کے شام کے بنیادی ڈھانچوں پر حملے مسلسل جاری ہیں اور اسرائیلی فوج کے مطابق شام کی 70 سے 80 فیصد فوجی صلاحیت ختم ہو چکی ہے، اسلامی جمہوریہ ایران نے ان حملوں اور جولان کے مزید حصوں پر اسرائیل کے قبضے کی سخت مذمت کی ہے۔ ایرانی نائب وزیر خارجہ سید عباس عراقچی نے خطے کے ممالک کو اسرائیلی جارحیت کو روکنے کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کرنے کی دعوت دی۔
فارس نیوز ایجنسی کے مطابق، سید عباس عراقچی نے 21 آذر کو اسرائیل کی حالیہ جارحیت کے ردعمل میں کہا: “اسرائیل نے شام کے تقریباً تمام دفاعی اور غیر فوجی بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے اور سال 1974 کے معاہدے اور اقوام متحدہ کی قرارداد 350 کی خلاف ورزی کرتے ہوئے شام کی مزید زمینوں پر قبضہ کر لیا ہے۔” عراقچی نے خطے کے ممالک کے فوری اتحاد اور مؤثر اقدامات کی ضرورت پر زور دیا۔

18 آذر کو دمشق کے سقوط کے بعد، اسرائیلی فوج کے چیف آف اسٹاف ہرتصی ہالووی نے اعلان کیا کہ اسرائیلی فوج غزہ، مغربی کنارے، لبنان اور شام میں بھی لڑائی کرے گی۔ اس دوران خبریں آئیں کہ اسرائیلی فوج نے شام کی زمینوں پر پیش قدمی کی ہے اور جبل الشیخ کے علاقے کو قبضے میں لے لیا ہے۔
اس کے بعد، شام کے بحری جہازوں کی تباہی اور اسرائیلی حملوں میں شامی جنگی طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کی تباہی کی تصاویر بھی سامنے آئیں۔ اسرائیل نے اس کارروائی کو “پیکان باشان” کا نام دیا۔ باشان شام کے ایک علاقے کا عبری نام ہے، جس کا مغربی حصہ جولان کی پہاڑیوں کے نام سے جانا جاتا ہے۔
20 آذر کو اسرائیلی فوج کے ریڈیو نے اطلاع دی کہ اسرائیلی فضائیہ نے شام کے فوجی ڈھانچوں پر شدید حملوں کے دوران اس کی 70 سے 80 فیصد فوجی صلاحیت کو ختم کر دیا ہے۔ 20 آذر کو ہی اسرائیلی فوج نے اعلان کیا کہ بشار الاسد کے زوال کے بعد شام میں 320 اسٹریٹجک اہداف پر حملے کیے گئے، اور دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں ان ہتھیاروں کو تباہ کیا گیا جو حزب اللہ جیسے “دشمن عناصر” کے ہاتھ لگ سکتے تھے۔
عبری زبان کے میڈیا نے اطلاع دی کہ اسرائیل نے چند گھنٹوں کے اندر 1800 بموں کے ذریعے شام کے 500 اسرائیلی فوج کی شام میں پیش قدمی اور جولان پر قبضہ
ان بیانات سے پہلے خبریں منظر عام پر آئیں کہ اسرائیلی فوج شام کی زمینوں میں پیش قدمی کر رہی ہے اور اطلاع ملی کہ اس فوج نے شام کی سرحد کے قریب جبل الشیخ کے علاقے پر قبضہ کر لیا ہے۔ بعد ازاں، اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں شام کی بحریہ کے جہازوں کی تباہی کی تصاویر جاری ہوئیں، جن میں متعدد جنگی طیارے اور ہیلی کاپٹر بھی تباہ دکھائے گئے۔ یہ کارروائی اسرائیل نے “پیکان باشان” کا نام دیا۔ باشان شام کے اس علاقے کا عبری نام ہے، جس کا مغربی حصہ جولان کی پہاڑیاں کہلاتا ہے۔

اسرائیلی فوج نے اطلاع دی کہ بشار الاسد کے سقوط کے بعد 320 “اسٹریٹجک اہداف” کو نشانہ بنایا گیا اور دعویٰ کیا کہ ان حملوں میں ایسے جدید ہتھیاروں کو تباہ کیا گیا جو حزب اللہ جیسے “دشمن عناصر” کے ہاتھ لگ سکتے تھے۔

عبری میڈیا نے مزید اطلاع دی کہ اسرائیل نے صرف چند گھنٹوں کے اندر 1800 بموں کے ذریعے شام کے 500 سے زائد اہداف پر حملہ کیا اور اس کے فضائی دفاعی نظام کو تباہ کر دیا۔

اس دوران، اسرائیلی میڈیا نے مزید خبریں دیں کہ اسرائیلی فوج کے ٹینک جولان کی پہاڑیوں میں داخل ہو گئے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، اسرائیلی ٹینکوں نے جولان کی پہاڑیوں پر بنائی گئی سرحدی دیوار عبور کر لی۔
اسرائیلی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو کے دفتر نے دعویٰ کیا کہ اسرائیل کسی بھی جہادی گروہ کو جولان کی پہاڑیوں پر اسرائیلی بستیوں کو 7 اکتوبر جیسے حملوں کے ذریعے خطرہ پہنچانے کی اجازت نہیں دے گا۔ اسی وجہ سے اسرائیلی افواج نے علاقہ حائل میں داخل ہو کر سرحد پر اسٹریٹجک مقامات کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ یہ تعیناتی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک 1974 کے معاہدے پر عمل درآمد کرنے والی اور ہماری سرحدوں کے تحفظ کی ضمانت دینے والی کوئی طاقت سامنے نہ آ جائے۔
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے کہا: “میں اور نیتن یاہو جولان کی پہاڑیوں کے دورے پر گئے، جہاں سے ہم نے شام کے جبل حرمون کی چوٹیوں کو دیکھا، جو 51 سال بعد ہمارے کنٹرول میں واپس آئی ہیں۔ میں نے اسرائیلی فوج کو ہدایت دی ہے کہ وہ پورے موسم سرما میں جبل حرمون کی بلندیوں پر رہنے کے لیے تیار رہے۔”
اسرائیلی چینل 12 نے رپورٹ دی کہ اسرائیلی فوج شام میں طویل قیام کے امکان کے لیے تیاری کر رہی ہے اور مزید کہا کہ “ہم اسرائیلی فوج کی جانب سے کارروائیوں کو مزید وسعت دینے اور دمشق کی طرف پیش قدمی کے لیے تیاریوں کے بھی گواہ ہیں۔”

ایران کے سفیر اور اقوام متحدہ میں ایران کے مستقل نمائندہ امیر سعید ایروانی نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اجلاس میں شام کی خودمختاری اور سرزمین پر اسرائیل کے قابض فوج کے کسی بھی قسم کے حملے اور تجاوز کو شدید الفاظ میں مذمت کی۔
اسی طرح، ایران کے نائب وزیر برائے قانون اور بین الاقوامی امور کاظم غریب آبادی نے بدھ 21 آذر کو اشک آباد میں منعقدہ “دوستی کے نیوٹرل گروپ” کے اعلیٰ سطحی اجلاس میں حالیہ اسرائیلی حملوں اور شام کی مزید زمینوں کے قبضے کی مذمت کی۔ انہوں نے ان حملوں کو اسرائیل کی جارحانہ فطرت اور بین الاقوامی قوانین کی مکمل خلاف ورزی قرار دیا اور سلامتی کونسل سے ان حملوں کو روکنے کے لیے عملی اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا۔
شام پر اسرائیل کے حالیہ حملوں، جو کہ اس سے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں، خصوصاً دمشق کے سقوط کے بعد، خطے کے ممالک اور اقوام متحدہ کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔
عراق کی وزارت خارجہ نے پیر، 19 آذر کو رات گئے ایک بیان میں جولان کی پہاڑیوں اور اس کے ملحقہ علاقوں میں فلسطین کی مقبوضہ سرزمین اور شام کے درمیان واقع حائل علاقے پر اسرائیلی قبضے کی مذمت کی۔ وزارت خارجہ نے اسرائیلی اقدامات کو بین الاقوامی قوانین اور متعلقہ قراردادوں کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا۔ انہوں نے شام کی خودمختاری، استحکام، ارضی سالمیت اور وحدت کا احترام کرنے پر زور دیا۔
اسرائیل کی شام پر حالیہ حملوں کے خلاف بین الاقوامی ردعمل آیا ہے
شام پر اسرائیل کے حالیہ حملوں کے بعد، جو کہ ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں، خاص طور پر دمشق کے سقوط کے بعد، خطے کے ممالک اور اقوام متحدہ کی جانب سے شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔
عراق کی وزارت خارجہ نے 19 آذر کو اسرائیل کی جانب سے جولان کی پہاڑیوں اور اس کے ملحقہ علاقوں میں حائل زون پر قبضے کی مذمت کی۔ وزارت خارجہ نے اسرائیلی اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور شام کی خودمختاری، استحکام، ارضی سالمیت، اور وحدت کے احترام پر زور دیا۔
یمن کی وزارت خارجہ اور انصاراللہ کے سیاسی دفتر نے بھی اسرائیلی حملوں کی مذمت کی۔ انصاراللہ کے رہنما سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ اسرائیل نے اپنی تاریخ کے سب سے بڑے فضائی حملے کے ذریعے شام کی فوجی طاقت کو 80 فیصد تک تباہ کر دیا۔ انہوں نے شامی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کے خلاف مسلح گروہوں کی خاموشی پر بھی تنقید کی۔
مصر کی وزارت خارجہ نے اسرائیلی اقدامات کو شام کی ارضی سالمیت کے خلاف تسلط پسندی کی پالیسی قرار دیا۔ اردن کے وزیر خارجہ ایمن الصفدی نے شام کی سرزمین پر اسرائیل کے کسی بھی قبضے کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا۔

امارات اور قطر نے بھی اسرائیل کے ان اقدامات کی مذمت کی اور انہیں خطے میں مزید تناؤ اور تشدد کا باعث قرار دیا۔ ترکی اور سعودی عرب نے اسرائیل کے حملوں اور جولان کی پہاڑیوں پر قبضے کو سال 1974 کے معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیا۔
عرب پارلیمنٹ اور عرب لیگ نے بھی اسرائیلی اقدامات کی شدید مذمت کی اور بین الاقوامی برادری سے شامی عوام کے ساتھ کھڑے ہونے اور اسرائیلی تجاوزات کو روکنے کا مطالبہ کیا۔
حزب اللہ لبنان نے اسرائیل کے ان حملوں اور قبضے کی مذمت کرتے ہوئے شامی عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا اور صیہونی عزائم کے خلاف خبردار کیا۔ فلسطینی اسلامی جہاد اور مجاہدین فلسطین نے بھی ان حملوں کی مذمت کی۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے ان حملوں کو باعث تشویش قرار دیا اور کہا کہ جولان کی پہاڑیاں اب بھی اقوام متحدہ کے مطابق ایک مقبوضہ علاقہ ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کی طرف سے شام کی سرزمین کی خلاف ورزی کی مذمت کی اور کہا کہ اس قسم کے حملے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔
امریکہ نے ان حملوں کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیل کے اقدامات کو ممکنہ خطرات کے خاتمے کی کوشش قرار دیا۔ وائٹ ہاؤس کے مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان نے اسرائیل کی حمایت کی، جبکہ دیگر امریکی حکام نے اس پر کوئی رائے دینے سے گریز کیا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا یہ پیشقدمی اور شامی علاقوں پر قبضہ ایک منصوبہ بندی کے تحت امریکی حمایت سے ہو رہا ہے، جس کا مقصد شام کے اندرونی حالات سے فائدہ اٹھانا ہے۔


اقوام متحدہ اور امریکہ کا اسرائیلی تجاوزات پر ردعمل

اقوام متحدہ نے اسرائیل کی جانب سے شام پر حالیہ حملوں پر ردعمل ظاہر کیا۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوترش کے ترجمان اسٹیفن دوجاریک نے ان حملوں کو “گہرے خدشات” کا باعث قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ اب بھی جولان کی پہاڑیوں کو ایک مقبوضہ علاقہ تسلیم کرتی ہے، اور اسرائیلی وزیر اعظم نتنیاہو کے بیانات کو اسرائیل کی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔ دوجاریک نے مزید کہا کہ اقوام متحدہ کسی بھی صورت شام کی خودمختاری کی خلاف ورزی کو قبول نہیں کرتا اور ہمسایہ ممالک کو شام کی موجودہ صورتحال کا غلط فائدہ نہیں اٹھانا چاہیے۔
دوجاریک نے یہ بھی بتایا کہ اقوام متحدہ کے نگران فورس (UNDOF) نے اسرائیل کو آگاہ کیا ہے کہ شام کے حائل علاقے میں اس کی موجودگی 1974 کے شام-اسرائیل سرحدی معاہدے کی خلاف ورزی ہے۔
دوسری جانب، امریکہ نے اسرائیلی حملوں کی حمایت کی۔ وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے ان حملوں کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ اسرائیل “ممکنہ خطرات کو ناکام بنانے” کی کوشش کر رہا ہے۔ اس سے قبل، وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کونسل کے اسٹریٹجک کوآرڈینیٹر جان کربی نے کہا تھا کہ واشنگٹن، شام میں اسرائیلی کارروائیوں پر کوئی تبصرہ نہیں کرے گا۔
تجزیہ کاروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل شام کے اندر زمینی پیشقدمی اور شدید بمباری کے ذریعے ایک منظم منصوبہ بندی پر عمل پیرا ہے، جس میں اسے امریکہ کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ اس منصوبے کا مقصد شام کی اندرونی صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے عزائم کو آگے بڑھانا ہے۔