تل ابیب کی سڑکوں کو خالی کراتا ہے اور نماز فجر یافا میں ادا کرتا ہے
فاران تجزیاتی ویب سائٹ: غاصب اسرائیلی طویل عرصے تک شہر جنین کے رہائشی فلسطینی مجاہد رعد فتحی حازم کی خصوصی “انفرادی” کاروائی پر غور کریں گے اور اس کاروائی کی تفصیلات کے سلسلے میں مطالعہ کریں گے اور ان کی روش اور ان کے زیر استعمال وسائل اور اربوں ڈالر کی لاگت سے بننے والی کنکریٹ کی اونچی دیواروں سے گذر کر، اور صہیونیوں کی تہہ در تہہ حفاظتی تدابیر کو ناکام بنا کر تل ابیب کے قلب تک پہنچ کر اس مقبوضہ شہر کی سب سے زیاد مشہور اور پر ہجوم سڑک پر روحانی اطمینان، خود اعتمادی اور قلبی سکون کے ساتھ کاروائی کرکے، وہاں سے چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک مسجد میں نماز فجر پڑھنے کے واقعے پر تحقیق کریں گے اور حیرت و تعجب سے ان کے بال سفید ہو جائیں گے۔
تل ابیب میں شہید رعد فتحی حازم کی کاروائی نے غاصب صہیونی دشمن کو، پہلے ہونے والی کاروائیوں سے کہیں زیادہ، نقصان پہنچایا، ان کی تذلیل کی، ان کی سیکورٹی کی کمزوری کو عیاں کیا اور ان کے حفاظتی اقدامات کی زد پذیری کو آشکار کیا اور نوآبادیوں میں رہنے والے یہودی غاصبوں کو پہلے سے زیادہ خوفزدہ کیا، غاصب ریاست کو شرمندہ کیا، یورپ اور امریکہ میں پناہ لینے کے شوقین یہودیوں کی تعداد میں اضافہ کیا کیونکہ وہ جان گئے ہیں کہ ہنگامی حالات میں ان کی حفاظت مزید ممکن نہیں ہے۔
دنیا بھر سے “گل و بلبل” کے جھانسے میں آ کر مقبوضہ فلسطین میں آ بسنے والے یہودی اس قسم کی مسلسل کاروائیوں کو دیکھ کر جان گئے ہیں کہ ان کا امن و سکون غارت ہو رہا ہے اور یہودیوں کی باہمی جنگی کو بھی نظر سے دور نہیں رکھا جاسکتا کیونکہ یہودیوں کی اکثریت یہاں موت کے لئے نہیں بلکہ زندگی کے لئے آئی تھی!
انہیں معلوم ہو چکا ہے کہ اگر دیوار کے اس پار سے کچھ لوگ یہودی نوآبادیوں میں داخل ہوکر کچھ لوگوں کو یرغمال بنائیں تو غاصب فوج مفلوج ہو کر رہ جائے گی اور یہودیوں کی قوت محدود ہوجائے گی نتیجہ یہ ہوگا کہ یا تو متعدد غاصب یہودی مارے جائیں گے یا پھر انہیں فلسطینیوں کے تکلیف دہ رعایتیں دینا پڑیں گی۔
شہید رعد فتحی حازم کی کاروائی متعدد نکات و خصوصیات کی حامل تھی کیونکہ وہ جنین کے فلسطینی کیمپ کے رہائشی تھے جس کو ہر روز اسرائیلی حملوں کا نشانہ بننا پڑتا ہے اور اس کی کڑی نگرانی ہوتی ہے۔ اس کاروائی سے چند ہی دن پہلے صہیونیوں نے ایک دہشت گردانہ کاروائی کرکے جنین کیمپ کے تین افراد کو شہید کیا تھا اور شہید رعد یہ جانتے ہوئے بھی کہ، اس کاروائی کے دوران مارے بھی جا سکتے ہیں، لیکن بالکل پر سکون تھے اور پورے اطمینان کے ساتھ اس کاروائی کے لئے گھر سے نکلے تھے اور نہایت شجاعت اور جرات سے کاروائی کی اور اپنے چھوٹے سے پستول کو اچھی طرح سے استعمال کی۔ انھوں نے 12 گولیاں چلائیں جن میں سے نو گولیاں نشانیوں پر لگیں، انھوں نے اپنی اس کاروائی کے ذریعے غاصبوں کی ہلاکت سے کہیں زیادہ، غاصبوں کے درمیان خوف و ہراس پھیلایا جو طویل عرصے تک جاری رہے گا اور سازباز کرنے والے عرب حکمرانوں کو یاددہانی کرائی کہ ان کے لکھے ہوئے غدارانہ الفاظ، غاصب ریاست کو فلسطین کے بیٹوں کے غیظ و غضب سے بچا نہیں سکیں گے۔
وہ تحریک “الفتح” کی عسکری شاخ “شہدائے الاقصی یونٹس” کے رکن تھے جو اگر عمومی طور پر جہاد کے میدان میں اترے تو قواعد مکمل طور پر بدلیں گے، جہاد اسلامی اور حماس کے ساتھ ایک بڑی تیسری قوت بھی میدان میں ہوگی۔ یہ امن طلب یونٹیں ہیں جنہوں نے اوسلو، میڈرڈ، کیمپ ڈیوڈ وغیرہ کے ناکام مذاکرات کے نتیجے میں اپنے ہتھیار زمین پر رکھ دیئے ہیں، وہ نہیں لڑ رہی ہیں اور بظاہر مقاومت کی صفوں میں پلٹنے کا ارادہ نہیں رکھتیں اور صہیونی ریاست بھی یہی سمجھ رہی ہے کہ وہ لڑنے بھڑنے پر نہیں اتریں گی لیکن آج انھوں نے سب کو بتا دیا ہے کہ ان یونٹوں کے ارکان بھی اپنے عوام کی حمایت کے لئے غضبناک ہوسکتے ہیں، اپنے دشمن سے انتقام لینے کے لئے اٹھ سکتے ہیں، پوری قوت سے قیام کرسکتے ہیں اور فیصلہ کن انداز سے مقاومت کا حصہ بن سکتے ہیں۔ جبکہ ان یونٹوں کے بےشمار افراد صہیونی عقوبت خانوں میں طویل قید یا حتی عمر قید کا انتظار کر رہے ہیں۔
شہید رعد فتحی حازم کے والد فلسطینی سیکورٹی ادارے کے رکن تھے جنہوں نے کسی لکنت اور ہجکچاہٹ اور قلبی لرزش کے بغیر مضبوطی اور ہمت و جرات کے ساتھ اپنے بیٹے کی شہادت کا اعلان کیا اور کوئی بھی سازش، فلسطین پر عرب حکمرانوں اور غاصب ریاست کے درمیان ہونے والی کسی بھی سازباز سے متاثر ہوئے بغیر فلسطین کی حقیقت کے بارے میں اظہار خیال کیا، فلسطینی کاز کی بات کی اور اعلان کیا کہ فلسطین باہر سے آنے والے غاصب یہودیوں کا گھر نہیں ہے بلکہ اس کے مالک فلسطینی ہیں اور بس!
شہید رعد نے واضح کیا کہ آتشین اسلحہ ان کے ہاتھ کا کھلونا ہے، وہ نشانہ بازی کے ماہر ہیں، اگر مشکل میں پھنسیں تو پریشان نہیں ہوتے، دشمن کا سامنا کرتے ہوئے پریشان نہیں ہوتے، اور ان کے گولیاں ٹھیک نشانے پر لگتی ہیں۔ وہ معینہ نقطے تک پہنچا، اور زیرکی کے ساتھ حفاظتی دیواریں پھلانگنا جانتے تھے۔ لگتا ہے کہ وہ اس علاقے سے بھی اچھی طرح واقف ہیں، اس کے راستوں کو جانتے ہیں، گویا کہ جنین مہاجر کیمپ کے رہائشی نہیں بلکہ غاصب دشمن کے دارالحکومت تل ابیب کے باسی ہیں۔ شہید رعد ظاہری طور پر عرب اور فلسطینی تھے اور ان کی زبان بھی عربی تھی لیکن مطمئن تھے، پر سکون اور قویّ، آنکھ ان کی شہادت پر لگی ہوئی تھی اور موت اور دشمن سے ہرگز خائف نہیں تھے، وہ جانتے تھے کہ شہادت ان کے لئے ابدی حیات اور فلسطینی قوم اور مسلمانوں کی دائمی حیات کی ضامن۔
شہید رعد فتحی حازم بالکل تنہا تھے، کوئی ان کے ساتھ نہ تھا اور کوئی بھی نہ تھا کہ انہیں راہ دکھائے، چنانچہ وہ اپنے سامنے کسی رکاوٹ کو بھی رکاوٹ نہیں سمجھتے تھے، انھوں نے اپنا راستہ چستی اور ہلکے قدموں کے ساتھ طے کیا، شہادت کا سفر چین و سکون کے ساتھ طے کیا۔ وہ غیر مسلح تھے جنین سے نکلتے ہوئے اور انہیں امید تھی کہ دشمن سے غنیمت کے طور اسلحہ چھین لیں گے، کسی نوآبادی نشین سے بندوق لے لیں گے اور یوں اپنی کاروائی کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے، اور زیادہ سے زیادہ غاصبوں کو موت کی گھاٹ اتاریں گے، اگرچہ ان کی گولیوں نے دو غاصبوں کو ہلاک اور کچھ افراد کو زخمی کیا، لیکن جھڑپوں کے مقام سے نکلنے میں کامیاب ہوکر کئی گھنٹوں تک شکست خوردہ صہیونی فوج سے بچ نکلے اور چھ کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کیا اور یافا شہر کے مرکز تک پہنچے اور وہاں کی مسجد میں نماز فجر ادا کی؛ گویا وہ نماز کے بعد اپنا جہاد جاری رکھنے کا ارادہ رکھتے تھے، گویا محسوس کررہے تھے کہ شہادت سے دور ہو چکے ہیں، چنانچہ وہ شہادت کی طرف لپکے اور شہادت سے محرومی کے تصور کر مات کر دیا؛ چنانچہ دشمن نے دیکھ لیا کہ شہید رعد فتحی حازم نے نماز کے بعد پھر بھی ان پر گولی چلائی، اور شہادت سے پہلے ان پر حملہ آور ہوئے، اور ثابت قدم رہے اور ان سے بھاگنے کی کوشش نہ کی۔ وہ شہید ہوئے اپنی مقدس خاک کے اوپر کھڑے ہوکر اور اپنے خون سے لکھ دیا: اے مسلمانو، اے عربو! فلسطین بکاؤ مال نہیں ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: ڈاکٹر: مصطفی یوسف اللداوی
ڈاکٹر مصطفی یوسف اللداوی، غزہ پٹی کے جبالیا کیمپ کے پیدائشی (سنہ 1965ع)، پی ایچ ڈی سیاسیات، 9 مرتبہ صہیونیوں کے عقوبت خانوں میں پابند سلاسل رہے ہیں؛ 1991ع میں صہیونیوں نے انہيں غزہ کی مرکزی جیل سے لبنان جلاوطن کیا۔ شام اور پھر لبنان – نیز حماس کے عربی تعلقات کے شعبے – میں حماس کے مندوب اور اور پھر اس شعبے کے سربراہ رہے۔ لبنان میں بین الاقوامی مؤسسۃ القدس کے بانی اراکین میں سے ایک ہیں۔ وہ بہت سی قومی اور اسلامی کانفرنسوں میں شرکت کرتے رہے ہیں اور اسرائیلی امور، نیز عربی اور فلسطینی امور کے محقق اور قلم کار، نو کتابوں اور سینکڑوں مضامین اور تحقیقی مقالات کے مصنف ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں