بیروت میں امریکی سفارت خانہ یا جاسوسی کا گھونسلہ

بیروت میں امریکی سفارت خانہ کی کارکردگی نے گذشتہ برسوں میں اسے ایک سفارتی عمارت سے بدل کر "جاسوسی کا اڈہ" بنا دیا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: بیروت میں امریکی سفارت خانہ کی کارکردگی نے گذشتہ برسوں میں اسے ایک سفارتی عمارت سے بدل کر “جاسوسی کا اڈہ” بنا دیا ہے۔
فارس پلس گروپ: لبنان میں 60 روزہ جنگ بندی کی مدت کے خاتمے کے ساتھ، جس کے دوران اسرائیل کو جنوبی لبنان کے مقبوضہ علاقوں سے نکلنا تھا، بیروت میں امریکی سفارت خانہ کی سرگرمیاں بھی نمایاں طور پر بڑھ گئی ہیں، خاص طور پر چونکہ امریکہ اور فرانس جنگ بندی کے نگران اور ثالث کے طور پر شامل ہیں۔ لیکن یہ سرگرمیاں دوبارہ ثابت کرتی ہیں کہ امریکہ کے دوسرے ممالک میں موجود سفارت خانے کبھی بھی صرف سیاسی اور بین الاقوامی تعلقات کو فروغ دینے کی جگہ نہیں ہوتے، بلکہ یہ ایک فوجی اڈہ اور جاسوسی کا مرکز ہوتے ہیں۔
اس دوران واشنگٹن بیروت میں اپنے سفارت خانہ کو مشرق وسطیٰ میں اپنے اہم ترین سفارت خانوں میں سے ایک کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس کی اہمیت مختلف عوامل پر مبنی ہے:
1- لبنان میں حزب اللہ کی موجودگی
2-اس کا مقبوضہ فلسطینی علاقوں کے قریب ہونا
امریکہ ان دونوں عوامل کو ایک ساتھ دیکھ کر شدت سے خطرہ محسوس کرتا ہے، اسی لیے وہ ہمیشہ لبنان میں حزب اللہ کی موجودگی کے خلاف رہا ہے۔ واشنگٹن نے دیکھا ہے کہ حزب اللہ نے 2000 میں کس طرح اسرائیل کو پہلی بار شکست دی اور 2006 میں اس کامیابی کو دہرا کر خود کو ایک طاقتور علاقائی کھلاڑی کے طور پر متعارف کرایا، جس کے بعد اب یہ اسرائیل کے لیے ایک وجودی خطرہ بن چکا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ لبنان امریکیوں کے لیے مزید اہمیت اختیار کر گیا ہے۔

امریکی سفارت خانے کی نئی عمارت کا معاملہ
بیروت کے شہر سے 13 کلومیٹر دور «عوکَر» علاقے میں امریکی سفارت خانے کی نئی عمارت کی تصاویر نے لبنان کے عوامی اور میڈیا کے حلقوں میں بڑی ہلچل مچائی۔ اس کی وجہ ایک طرف عمارت کا بہت بڑا رقبہ تھا جو 120,000 مربع میٹر تک پہنچتا ہے، جس نے اس سوال کو جنم دیا کہ ایک چھوٹے ملک میں اتنی بڑی سفارتی عمارت بنانے کے پیچھے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں۔
دوسری وجہ اس عمارت کے لیے فراہم کردہ سیکیورٹی تدابیر تھیں، جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں نے اس سفارت خانے کو «سفارت کے بھیس میں ایک فوجی اڈہ» قرار دیا۔ بیروت میں امریکی سفارت خانہ، بغداد کے بعد خطے میں سب سے بڑا امریکی سفارت خانہ ہے، جب کہ بغداد میں امریکی سفارت خانہ کی تعمیر پر 600 ملین ڈالر خرچ ہوئے تھے، لیکن امریکی وزارت خارجہ کے دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ بیروت میں اس نےاپنے سفارت خانے کی تعمیر پر ایک ارب ڈالر خرچ کیے گئے ہیں۔

بیروت میں امریکی سفارت خانے کی عمارت کی اہم خصوصیات

سفارت خانے کی تعمیر کا آغاز 2017 میں ہوا تھا اور اس کی تکمیل اس سال متوقع ہے۔ جہاں کچھ ذرائع نے سفارت خانے کے رقبے کو 120,000 مربع میٹر قرار دیا ہے، وہیں حزب اللہ کے قریبی ذرائع اس کا اصل رقبہ 174,000 مربع میٹر بتاتے ہیں، جو بیروت میں امریکی یونیورسٹی کی عمارت کے 247,000 مربع میٹر سے تھوڑا کم ہے۔ اب تک 174,000 مربع میٹر میں سے نصف رقبہ عمارت کی تعمیر کے لیے استعمال کیا جا چکا ہے اور باقی حصہ ترقیاتی منصوبوں کے لیے مختص کیا گیا ہے، جو مستقبل میں عمل میں لائے جائیں گے۔
سفارت خانے کی عمارت ایک بلند مقام پر واقع ہے (بلندی 200 میٹر) اور یہ مکمل طور پر بیروت شہر اور بحر روم کے ساحل پر نظر آتی ہے، اس حد تک کہ «الضبیہ» ساحل سے اس کی دوری تقریباً 1.7 کلومیٹر ہے، جبکہ بین الاقوامی ہوائی اڈہ «لارنکا» سے اس کی دوری 209 کلومیٹر ہے، جو عام طور پر امریکیوں بالخصوص لبنانی امریکی فوجیوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
نئی عمارت قدیم سفارت خانے سے صرف 250 میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ سابقہ سفارت خانے میں ہیلی کاپٹر لینڈنگ کے لیے زمین تھی، جس کا استعمال امریکہ نے اپنے ایجنٹ «عامر الفاخوری» کو لبنان سے فرار کرانے کے لیے کیا۔ امریکی سفارت کار اس چھوٹے ہوائی اڈے کو اپنے سفارت خانہ اور قبرص کے درمیان سفر کے لیے استعمال کرتے ہیں، جو 30 منٹ سے زیادہ وقت نہیں لیتا۔
سفارت خانے میں متعدد عمارتیں ہیں جن کی سیکیورٹی بہت مضبوط ہے۔ عمارت کی تعمیر میں تیار شدہ پری کاسٹ کنکریٹ دیواروں کا استعمال کیا گیا ہے اور عمارت کا ڈیزائن اس طرح بنایا گیا ہے کہ سفارت کے مشرقی حصے میں عمارتیں ہوں، جبکہ مغربی حصہ کھلا اور خالی رہ جائے۔

امریکی سفارت خانوں کا اطلاعاتی سرگرمیوں میں کردار
امریکہ برسوں سے اپنے سفارت کاروں کے کردار کو، بڑھاتا چلا آیا ہے اگر اگر نہ کہیں جاسوسوں کا کردار تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ اس نے انکے کرداروں کو بڑھا دیا ہے اور بہت وسعت دی ہے تاکہ وہ صرف سفارتی مشنوں کے علاوہ جاسوسی اور معلومات کے جمع کرنے کی سرگرمیوں میں بھی شامل ہوں۔ امریکی وزارت خارجہ کے خفیہ دستاویزات جو ویب سائٹ ویکی لیکس کے ذریعے افشا ہوئے، ان میں ظاہر کیا گیا ہے کہ واشنگٹن نے 2008 میں اپنے سفارت کاروں کو ایسی ہدایات دیں جو زیادہ تر جاسوسی کی ہدایات کے طور پر دکھائی دیتی ہیں، نہ کہ محض سفارتی ہدایات۔
امریکی وزارت خارجہ اس بات کا دفاع کرتی ہے کہ معلومات جمع کرنا اس کے ملک کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ یہ دنیا بھر میں امریکی سفارت کاروں کا مشن رہا ہے۔ اس ضمن میں وزارت خارجہ اپنی «سی آئی اے» (سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی) کے ساتھ قریبی تعاون پر فخر کرتی ہے اور اس بات پر زور دیتی ہے کہ عالمی رہنماؤں کے بارے میں معلومات کی تیاری اور تکمیل میں اس کا بڑا کردار رہا ہے۔
کچھ پیغامات اور وزارت خارجہ کی طرف سے بھیجے گئے تاروں میں اطلاعات جمع کرنے کی درخواستیں شامل تھیں اور ان میں ایسے نیٹ ورک سے رابطہ قائم کرنے کے لیے کہا گیا تھا جو دوسرے ممالک کی فوجوں اور اطلاعاتی ایجنسیوں کے ساتھ روابط میں تھے اور ان کے ساتھ تعاون کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ ہمیشہ اپنے جاسوسی اور معلوماتی کاموں کے لیے سی آئی اے کے سیکورٹی اور انٹیلی جنس افسران کو سفارتی کور میں استعمال کرتا آیا ہے۔

معلوماتی تعاون اسرائیل کے ساتھ
ایک اہم وجہ جو امریکی سفارت خانہ بیروت کے کردار پر شک و شبہات پیدا کرتی ہے، وہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان وسیع اور قریبی معلوماتی اور سیکیورٹی تعاون ہے، جو دونوں فریقین کے درمیان اسٹریٹیجک ہم آہنگی کے تحت کام کرتا ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خطے میں مزاحمتی تحریکوں خاص طور پر حزب اللہ کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 2011 میں لبنان کی مزاحمتی سیکیورٹی سروسز نے ملک میں سرگرمیوں کے بارے میں ایسی معلومات دریافت کیں جو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ سرگرمیاں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد کے ساتھ قریبی تعاون کے ہمراہ تھیں۔ اس کے علاوہ، لبنان کی حالیہ جنگ میں جو پیجر اور وائرلیس دھماکے دیکھے گئے تھے، وہ اسی تعاون کے تحت ہوئے تھے۔

طوفان الاقصی اور جاسوسی نیٹ ورک کا فعال ہونا
جب طوفان الاقصی کی کارروائی کے بعد حزب اللہ نے اسرائیلی رژیم کے خلاف طاقتور انداز میں کارروائی کی اور اس رژیم کو سخت ضربیں پہنچائیں، تو امریکہ کے سفارت خانے میں “عوکر” میں قائم جاسوسی نیٹ ورک فعال ہو گئے، جس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آئی کہ جو عمارت سفارت خانہ کہلاتی ہے، وہ در حقیقت کچھ اور مقاصد کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس سلسلے میں لبنان کی سیکیورٹی سروسز کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے بیروت کے اخبار “الاخبار” کو بتایا کہ امریکی سینئر افسران بیروت پہنچے اور عوکر میں امریکی سفارت خانے میں مقیم ہوئے۔
لبنانی ذرائع کے مطابق، اکتوبر 2024 کے اوائل میں، سی آئی اے کے 15 سینئر سیکیورٹی اور انٹیلی جنس افسران بیروت پہنچے اور فوراً عوکر میں امریکی سفارت خانے کی طرف روانہ ہو گئے۔ وہاں پہنچنے کے بعد، انہوں نے امریکی سفارت خانہ میں سی آئی اے کے چیف “شری بیکر” سے ملاقات کی۔ اس ٹیم کا ایک مقصد لبنان کے داخلی حلقوں اور جماعتوں کو اسلامی مزاحمت خاص طور پر حزب اللہ کے خلاف بھڑکانا تھا۔ لبنان میں امریکی سفیر “لیزا جانسن” کا کردار بھی اس تحریک میں نظر آتا ہے، جنہیں مزاحمت کے خلاف اقدامات میں اہم ذمہ داری سونپی گئی۔ لبنان کی سیکیورٹی اور سرکاری ذرائع نے انکشاف کیا کہ جانسن لبنان میں حزب اللہ کے بعد کے مرحلے کے لیے معاشرتی تیاریوں کی ذمہ داری لے رہی ہیں اور وہ مختلف سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہی ہیں تاکہ اس مرحلے کی تیاری کی جا سکے۔

اسرائیل اکیلا کچھ نہیں کر سکتا
لبنانی ذرائع کے مطابق، لیزا جانسن نے حزب اللہ کے مخالف سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کے ساتھ ملاقات میں کہا کہ اسرائیل اکیلا حزب اللہ کو شکست نہیں دے سکتا۔ جانسن نے یہ بھی کہا، “وقت آ چکا ہے کہ آپ بھی اپنی طرف سے اقدام کریں اور حزب اللہ کے خاتمے کے لیے جدوجہد شروع کریں۔ اس وقت علاقائی، عالمی اور میدان میں حالات آپ کے حق میں ہیں۔” جانسن کے یہ بیانات امریکی سفارت خانہ کی اسرائیل کی حمایت اور اس کے فائدے کے لیے اس کی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی کوششوں کو ظاہر کرتے ہیں، مگر یہ دراصل اسرائیل کی حزب اللہ کے خلاف فوجی طاقت کے ذریعے کامیابی حاصل کرنے میں ناکامی کا اعتراف بھی ہے۔
امریکہ کے سابق سفیر جفری فیلٹمن، جو 2004 سے 2008 تک بیروت میں امریکہ کے سفیر رہے، نے 2019 میں کانگریس میں ایک تقریر کے دوران کہا: “لبنان کی جغرافیائی پوزیشن کے پیش نظر، اس ملک کو روس، چین، ایران اور شام کے ساتھ اپنے تعلقات کو محدود کرنا چاہیے۔” جو شخص 4 سال تک لبنان میں امریکہ کا اہم سفارتکار رہا، اس نے اپنے ملک کے موقف کو واضح کیا: “لبنان کو حزب اللہ کے اسلحہ سے نجات حاصل کرنی چاہیے، حزب اللہ کا اسلحہ لبنان کی حفاظت نہیں کرتا۔” اس بیان پر روزنامہ “رائے الیوم” نے کہا: “شاید سفیر یہ بھول گئے یا خود کو بھلا دیا کہ جنوبی لبنان کی آزادی مزاحمت اور حزب اللہ نے حاصل کی۔ ایسا لگتا ہے کہ جناب سفیر اس طاقت کے توازن سے خوش نہیں ہیں جو حزب اللہ نے اسرائیل پر مسلط ہو کر حاصل کی ہے۔ ان کے الفاظ امریکہ کے لبنان کے معاملات میں مداخلت سے آگے بڑھ گئے ہیں۔”

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل کا امریکہ کے سفارت خانے کے بارے میں موقف
حزب اللہ کے موجودہ سیکرٹری جنرل شیخ نعیم قاسم کی موقف سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ بیروت میں امریکی سفارت خانے کو مثبت نظر سے نہیں دیکھتا، اور یہ نظر یہ اس کردار کی بنیاد پرہے جو امریکہ کا سفارت خانہ لبنان میں ادا کرتا ہے۔ اس حوالے سے، شیخ نعیم قاسم نے 2022 میں کہا کہ “امریکہ کی کوشش ہے کہ لبنان میں اقتصادی دباؤ ڈال کر عوام میں بدامنی پیدا کرے” اور اس کا موقف یہی ہے کہ امریکہ کا سفارت خانہ ایک “مخرب، نوآبادیاتی اور اسرائیلی” کردار ادا کرتا ہے۔ یہ موقف پہلے بھی سید مقاومت، شہید حسن نصراللہ نے 2013 میں اختیار کیا تھا، جب انہوں نے کہا تھا: “عوکر میں امریکی سفارت خانہ ایک جاسوسی کا اڈہ ہے، لیکن کچھ لوگ اسے نظر انداز کرتے ہیں۔”