ترکی کی شام میں نیم سلطنتی قلمرو کے دوبارہ قیام کی کوشش

شام میں بحران کے آغاز سے ہی، اردگان کے اس دعوے کے برعکس کہ ترکی کو شام کے قومی جغرافیہ یا زمینی حدود پر کوئی لالچ نہیں، شمالی شام کے علاقوں، خاص طور پر حلب اور ادلب کے صوبوں، کو تقسیم کرنے اور ترکی کے ساتھ شامل کرنے کا خیال ہمیشہ ترکی حکومت کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: شام میں بحران کے آغاز سے ہی، اردگان کے اس دعوے کے برعکس کہ ترکی کو شام کے قومی جغرافیہ یا زمینی حدود پر کوئی لالچ نہیں، شمالی شام کے علاقوں، خاص طور پر حلب اور ادلب کے صوبوں، کو تقسیم کرنے اور ترکی کے ساتھ شامل کرنے کا خیال ہمیشہ ترکی حکومت کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔

تسنیم نیوز ایجنسی کی بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق، بشار الاسد کی حکومت کو اپوزیشن کے مسلح گروہوں اور شامی مخالفین کے ہاتھوں گرائے جانے کے بعد، ان حکومتوں کی سیاست جو اسد حکومت کے زوال سے فائدہ اٹھاتی ہیں، ایک نئے سیاسی نظام کے قیام اور اپنی پالیسیوں کے نفاذ کی طرف بڑھ گئی ہیں۔

یہ بات واضح ہے کہ مشرق وسطیٰ کے سخت گیر اور عسکری ڈھانچے اندرونی طور پر خود سے تباہ نہیں ہوتے۔ ان ڈھانچوں کو مکمل طور پر ختم کرنے کے لیے نہ صرف عوام اور حکومت کے درمیان گہری خلیج کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ بیرونی قوتوں کی کئی جہتی حمایت بھی ناگزیر ہے۔ اس تناظر میں، شام میں ڈھانچے کی تباہی میں ترکی-اسرائیل محور کا کردار نمایاں ہے۔
ترکی نے اپنی تشکیل کے وقت سے اور اسکندرون صوبے پر قبضے کے بعد، جو فرانس نے اسے دیا تھا، مسلسل شمالی شام کے علاقوں، خاص طور پر ادلب اور حلب پر نظر رکھی ہے۔ یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ قوم پرستی، چاہے وہ شناختی پہلو سے آزاد ہو، بنیادی طور پر ایک علاقائی اور قلمرو حاصل کرنے کی نظریہ ہے، اور نئی عثمانی قوم پرستی بھی ایک قلمرو خواہانہ قوم پرستی ہے۔
لہذا، اب سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ شمالی شام میں ترکی کے زیر قبضہ علاقے اور اس کے نمائندے، چاہے غیر رسمی طور پر ہی کیوں نہ ہوں، ترکی کی سرحدی حدود میں آ جائیں گے۔

راقم السطور نے شام کے بحران کے آغاز میں “ترکی کی زمینی قلمرو خواہش اور سلفی جغرافیائی سیاست” کے عنوان سے ایک مضمون لکھا تھا، جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ تکفیری عناصر شام اور عراق میں جغرافیائی تقسیم شدہ علاقے تخلیق کرکے ان علاقوں کو ترکی کے ساتھ ملانے کی کوشش کر رہے ہیں، کیونکہ تکفیری گروہوں کے لیے سب سے بڑی پناہ گاہ اور بڑی حمایت فراہم کرنے والا ملک ترکی ہے۔

اس تناظر میں، سلفی گروہوں کی نظریاتی جھکاؤ کو ترکی کی فکری سمت کے ساتھ ہم آہنگ کہا جا سکتا ہے، جو عراق اور شام کے سرحدی علاقوں میں سائکس-پیکو کی کلاسیکی سرحدوں کے خاتمے کی علامت ہے۔ ترکی ہمیشہ ان سرحدوں میں تبدیلی کی کوششوں میں دلچسپی رکھتا رہا ہے۔
ان عوامل کی روشنی میں اور جغرافیائی سیاسی فریم ورک کے تحت، ترکی کی قومی سلامتی کو اردگان کے نقطہ نظر سے چند بنیادی عوامل کی بنیاد پر پرکھا جا سکتا ہے: اور وہ ہیں تاریخی قلمرو، قوم پرستی، اور ریاستی ڈھانچے۔

لہٰذا، شام کے بحران کے آغاز سے ہی، اردگان کے اس دعوے کے برعکس کہ شام کے قومی جغرافیہ اور زمینی حدود پر کوئی لالچ نہیں، شام کو تقسیم کرنے اور شمالی شام کے علاقوں، خاص طور پر حلب اور ادلب کے صوبوں کو ترکی میں شامل کرنے کا منصوبہ اردگان کی حکومت کے ایجنڈے میں شامل رہا ہے۔
شام کے بحران کے آغاز سے ہی، ترکی نے ایک متضاد کردار ادا کیا ہے اور تکفیری تحریکوں، خاص طور پر جبہۃ النصرہ اور بعد میں تحریر الشام، کے لیے انسانی وسائل، معلومات، عسکری امداد، اور لاجسٹک سپورٹ فراہم کی ہے۔ ترکی بخوبی جانتا تھا کہ اسد حکومت کے خاتمے کے نتیجے میں تقسیم شدہ علاقے پیدا ہوں گے، جنہیں وہ کمزور علاقوں کی حیثیت سے اپنے ساتھ الحاق کر سکتا ہے۔ یہ وہی حکمت عملی ہے جو عراق میں موصل کے شہر کے حوالے سے بھی قابل پیش گوئی ہے۔
یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ حلب پر تحریر الشام کے قبضے کے بعد، اردگان نے اپنی حقیقی خواہشات کا اعلان کر دیا، اور یہ کہ ادلب، حماہ، اور حمص پر قبضے کے بعد، اگلا حتمی ہدف دمشق پر قبضہ ہے۔ اس کے بعد وہ شام کے دیگر صوبوں پر تاریخی عثمانی صوبوں کے طور پر دعویٰ کرنے ٹھونک سکتے ہیں۔ یہ بھی یاد رہے کہ اردگان کی جغرافیائی قلمرو کی خواہش اقتصادی محرکات کے زیر اثر ہے، جو جغرافیائی سرحدوں کی توسیع کا تقاضا کرتی ہے۔
ترکی کی حکومت کے اسد کے سقوط سے متعلق عزائم کو درج ذیل عناصر کے تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے:

1. حلب اور ادلب کے صوبوں کو مستقل طور پر ترکی میں شامل کرنا۔

2. شمالی شام سے کرد ملیشیا کو صاف کرنا، کیونکہ ترکی تاریخی طور پر کرد فوبیا کا شکار ہے۔

3. ایک ہم خیال اور کٹھ پتلی حکومت کا قیام، تاکہ اسکندرون کے صوبے کو شام سے جوڑنے کی تاریخی یادداشت کو فراموش کرایا جا سکے۔
4. شام میں ترکی کے اقتصادی مفادات اور بیروت، عمان، اور تل ابیب تک آسان رسائی۔

5. بصرہ-بغداد-حلب-غازی انتیپ اقتصادی راہداری کی تشکیل۔

6. شام میں ایران کی مستقل سرگرمیوں کا خاتمہ۔

دوسری جانب، شامی مخالفین، خاص طور پر تحریر الشام، علاقائی اور عالمی طاقتوں کی طرف سے دی گئی حکمت عملیوں سے متاثر ہو کر خود کو ایک مہذب اپوزیشن گروپ کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کریں گے، جو آزادی کے حق میں اور آمریت کے خلاف ہے، اور مذاہب اور قومیتوں کے لیے ایک جامع نقطہ نظر رکھتا ہے۔ (پرچم میں دو ستاروں سے تین ستاروں کی تبدیلی اسی کا ثبوت ہے۔) تاہم، یہ بھی واضح ہے کہ تحریر الشام کو اسرائیل، ترکی، اور امریکہ کی سیاسی، عسکری، اور معلوماتی حمایت حاصل ہے، جو موساد، ایم آئی ٹی، اور سی آئی اے جیسے اداروں کے ذریعے فراہم کی جاتی ہے
اور اس کے اپنے اثرات مرتب ہونگے۔