تہذیبوں کا ٹکراو اور اسلام کی نرم طاقت

یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کے مقابلے میں مغربی طاقتیں پوری طرح شکست کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ وہ اپنی شکست قبول کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں جس کے نتیجے میں گھٹیا اور پست حرکتوں پر اتر آئی ہیں اور اپنے ہرکاروں کو اسلام اور اسلامی شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی کا مشن سونپ چکی ہیں۔ اس کا واحد راہ حل اور دشمن کو دشمنی جاری رکھنے سے باز رکھنے اور مکمل طور پر مایوس کرنے کا واحد راستہ اسلامی دنیا کا مزید طاقتور ہونا ہے۔

فاران تجزیاتی ویب سائٹ: تہذیبوں میں ٹکراو کے نظریے کو قبول یا مسترد کرنے کا ارادہ نہیں ہے لیکن سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد عالمی حالات میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ فرانسس فوکویاما کے خوش خیالی پر مبنی “اختتام تاریخ” نامی نظریے کے مقابلے میں سیموئل ہنٹنگٹن کا خبردار کرنے والا “تہذیبوں پر ٹکراو” نامی نظریہ ایک پہلو سے، جسے ہم بیان کریں گے، حقیقت پسندی سے زیادہ قریب دکھائی دیتا ہے، اگرچہ اس نظریے پر بھی اعتراضات پائے جاتے ہیں۔ سیموئل ہنٹنگٹن دنیا کو مختلف تہذیبی خطوں میں تقسیم کرنے کے بعد عالم اسلام کو مغربی تہذیب کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے اور اس کے بعد ایک اور سوال کے جواب میں اسلامی جمہوریہ ایران کو ایسے ممالک میں سرفہرست قرار دیتا ہے جو امریکہ کیلئے خطرہ سمجھے جاتے ہیں۔

اس بات سے چشم پوشی کرتے ہوئے کہ مغربی مفکرین، اسلام کے مقابلے میں ایسے غلط، تحریف پر مبنی اور تعصب آمیز تصورات پیش کرتے ہیں جو اسلاموفوبیا، شیعہ فوبیا اور ایران فوبیا کے زمرے میں آتے ہیں، ہنٹنگٹن اور اس کے حامی مفکرین جیسے برجنسکی اور کیسنجر کو لاحق تشویش کو بجا سمجھنا چاہئے۔ یہ تصدیق ان کے مدنظر شدت پسندی کے تناظر میں نہیں بلکہ اس حقیقت کے پیش نظر ہے کہ آج مغربی تہذیبی نظریات و افکار کو چیلنج کرنے والا نہ صرف اہم ترین بلکہ واحد مکتب فکر وہ انقلابی اسلامی مکتب فکر ہے جس کا مرکز اسلامی جمہوریہ ایران ہے۔ مزید برآں، اس مکتب فکر میں مغربی تہذیب سے مقابلہ کرنے کی بھرپور توانائی اور صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔

مغربی طاقتوں نے اپنے ساتھ مسلمانوں کی دشمنی ثابت کرنے اور عالمی، خاص طور پر مغربی رائے عامہ کو اسلام کے خلاف ہوا دینے کیلئے داعش جیسا وحشی تکفیری گروہ تشکیل دیا۔ انہوں نے داعش کی بھرپور حمایت بھی کی جس کا مقصد اسلاموفوبیا منصوبے کو نتیجہ خیز ثابت کرنا تھا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ ایران نے انتہائی ذہانت سے میدان میں قدم رکھا اور شہید قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کے ذریعے داعش کے خلاف جنگ کر کے اس کا خاتمہ کر دیا۔ یوں امریکہ کی سربراہی میں مغرب کی یہ بڑی سازش ناکام ہو گئی۔ تہذیب و تمدن کے میدان میں اسلام کی طاقت کا ایک نمونہ حال ہی میں خواتین سے رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ سید علی خامنہ ای کے خطاب میں ملتا ہے۔ شاید اسی قسم کے نمونے مغربی تہذیب کے مقابلے میں خطرے کے طور پر اسلام سے ہنٹنگٹن کے خوف و ہراس کا باعث بنے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں خواتین کے مسئلے کو اہم ترین عالمی ثقافتی ایشوز میں سے ایک قرار دیا۔ آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے کہا: “میں یہاں موجود آپ دانشور بیٹیوں اور ان تمام افراد سے جو میری تقریر سن رہے ہیں یہ کہنا چاہوں گا کہ خواتین کے مسئلے میں مغربی ریاکار دعویداروں کے مقابلے میں ہمارا موقف دفاعی نہیں بلکہ جارحانہ ہے۔” رہبر معظم انقلاب اسلامی نے خواتین کے بارے میں اسلام اور مغرب کے نقطہ ہائے نظر کا موازنہ کرتے ہوئے خواتین سے متعلق سرمایہ دارانہ نظام کے رویے کو مردوں کی فوقیت پر مبنی قرار دیا اور کہا کہ مغربی دنیا خواتین کے حقیقی حقوق کے تناظر میں گنہگار، قصور وار اور مجرم ہے۔ مغرب کے مقابلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی نظریاتی طاقت اور نئے نظریات اس کی نرم طاقت سمجھے جاتے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ایران کی فوجی طاقت، اقتصادی اور علمی ترقی اور خطے میں اثرورسوخ ایسے اسباب ہیں جنہوں نے استکباری نظام کے کرتا دھرتا شخصیات کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ البتہ نظریات کی دنیا میں اس نرم طاقت کو فن و ہنر سے ملانے کی ضرورت ہے تاکہ ملک کے اندر اور باہر زیادہ موثر واقع ہو اور اس میں مزید وسعت پیدا ہو جائے۔ گذشتہ چند ماہ کے دوران سامنے آنے والے ہنگاموں جیسی فتنہ انگیزیاں، جو دشمن کی بھرپور کوشش کے باوجود زمینی حقائق کو غلط سمجھنے کے باعث شکست اور ناکامی کا شکار ہو چکی ہیں، اسلامی انقلاب کی تیز رفتار سے جاری پیشقدمی کو روکنے کی طاقت نہیں رکھتیں اور ان کا مقصد اس تیزرفتاری میں کمی لانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔

دوسری طرف چارلی ہیبڈو جیسے نچلی سطح کے زرد صحافت میں مشغول مجلات جو ہرزہ سرائی کر رہے ہیں وہ ایک طرف تو مغربی تہذیب کی بے حیائی اور بیہودگی عیاں کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف اعلی اخلاقی اقدار پر مبنی اسلامی ترقی کے مقابلے میں ان کی بیچارگی اور بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ایران میں رونما ہونے والے اسلامی انقلاب کے مقابلے میں مغربی طاقتیں پوری طرح شکست کا شکار ہو چکی ہیں جبکہ وہ اپنی شکست قبول کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں جس کے نتیجے میں گھٹیا اور پست حرکتوں پر اتر آئی ہیں اور اپنے ہرکاروں کو اسلام اور اسلامی شخصیات کے خلاف ہرزہ سرائی کا مشن سونپ چکی ہیں۔ اس کا واحد راہ حل اور دشمن کو دشمنی جاری رکھنے سے باز رکھنے اور مکمل طور پر مایوس کرنے کا واحد راستہ اسلامی دنیا کا مزید طاقتور ہونا ہے۔