بڈھی لومڑی اور 96 سالہ ملکہ کا سفر آخرت
فاران: ہمارے آس پاس مختلف واقعات رونما ہو رہے ہیں جن میں سے ہر ایک شخصی، سماجی، ثقافتی یا سیاسی حوالے سے سبق آمیز اور عبرت انگیز ہو سکتا ہے۔
ایک دانشمند انسان کی کوشش رہتی ہے کہ ان واقعات کو آسانی سے مفت، ہاتھ سے نہ جانے دے اور زندگی کے پہلو یا متعدد جہتوں کو عمیق تر کر دے۔
ان ہی واقعات میں سے ایک برطانیہ کی تاجدار الیزبتھ دوئم کی موت ہے، جن کے بارے میں ہمیں ان دنوں بہت کچھ پڑھنے کو ملتا ہے؛ 96 سالہ بڑھیا، جنھوں نے لگ بھگ 70 سال تک بر سر اقتدار رہ کر برطانیہ کی گذشتہ 1000 تاریخ ميں ایک انوکھا ریکارڈ اپنے نام کر لیا۔
غور کیجئے! انگلستان، جو بوڑھی لومڑی کے نام سے مشہور ہے، قدیم ترین اور شیخی باز ترین یورپی ممالک میں سے ایک ہے؛ اسی اثناء میں یہ ملک ایران و ہند سمیت مختلف کے حوالے سے ایک بھونڈے اور غدارانہ پس منظر رکھتا ہے۔
اس ملک نے اپنی پالیسیوں اور اپنے بدنام زمانہ نشریاتی ادارے BBC کی رو سے بہت سارے کردار ادا کئے ہیں۔
ملکہ الیزبتھ دوئم کی موت ایک موقع ہے کہ اپنے عوام کے ساتھ بدترین دشمنی کرنے والے دشمن ملک کو پہچان لیں اور اس کے پس منظر کو دیکھ کر ایک بار پھر اس بات کا جائزہ لیں کہ اس ملک، اس کے سیاستدانوں اور اس کے نشریاتی ادارے پر کس حد تک اعتماد کیا جا سکتا ہے؟ کیا اصولی طور پر بڈھی لومڑی پر اعتماد کرنا، دانشمندی سے جوڑ رکھتا ہے؟
بدعنوانی، زیادہ سے زیادہ اشرافیت، مختلف اقوام پر ظلم اور سامراجی تسلط سے مالامال زندگی، طاقت اور دولت کے تمام مراکز پر غیر معمولی، بلاواسطہ اور بالواسطہ، قبضہ، موروثی – لیکن بہت پراسرار اور پیچیدہ – بادشاہت، بکھنگم پیلس میں گذرنے والے واقعات کی نسبت ‘مشتے نمونہ از خروارے’ کا مصداق ہے۔
ان دنوں ملکہ الیزبتھ کے ملک برطانیہ کو بدترین معاشی بحران کا سامنا ہے؛ جرمن اخبار “فرینکفرٹر آلجیمین زیتونگ” (Frankfurter Allgemeine Zeitung) کے مطابق “غربت ہمہ گیر ہو رہی ہے؛ [موسم سرما سے پہلے ہی ایندھن کی قلت کی] صورت حال یہ ہے کہ ان برطانویوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جنہیں اپنے آپ کو گرم کرنے یا کھانا پکانے میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑ رہا ہے”۔ لیکن اس کے باوجود برطانوی حکام اپنی [آنجہانی] ملکہ کے جنازے کے لئے انتہائی لا پروا ہو کر بڑی بڑی رقم خرچ کرنے پر تلے ہوئے ہیں، یہاں تک کہ الجزیرہ نشریاتی ادارے کے نامہ نگار کے تخمینے کے مطابق، ملک کے جنازے پر چھ ارب پاؤنڈ خرچ ہوں گے؛ اتنے اخراجات جن کا ہم تصور تک نہیں کر سکتے۔
ہم بھولے نہیں ہیں کہ سنہ 2013ع میں برطانوی روزنامہ ڈیلی میل نے اسی ملکہ کے پڑپوتے جارج آف ویلز کی پیدائش سے پہلے لکھا تھا کہ اس کی ولادت کی تقریب پر اس ملک کے عوام کی جیب سے 243 ملین پاؤنڈ خرچ ہوں گے!
یا آج سے چند ماہ قبل اس بڑھیا کی بادشاہت کی سترویں سالگرہ منائی گئی جس پر برطانیہ میں ایک ارب ڈالر کی خطیر رقم خرچ ہوئی۔
یہ سب کچھ ایسے موقع پر ہو رہا ہے کہ برطانیہ میں بچوں کے لئے سرگرم ایک خیراتی ادارے نے اعلان کیا ہے انگلستان کے شمال مشرقی علاقوں میں غریب بچوں کا تناسب لندن سے بڑھ گیا ہے اور اب اس علاقے میں ہر پانچ میں سے دو [یعنی 40 فیصد] بچے غربت میں پروان چڑھ رہے ہیں۔
برطانیہ کے سرکاری، نیز بعض تحقیقاتی، اداروں کی رپورٹوں کے مطابق، سنہ 2022 میں ایسے لوگوں کی تعداد 25 لاکھ تک پہنچ چکی ہے جو سستا کھانا وصول کرنے کے لئے فوڈ بینکوں کے محتاج ہیں؛ جبکہ ایسے لوگوں کی تعداد سنہ 2009ع میں صرف 26 ہزار تھی۔
اور یہ مسائل، ان درجنوں بڑے اور چھوٹے سماجی آفتوں اور انسان دشمن اقدامات اور رویوں کے علاوہ ہیں، جن کا اس ملک کو سامنا ہے؛ لیکن اس ملک کے حکام اور ملکہ [اور اب بادشاہ چارلس سوئم] سے وابستہ نشریاتی ادارہ BBC اس قدر شیخی باز ہیں اور اس قدر حق بجانب بن کر رویئے اپنائے ہوئے ہیں کہ گویا وہ پوری خوش اسلوبی سے ایک انتہائی صحتمند اور بے عیب ملک کا انتظام چلا رہے ہیں۔
انگلستان کے حکمرانوں کے مکاری اور لومڑی پن کی ایک نشانی یہ ہے کہ اس مکر و فریب کے آئینہ دار بی بی سی نے اپنے انسٹاگرام پیج پر ملکہ کی موت سے متعلق تمام پوسٹوں پر تبصرہ کرنے کا امکان بند کر دیا ہے ۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی حقانیت کے لیے یہی کافی ہے کہ ایسے حکمران اور ایسے میڈیا دن رات اس کے خلاف سازشیں کر رہے ہیں اور افواہیں پھیلا رہے ہیں۔
بقلم: مہدی فضائلی، ایم فل میڈیا و سیاسی مسائل
تبصرہ کریں