بعثت یا معراج؟

بعثت اور معراج، دونوں ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے نہایت اہم اور نقش بے بدیل کے حامل واقعات ہیں، لیکن ان دونوں میں کئی بنیادی فرق اور مشترک نکات بھی موجود ہیں۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بعثت اور معراج، دونوں ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کے نہایت اہم اور نقش بے بدیل کے حامل واقعات ہیں، لیکن ان دونوں میں کئی بنیادی فرق اور مشترک نکات بھی موجود ہیں۔

جن پر توجہ ہمیں اللہ کی جانب سے زمین پر بھیجنے اور اس کے بعد زمین سے خود تک بلانے کے اہم سفر کی اہمیت کو اجاگر کرنے کا سبب ہوگی ۔
بعثت ایک ایسی نعمت تھی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے انسانیت کی رہنمائی کے لیے وحی نازل کرنا شروع کی۔ یہ وہ وقت تھا جب دنیا گمراہی اور جہالت کے اندھیروں میں تھی، اور اسلام نے علم، عقل، اور توحید کی روشنی پھیلائی۔
جہاں تک معراج کی بات ہے توم عراج، نبی اکرمؐ کی نبوت کے بعد ایک عظیم معنوی روحانی سفر تھا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو مالک لم یزل نے عالم ماوراء کے مشاہدات کروائے یہ سفر بعثت کے چند سال بعد پیش آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو اس میں عظیم حقائق سے ربرو کیا یہں سے امت کے لئے ” نماز” جیسا تحفہ ملا جس کے ذریعہ ہر امتی خود “معراج” حاصل کر سکتا ہے

بعثت اور معراج، دونوں کا مقصد نبوت کے مختلف مراحل کو مکمل کرنا تھا۔
بعثت، اللہ کا ابتدائی فرمان تھا جس کے ذریعے نبی اکرمؐ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو منصبِ رسالت پر فائز کیا گیا۔
معراج، نبوت کی تکمیل کا ایک اہم مرحلہ تھا، جہاں نبی اکرمؐ نے عالمِ بالا میں اللہ کے رازوں کو دیکھا اور امت کی شفاعت سے لیکر دیار باقی کے نعمتوں تک مناظر کو دیکھا
یہ دونوں واقعات ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں۔ بعثت اگر انسانیت کے لیے ہدایت کا آغاز تھا، تو معراج اس ہدایت کی تکمیل کے اہم اسباب میں سے ایک تھی۔ ان دونوں نے مل کر دینِ اسلام کی بنیاد رکھی اور انسانیت کو ایک مکمل، جامع اور آسمانی نظام عطا کیا۔
*27 رجب کی تاریخ اور بعثت*
جہاں تک بات 27 رجب المرجب کی ہے تو مکتب امامیہ میں اسے بعثت سے متعلق قرار دیا گیا ہے ۔
معراج کی تاریخ کے بارے میں ہمارے یہاں مختلف آراء پائی جاتی ہیں گرچہ27 رجب کے سلسلہ سے بھی تذکرہ ملتا ہے(1) لیکن زیادہ تر علماء اور محدثین نے اس تاریخ کو بعثت سے ہی متعلق جانا ہے
مثال کے طور پر، علامہ مجلسی کی کتاب “بحار الأنوار” میں معراج کے واقعہ کی تفصیلات موجود ہیں علامہ نے ایک روایت میں معراج کی تاریخ 17 رمضان المبارک بیان کی ہے نیز اس تاریخ کے ذکر کے بعد اس سلسلہ سے اختلاف کا بھی تذکرہ کیا ہے (2)
قال الإمام الصادق (عليه السلام): “سُئِلَ النَّبِيُّ (صلى الله عليه وآله) أُسْرِيَ بِكَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فِي سَابِعَ عَشَرَةَ مِنْ رَمَضَانَ”.
ترجمہ: امام صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) سے پوچھا گیا: کیا آپ کو معراج کرائی گئی؟ آپ نے فرمایا: ہاں، رمضان کی سترہویں تاریخ کو۔
اسی طرح، شیخ صدوق علیہ الرحمہ کی کتاب “عیون أخبار الرضا” میں بھی معراج کی تاریخ کے بارے میں مختلف روایات موجود ہیں (3)
جبکہ اکابرین شیعہ کا اتفاق ہے کہ 27 رجب المرجب وہ تاریخ ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وس مبعوث بہ رسالت ہوئے ذیل میں چند نمونے قابل غور ہیں –
1- محمد بن یعقوب الکلینی (متوفی 329 ھ)
الإمام الصادق عليه السلام : يَومُ سَبعَةٍ وعِشرينَ مِن رَجَبٍ نُبِّئَ فيهِ رَسولُ اللّهِ صلى الله عليه و آله (4)۔۔۔۔

امام صادق علیہ السلام:
27 رجب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو نبی بنایا گیا
یہ حدیث تھذیب و مصباح میں بھی ذکر ہوئی ہے(5)

2۔شیخ مفید (المتوفی 413ھ) – کتاب “المقنعہ”
“وَفِي سَابِعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَجَبٍ كَانَتْ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ”( 6)

“اور 27 رجب کی تاریخ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبعث سے متعلق ہے ۔”

3. شیخ طوسی (المتوفی 460ھ) – کتاب “مصباح المتهجد”

وَهُوَ يَوْمٌ شَرِيفٌ، وَقَدْ رُوِيَ أَنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي بُعِثَ فِيهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ.(7)

“یہ ایک شرافت کا حامل دن ہے، اور روایت کی گئی ہے کہ یہ وہ دن ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث ہوئے۔”

4. علامہ مجلسی (المتوفی 1111ھ) – کتاب “بحار الأنوار”

فِي سَبْعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَجَبٍ كَانَتْ مَبْعَثُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ.

“27 رجب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبعث کا دن ہے۔”(8)

5. شیخ عباس قمی – کتاب “مفاتیح الجنان”

وَفِي يَوْمِ سَابِعٍ وَعِشْرِينَ مِنْ رَجَبٍ كَانَتْ مَبْعَثُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ. (9)
– علامہ طباطبائی رح نے سورہ نجم کی تفسیر میں تفصیل سے اس سلسلہ سے وارد ہونے والی مختلف روایات پر روشنی ڈالی ہے اور معراج کے دو بار ہونے کا تذکرہ کیا ہے (10)
علماء و محدثین کے واضح بیانات کی روشنی میں واضح ہے 27 رجب کی تاریخ امامیہ کے یہاں بعثت سے متعلق ہے ہاں اھلسنت کے یہاں ضرور 27 رجب کی تاریخ معراج سے منسوب ہے البتہ انکے یہاں بھی اس سلسلہ سے کوئی ایک رائے نہیں ہے (11) انکی متعدد آراء کو تفسیر تبیان القرآن میں یکجا طور پر ملاحظہ کر کے نتیجہ تک پہنچا جا سکتا ہے ۔
صرف نظر اس بحث کے کہ 27 رجب کی تاریخ معراج سے متعلق ہے یا بعثت سے ہم سب کے لئے لازم ہے امامیہ محدثین و اکابرین کی روشنی میں اس دن کی اہمیت پر توجہ کریں چونکہ تاریخ انسانیت میں یہ دن بے نظیر ہے یہ دن بعثت سے متعلق ہے اور یہ ہی وہ دن ہے جس میں ہماری معراج کا نسخہ پوشیدہ ہے ۔

*بعثت قافلہ بشریت کا عظیم و حساس موڑ*

بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانی تاریخ کا ایک انقلابی موڑ ہے جس نے دنیا کے فکری، روحانی، سماجی، اور سیاسی ڈھانچے کو یکسر بدل کر رکھ دیا۔ یہ واقعہ محض کسی ایک خطے یا قوم تک محدود نہیں تھا، بلکہ اس کے اثرات پوری انسانی تہذیب پر مرتب ہوئے۔ بعثت کے اثرات اگر سرسری جائزہ لیا جائے تو چند اہم قابل قدر نکات ہمارے سامنے آتے ہیں

. *فکری اور عقیدتی انقلاب*

بعثت سے پہلے دنیا میں شرک، توہم پرستی اور جبر و استحصال کا دور دورہ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے توحید کا پیغام دیا، جس نے انسانی فکر کو ایک نئے زاویے سے روشناس کرایا۔ اللہ کی وحدانیت کے نظریے نے انسان کو توہم پرستی کی غلامی سے نجات دلائی اور یہ درس دیا کہ حقیقی طاقت صرف اللہ کی ہے، نہ کہ کسی موروثی بادشاہت، بت یا جاہلانہ رسم و رواج کی ۔بعثت بشریت پر اللہ کا وہ احسان ہے جسکا اعلان قرآن نے ان الفاظ میں کیا

“لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِّنْ أَنفُسِهِمْ” (آل عمران: 164)
یقیناً اللہ نے مومنوں پر احسان کیا کہ ان میں انہی میں سے ایک کورسول کے طور پر بھیجا )
یہ آیت اس فکری آزادی کی طرف اشارہ کرتی ہے جو بعثت کے ذریعے انسانیت کو عطا کی گئی۔

. *سماجی انقلاب*

بعثتِ نبوی سے قبل عرب معاشرہ طبقاتی تفریق، عورتوں کے ساتھ ناانصافی، غلاموں کے استحصال، اور بدترین قبائلی عصبیت کا شکار تھا۔ عورتوں کو حقارت و ذلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل، مساوات اور انسانی حقوق کے اصول متعارف کرائے جسکی بنیاد پر
خواتین کو سماج میں محترم جانا گیا بچیوں کو زندہ دفن کرنے کی روایت ختم ہوئی، عورتوں کو وراثت میں حق دیا گیا، اور ان کی سماجی حیثیت کو تسلیم کیا گیا۔

*غلاموں کے حقوق*:

غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی گئی اور انہیں معاشرے میں برابر کا مقام دینے کی تعلیم دی گئی۔

*مساوات و برابری کا درجہ* :
وہ لوگ جو قوم و قبیلے اور خاندان کو اپنی بڑائی کا ذریعہ سمجھتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سبکو ایک روحانی و ایمانی رشتے سے جوڑ کر عجم پر عرب کی برتری کا باطل کیا
حجۃ الوداع کا خطبہ نسلی و خاندانی و جغرافیائی برتری کے تصور پر خط بطلان کھینچتا ہے جہاں آپ نے فرمایا:
“کسی عربی کو عجمی پر اور کسی عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت نہیں، فضیلت کا معیار صرف تقویٰ ہے۔”
یہ تعلیمات دنیا کے لیے ایک نیا سماجی نمونہ پیش کر رہی ہیں ایسا نمونہ جس میں کسی بھی نسلی و قومی برتری اور تفریق کی کوئی گنجائش نہیں ہے

*اخلاقی اور روحانی اصلاح*

بعثت کے بعد انسانی اخلاقیات میں ایک انقلاب برپا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا سب سے بڑا پہلو ان کا اخلاقِ حسنہ تھا، جس نے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا۔

“وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ” (القلم: 4)
(بے شک آپ اخلاق کے بلند ترین مرتبے پر فائز ہیں)
یہی اخلاقی قوت تھی جس نے سخت دل انسانوں کو نرم بنایا، دشمنوں کو دوست بنایا اور ظالموں کو رحم دل بنا دیا۔
*علمی اور سائنسی ترقی کی بنیاد*
بعثت نے انسانیت کو “علم” کی حقیقت سے روشناس کرایا۔
قرآن کی پہلی وحی “اقْرَأْ” سے شروع ہوئی جس نے واضح کر دیا کہ اسلام کا پہلا پیغام تعلیم ہے۔
علاوہ از ایں قرآن میں بار بار غور و فکر، تدبر، اور علم حاصل کرنے پر زور دیا گیا جو اس بات کی علامت ہے کہ بعثت کے بعد سے اب ایک علمی معاشرہ کی تشکیل ہونا ہے ایسا معاشرہ جس میں جہالت و اوہام و خرافات کے لئے کوئی جگہ نہ ہوگی علم کی روشنی میں انسان کو ترقی ملے گی چنانچہ بعثت کے بعد اسلامی تہذیب نے سائنس، فلسفہ، طب، اور دیگر علوم میں بے پناہ ترقی کی، جس کے اثرات آج بھی دنیا میں قائم ہیں
*سیاسی اور معاشی اصلاحات*
عدل و انصاف پر مبنی حکمرانی بعثت کے دیگر نتائج میں سے ایک ہے
نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے مدینہ میں ایک فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی، جہاں شہریوں کے حقوق کا تحفظ کیا جاتا تھا۔ ایسی حکومت جو لوگوں پر حکمرانی کے لئے تشکیل نہیں ہوئی تھی بلکہ لوگوں کی خدمت کے لئیے تھی جہاں لوگوں کو بھاری ٹیکس دینے پر مجبور کر کے اپنے تخت حکومت کو نہیں چمکایا جاتا تھا بلکہ اس حکومت کا حاکم بوریہ نشین لوگوں کے مسائل کو حل کرنے کے درپے رہتا تھا
*معاشی استحکام*
بعثت کا ایک فائدہ پوری بشریت کو یہ ہوا کہ غریب و نادار اور مظلوم طبقے کو سود جیسی لعنت سے رہائی ملی اور ظلم کی چکی میں پستی بشریت کو چین کی سانس لینا نصیب ہوا
اسلام نے سود کو ختم کرکے زکوٰۃ اور تجارت کو فروغ دیا، جس سے ایک متوازن معیشت وجود میں آئی۔
*جنگ و امن کے اصول*:
اسلام نے غیر ضروری خونریزی کی مخالفت کی اور دفاعی جنگ کے اصول وضع کیے، جس سے ظلم اور جبر کے نظام کو ختم کرنے میں مدد ملی۔
المختصر یہ کہ بعثت کا اثر ایک وقتی یا جزوی اثر نہیں تھا، بلکہ یہ ایک دائمی تبدیلی تھی جو آج بھی قائم ہے۔ بعثت ایسی روشنی تھی جس نے انسانیت کو حقیقی کامیابی اور فلاح کا راستہ دکھایا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت نے فرد سے لے کر معاشرے تک، فکر سے لے کر سیاست تک، اخلاق سے لے کر معیشت تک ہر چیز کو بدل دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بعثت کو انسانیت کے لیے سب سے بڑی نعمت قرار دیا گیا ایسی نعمت جو رحمت کے سائبان کے ساتھ تھی
“وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ” (الأنبیاء: 107)
(اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا)
*نتیجہ گفتگو*:
یہ بعثت نہ صرف اس دور کے لیے بلکہ رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لیے ایک مشعلِ راہ ہےحقیقت میں دیکھا جائے تو حقیقی “معراج” یہی بعثت ہے۔ اس لئے کہ بعثت کے بعد انسانیت کو معراج ملی۔ معراج اور بعثت دونوں ہی اہم مناسبتیں ہیں لیکن ہم کہہ سکتے ہیں ہمارے لئے بعثت ہی “معراج” ہے اس لئیے کہ وہ معراج جو امامیہ کے نزدیک ماہ مبارک میں ہوئی نبی کی معراج تھی لیکن امت کی معراج یہی بعثت پیغمبر ہے جو آج ہی کے دن انسانیت کو حاصل ہوئی آج ہم جہاں پر بھی ہیں اسی بعثت کی بنیاد پر ہیں اس لئیے ہم سب کے لئے اہم ہے کہ جس دن ہمیں معراج ملی بشریت کو معراج ملی اس دن کو لا یعنی نظریات کی بھینٹ نہ چڑھا کردیکھیں کہ ہم آج کہاں ہیں اور کیسے امت مسلمہ کی معراج کا سبب بن سکتے ہیں۔
مسجدالحرام سے مسجد اقصی تک جو معراج ہوئی وہ نبی ص کی تھی ہماری معراج ” بعثت” ہے
نبی کا دین ہمارے لئے براق ہے خدا کا قرب ہمارے لئے”قاب قوسین” او ادنی” کی منزل سفر معراج کے تمام مقدمات امت کے لئیے فراہم ہیں پھر ہم کن بحثوں میں الجھے ہیں لفظوں میں کیا رکھا ہے بعثت کی معنوی حثیت کو دیکھیں اور صرف اپنی قوم و مذہب کے ماننے والوں کے لئیے نہیں بلکہ *چراغ بعثت* کی روشنی میں ہر ایک انسان کو اس بلندی تک پہنچانے کا عزم پیدا کریں جس کا وہ حقدار ہے۔

————
حواشی :
(1)ملا فتح الله کاشانی و احمد بن علی طبرسی نے کہا ہےمشهور یہی ہے کہ معراج بعثت کے بارہویں سال ہوئی کاشانی نے 27 رجب کی تاریخ کو اختیار کیا ہے۔ ملاحظہ ہو
منهج الصادقین، ۱۳۳۶ش، ج۵، ص۲۳۶

(2) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو علامہ مجلسی، بحار الأنوار، جلد 18، صفحہ 190۔

(3) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو”عيون أخبار الرضا “(عليه السلام) الشيخ الصدوق محمد بن علي بن بابويه القمي۔

(4) الكافي : ج ۳ ص ۴۶۹ ح ۷ ، (5)تهذيب الأحكام : ج ۳ ص ۱۸۵ ح ۴۱۹ مصباح المتهجّد : ص ۸۱۳ .

(6)شیخ مفید، المقنعہ، صفحہ 336

(7)شیخ طوسی، مصباح المتهجد، صفحہ 592۔
(8)علامہ مجلسی، بحار الأنوار، جلد 18، صفحہ 190۔

(9) شیخ عباس قمی، مفاتیح الجنان، صفحہ 235۔

(10)مزید تفصیلات کے لیے رجوع کریں تفسیر المیزان جلد 13، صفحہ 38 اس سلسلہ سے مختلف آراء و نظریات کے لئے رجوع کریں :
طباطبائی، محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، موسوی همدانی، محمد باقر، ج ‏2، ص 25، دفتر انتشارات اسلامی، قم،
طیب، سید عبد الحسین، أطیب البیان فی تفسیر القرآن، ج ‏8، ص 218، انتشارات اسلام‏، چاپ دوم، تهران‏، 1378 ش‏؛ المیزان فی تفسیر القرآن، ج ‏13، ص 38، به نقل از: روح المعانى، ج 15، ص 6 و مناقب، ج 1، ص 177.
مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج ‏12، ص 14، دار الکتب الإسلامیة، چاپ اول، تهران‏، 1374 ش‏.
المیزان فی تفسیر القرآن، ج ‏13، ص 38.
(11) مزید تفصیل کے لئے رجوع کریں
حافظ ابن حجر عسقلانی “تبیین العجب بما ورد في فضل رجب”
شرح صحیح مسلم ۔
(12)تفسیر تبیان القرآن: غلام رسول سعیدی ، جلد 6 کے صفحات 615 تا 643