بن سلمان کی مدد سے حجاز مقدس میں “دیارنا” کا یہودی منصوبہ!
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: سعودی خاندان کے ولی عہد محمد بن سلمان خفیہ طور پر “دیارنا” (Diarna = [یہودی-عرب دور میں] ہمارے گھر) نامی منصوبے میں یہودی ریاست کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں جس کا مقصد جزیرہ نمائے عرب میں مبینہ یہودی دعوی کردہ علاقوں کی شناخت کرنا اور عرب دنیا مغربی ایشیا میں یہودی ریاست کا اثر و رسوخ بڑھانا ہے اور محمد بن سلمان نے اس سلسلے میں یہودی ریاست کے منصوبے کو ضروری سہولیات کی فراہمی کے احکامات جاری کئے ہیں۔
سعودی لیکس نامی اخباری ویب گاہ نے مذکورہ رپورٹ دیتے ہوئے “دیارنا” نامی سازشی منصوبے کی تفصیلات کا انکشاف کیا ہے اور لکھا کہ یہ منصوبہ تقریبا 15 برسوں سے مشرق وسطی کے ممالک بالخصوص عرب معاشروں میں یہودیوں کا اثر و رسوخ بڑھانے کی غرض سے، در پردہ اور ذرائع ابلاغ کی نظروں سے دور، نافذ العمل رہا ہے اور اس کا انتہائی ہدف یہ ہے کہ صہیونی ریاست کو قانونی حیثیت دی جائے اور اس کی جارحیتوں اور قبضوں کو جائز قرار دیا جا سکے۔
اس منصوبے کے ڈائریکٹر “جیسن گوبرمین پیفر” (Jason Guberman-Pfeffer) نے “دیارنا” (Diarna) نامی مشکوک منصوبے کا آغاز 2008ع میں کیا تھا جس کے معنی ہمارے گھر یا ہمارا وطن کے ہیں۔ جس سے اس یہودی دعوے کی نشاندہی ہوتی ہے کہ گویا عرب ممالک میں یہودی ورثہ پایا جاتا ہے اور ان کو حق پہنچتا ہے کہ ان مقامات کو تلاش کریں اور ان پر اپنی ملکیت جتا دیں۔ اس طرح کے انتہائی شرمناک منصوبوں کا منظر عام پر آنا عرب دنیا پر یہودیت کے تسلط کے بعد ممکن ہو سکا ہے۔
گوبر مین کا دعوی ہے کہ مشرق وسطی اور عرب ممالک میں ایسے مقامات ہیں جو یہودیوں کی میراث ہیں اور وہ ان مقامات کی تعمیر نو کے خواہاں ہے۔ [خیبر، بنی قریظہ، بنی قینقاع اور بنی نضیر کے قلعوں کی تعمیر نو بھی اسی منصوبے کا حصہ ہیں، جبکہ بنی سعود نے تمام اسلامی آثار قدیمہ کو نیست و نابود کر دیا ہے!!!]
دیارنا منصوبے کے کارکنان گوگل ارتھ اور دو کمپیوٹروں کی مدد سے اپنے کام کا آغاز کیا اور ایک سال مسلسل کام کے بعد، “فرینڈز” نامی نیٹ ورک کی مدد سے، یہ منصوبہ موسم گرما سنہ 2008ع میں باضابطہ طور پر نافذالعمل ہؤا۔
سعودی لیکس کے مطابق، دیارنا کا منصوبہ اس وقت جزیرہ نمائے عرب کے صہیونیوں کے لئے جن علاقوں کی مستند سازی کر رہا ہے اور ان کی دستاویزی قلمیں تیار کر رہا ہے ان می “جزیرہ تیران، تبویک میں نیماء شہر کا قصر الابلق، العلاء کے علاقے میں مدائن صالح، نیز شہر الحافظ شامل ہیں، جو جزیرہ نمائے عرب کے قدیم ترین آثار قدیمہ کا احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ نیز منطقۂ خبیر میں ایک پہاڑ اور ایک در، قلعۂ کعب بن اشرف، مدینہ میں جنت البقیع اور منطقۃ السیح اور جنوبی [مقبوضہ یمنی صوبے] جازان میں شہر ابو عریش، نیز [مقبوضہ یمنی] شہر نجران بھی اس منصوبے میں شامل ہیں۔
اس توسیع پسندانہ منصوبے کے بانیوں کا دعوی ہے کہ ان کے منصوبے کا مقصد عرب ممالک میں یہودی ورثے کو محفوظ بنانا ہے، لیکن اس منصوبے کی ویب گاہ پر مندرجہ متون کا مختصر جائزہ لیا جائے، تو معلوم ہوتا ہے کہ یہودی ان خاص مقامات پر اپنی ملکیت جتا کر متعلقہ علاقوں پر قبضہ جمانا ہے؛ اور اس قبضے اور فلسطین پر یہودی قبضے میں فرق یہ ہے کہ یہودیوں نے فلسطین کو جنگ لڑ کر “سعودیوں کے خفیہ تعاون سے” قبضے میں لے لیا ہے اور مذکورہ علاقوں کو سعودی ولی عہد کی اعلانیہ تائید سے، قبضے میں لے رہی ہے۔
اس منصوبے کی ویب گاہ پر شائع شدہ رپورٹوں سے ظاہر ہے کہ اس صہیونی منصوبے کے ڈائریکٹوریٹ کے پلیٹ فارم سے عرب ممالک کے لئے متعدد “دوستانہ سیاحتی پروگراموں” کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان پروگراموں کے مبینہ مقاصد میں بھی یہودی ورثے میں شامل مقامات کی تلاش شامل ہے، اور کہا جاتا ہے کہ منصوبے کا مقصد یہ ہے کہ متعلقہ عرب ممالک ہی ان مقامات کی تعمیر نو کا کام سرانجام دیں یا یہ کہ ان ممالک کی حکومتیں ان مقامات کی تعمیر نو کے لئے مالی امداد فراہم کریں۔
“دیارنا” کا منصوبہ اگر مبینہ تاریخی مقامات کی تعمیر نو کے پیشرفتہ مراحل تک پہنچے تو صہیونی-یہودی ان مقامات پر اپنی ملکیت جتانے کی کوشش ضرور کریں گے، اس دعوے کی بنا پر کہ “یہ مقامات یہودی املاک اور مواریث میں سے ہیں اور صہیونی ریاست ان ممالک میں رہنے والے یہودیوں کے لئے ہرجانے کا دعوی دائر کرے گی۔ [یعنی جو کچھ مسلمانوں نے جارح یہودیوں کے خلاف جنگ میں فتح کیا ہے، اس کے مقابلے میں اب مسلمانوں کو ہی تاوان اور ہرجانہ ادا کرنا پڑے گا! خیبر اور مدینہ کے کئی حصے و۔۔۔ مسلمان ماشاء اللہ یا بستر پر یا سیل فون میں الجھ کر، سو رہے ہیں]۔
اس توسیع پسندانہ منصوبے سے جزیرہ نمائے عرب اور حجاز مقدس کے لئے پیدا ہونے والے خطرات کے باوجود، متنازعہ سعودی شخصیت اور اعلیٰ سعودی اہلکار اور نام نہاد “مسلم علماء ایسوسی ایشن” کے سربراہ اور “محمد العیسیٰ” – جو ہالوکاسٹ کے لئے مرثیہ سرائی کرنے اور سعودی-یہودی تعلقات کی بحالی کے لئے کوشاں رہنے کے حوالے سے بری شہرت رکھتے ہیں – نے نیویارک میں اس منصوبے کے مرکزی دفتر کا دورہ کیا ہے۔
محمد العیسیٰ نے باضابطہ طور پر، منصوبے کے ڈائریکٹر اور کوآرڈی نیٹر گوبر مین کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے “یہودی دشمنی” کی مخالفت میں اس کے کردار کو سراہا ہے۔
نیز “انجمن عالم اسلام” نامی جریدے نے اپنے انگریزی نسخے کے شمارہ 54 میں، صہیونی ریاست کے دیارنا منصوبے کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ سعودی حکومت نے اس منصوبے کا باضابطہ خیر مقدم کیا ہے۔
سعودی سرمائے سے چلنے والا ٹی وی چینل MBC اپنے پروگرام “فی الآفاق” میں جیسن گوبرمین کی میزبانی کی ہے اور سے اپنے ناظرین کو فخریہ انداز سے بتایا کہ “سعودی حکومت اس شخص کے منصوبے دیارنا کو مالی سہولیات فراہم کر رہی ہے”۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں