خطبہ نماز جمعہ 06 دسمبر 2024

جناب فاطمہ زہرا (س) کی باکمال اور سادہ زندگی ہمارے لیے رول ماڈل

خطبہ 1: جناب فاطمہ زہرا (س) کی باکمال اور سادہ زندگی ہمارے لیے رول ماڈل خطبہ 2: جناب زہرا (س) پر گرائے جانے والے مصائب نے رسول خدا(ص) کو بھی غمگین کیا تقویٰ کے ذریعے ہی انسان کی مادی اور معنوی زندگی محفوظ رہ سکتی ہے تقویٰ کے بغیر انسانی زندگی کا کوئی پہلو بھی […]

خطبہ 1: جناب فاطمہ زہرا (س) کی باکمال اور سادہ زندگی ہمارے لیے رول ماڈل
خطبہ 2: جناب زہرا (س) پر گرائے جانے والے مصائب نے رسول خدا(ص) کو بھی غمگین کیا
تقویٰ کے ذریعے ہی انسان کی مادی اور معنوی زندگی محفوظ رہ سکتی ہے تقویٰ کے بغیر انسانی زندگی کا کوئی پہلو بھی محفوظ نہیں ہے۔ غیر محفوظ زندگی انسان کے اپنے ہاتھوں ہی تباہ ہوتی ہے۔
انسانی زندگی کو تباہی سے بچانے کا ذریعہ
انسانوں نے اپنی زندگیوں کو خود تباہ کیا ہے ہرچند کہ وہ اس تباہی کا اعتراف نہیں کرتے۔ وہ زندگی جو حقیقی معنوں میں تباہ ہو جاتی ہے وہ زندگی ہے جس میں انسان اپنے مقصد سے بھٹک جاتا ہے، خواہ وہ مالی یا صحت و سلامتی کے اعتبار سے بالکل ٹھیک ٹھاک ہو۔ یہ تباہی چاہے وہ سماجی تباہی ہو یا انفرادی تباہی ہو اس میں 90 فیصد انسان کا اپنا ہاتھ ہوتا ہے۔ پاکستان میں، سماجی زندگی ہر لحاظ سے تباہ اور عدم تحفظ کا شکار ہے، معیشت، سیاست، دین سب کچھ تباہ ہے۔ اس تباہی کا 90 فیصد حصہ اس کے اپنے شہریوں کے اقدامات سے ہوا ہے۔ باہر والوں نے دس فیصد حصہ ڈال کر ان کے اپنے کارناموں کو مکمل کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے انسانی زندگی کے تحفظ کے لیے اعلیٰ اور حسین انتظام کیا ہے، جسے تقویٰ کہا جاتا ہے، اور انسانی زندگی میں نظام تقویٰ کو نافذ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آسمانی کتابیں، قوانین اور انبیاء بھیجے ہیں۔
نظام ہدایت مثالی کردار کے بغیر نامکمل
اسی طرح پروردگار عالم کا ایک خوبصورت کام یہ ہے کہ انسانی زندگی میں نظام تقویٰ کا عملی نمونہ بھی پیش کیا ہے اس لیے کہ ایک رول ماڈل اور نمونہ عمل کے بغیر، ہدایت کا نظام نامکمل رہ جاتا ہے، کیونکہ اکثر لوگ سیمپل اور ماڈل کی تقلید کرتے ہیں بہت کم افراد میں آزادانہ طور پر تخلیق اور اختراع کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے، اس تصور کو عربی میں “ابداع” کہا جاتا ہے، دینی اصلاح میں بدعت اسی کلمہ سے ہے۔ لیکن “بدعت” کے لغوی معنی ماڈل کے بغیر کوئی چیز بنانا ہے۔ جب کوئی ماڈل کی بنیاد پر کچھ بناتا ہے، تو اسے “تقلید” کہا جاتا ہے، جو عام ہے اور اس کے لیے غیر معمولی مہارتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن دوسری طرف ابداع کے لیے منفرد صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اللہ کے ناموں میں سے ایک، “بدیع السموات و الارض”، ہے یعنی بغیر کسی نمونہ اور ماڈل کے کائنات کی تخلیق کی صلاحیت کو ظاہر کرتا ہے۔
چونکہ عام لوگ “ابداع” نہیں کر سکتے اور صرف چند ایک ہی اس صلاحیت کے مالک ہوتے ہیں، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ہدایت اور تقویٰ کے لیے انسانی شکل میں نمونے فراہم کیے ہیں، جنہیں ’اسوہ‘ کہا ہے۔ خاص طور پر قرآن میں جناب ابراہیم (ع) کو انبیاء اور عام انسانوں کے لیے اسوہ قرار دیا ہے۔ اور رسول اللہ (ص) کو اسوہ حسنہ کے طور پر پیش کیا ہے، جن کی ہمیں تاسی اور پیروی کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ یہ محض تقلید نہیں ہے، کیونکہ تقلید میں انسان بنا سوچے سمجھے کسی کو دیکھ کر اسی کی طرح کا عمل کرتا ہے۔
جناب زہرا(س) انسانیت کے لیے مثالی کردار
ان رول ماڈلز میں سے ایک جامع اور نمایاں رول ماڈل اور اسوہ حضرت فاطمہ زہرا (س) ہیں، جو اللہ کی طرف سے نہایت اہتمام کے ساتھ آراستہ و پیراستہ کی گئی ہیں۔ انہیں انسانیت کے لیے رول ماڈل بنایا ہے انسانی زندگی کے تمام پہلو ان کی شخصیت کے اندر سمائے ہوئے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ نے اپنی شخصیت بنانے میں کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ اللہ تعالیٰ نے رہنمائی فراہم کی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک الہی منصوبے کے مطابق ان کی پرورش کی۔ پیغمبر نے حضرت فاطمہ (س) کی پرورش میں ان تمام الہی اصولوں کو لاگو کیا جو خصوصی طور پر انہیں بتائے گئے تھے۔ یہ خصوصی رہنمائی ان کی پیدائش سے پہلے ہی شروع ہوئی تھی، جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جناب سیدہ کی پیدائش کے پیش نظر مخصوص طرز عمل اختیار کرنے کی ہدایت کی گئی تھی۔
اللہ نے رسول اللہ (ص) اور جناب خدیجہ (س) دونوں کو پہلے سے ہی اپنی پاکیزہ زندگی میں خاص تبدیلیاں لانے کا حکم دیا۔ بعض حوالوں میں انہیں چالیس دن تک اپنی روز مرہ زندگی میں کچھ خاص طریقہ کار اپنانے کی رہنمائی کی جس کے بعد انہیں یہ خوش خبری ملی کہ اللہ تعالیٰ انہیں کوثر عطا فرمائے گا۔ چونکہ وارث نہ ہونے کی وجہ سے کفار پیغمبر اکرم (ص) کا مذاق اڑاتے تھے۔ لہذا جناب سیدہ کو اللہ نے کوثر بنایا اور یہ قبل از پیدائش کا انتظام تھا، کیونکہ حضرت فاطمہ (س) کو انسانیت کے لیے ایک نمونہ بنانا مقصود تھا۔
جناب زہرا کی تربیت میں اللہ کا خاص اہتمام
جب جناب فاطمہ زہرا (س) جناب خدیجہ کے شکم میں تھیں اس دوران بھی خصوصی رہنمائی فراہم کی گئی تھی، اس بات کا تعین کرتے ہوئے کہ ان کی پرورش کیسے ہوگی۔ جب کہ عربوں میں یہ رواج تھا کہ نوزائیدہ بچوں کو دیکھ بھال کے لیے بدو دائیوں (نوکرانیوں) کے سپرد کیا جاتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اس رسم پر عمل نہ کریں۔ اس دوران بھی اللہ نے رسول اکرم (ص) کی تربیت کے لیے خاص دستورات دئے۔
حضرت فاطمہ (س) صرف تین یا پانچ سال کی تھیں کہ ماں کا انتقال ہو گیا پھر پیغمبر اکرم نے خود ماں کا کردار بھی ادا کیا۔ سوائے طویل سفر کے، ہمیشہ بی بی زہرا (س) رسول خدا کے ہمراہ ہوتی تھیں۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا حکم یہ تھا کہ انہیں تمام انسانی قدریں، تمام انسانی فضائل اور اعلیٰ کمالات کا پیکر بلکہ انسانیت کا مکمل نمونہ بنا کر دنیا کے سامنے پیش کرنا ہے۔ نبی کریم کو اس کام میں کوئی دشواری نہیں ہوئی اس لیے کہ معلم خود رسول خدا ہیں اور شاگرد جناب زہرا جیسی ذات ہیں جن کے اندر غیرمعمولی صلاحتیں پائی جاتی ہیں۔ یہاں تک کہ رسول کی تربیت کا ایک حرف بھی ضائع نہیں ہو رہا ہے۔ یہ اس کے بالکل برعکس ہے کہ آج ہم اکثر اپنا قیمتی درس کس طرح ضائع کرتے ہیں۔ ہمارے طلباء کو اندازہ لگانا چاہیے کہ ہمیں کتنا پڑھایا اور بتایا گیا ہے اور ہم نے کتنا ضائع کیا. اس جمعہ کے خطبہ کو اگر درس کے طور پر لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ہمیں کتنا یاد ہے اور کتنا بھول گئے ہیں۔ چونکہ جمعہ کے خطبوں میں تقویٰ سکھایا جاتا ہے تو ہماری زندگیوں میں تقویٰ کتنا داخل ہو چکا ہے۔ ہمیں ضیاع اور نقصانات کو کم سے کم بلکہ صفر تک لانا چاہیے۔ علم و تربیت ہماری شخصیت کا حصہ بننا چاہیے۔ کچھ چیزیں جب ضائع ہو جاتی ہیں تو ہمیں سدھارنے کا وقت اور موقع نہیں ملتا۔ جو بھی اچھی چیز ہو اسے ہمیں اپنی انفرادی اور سماجی زندگی کا حصہ بنانا چاہیے۔
جناب زہرا تمام انسانی کمالات کا مجسمہ
حضرت فاطمہ زہرا (س) نے اپنی صلاحیت کو بروئے کار لاتے ہوئے جو کچھ اللہ و رسول نے انہیں تعلیم کیا اس کا ایک فیصد بلکہ آدھا فیصد بھی ضائع نہیں کیا اور اسے اپنی شخصیت کو نکھارنے میں استعمال کیا۔ اس وجہ سے یہ مثالی شخصیت بنی۔ جیسے عام لوگوں کی زندگیوں میں مختلف پہلو ہوتے ہیں ایسے ہی جناب سیدہ کی زندگی میں بھی مختلف پہلووں تھے، ایک پہلو جو شیعوں کے یہاں سب سے زیادہ نمایاں رہتا ہے اور آپ کی زندگی کے دیگر تمام پہلووں پر اثرانداز ہوتا ہے وہ آپ کے دکھ درد کا پہلو ہے۔ یعنی شیعوں کے نزدیک جناب سیدہ کی زندگی صرف دکھوں اور غموں کی زندگی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ ایسا ہی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے خود جناب سیدہ فرماتی ہیں کہ مجھ پر جو مصائب ٹوٹے اگر یہ روشن دنوں پر ٹوٹتے وہ سیاہ راتوں میں بدل جاتے۔ مصائب کا حجم، وزن، مقدار اور شدت بہت زیادہ تھی۔ یہ مسلم ہے لیکن اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ان کی زندگی میں صرف دکھ درد ہی تھے اور کچھ نہیں تھا۔ دکھ درد جس شخصیت پر آئے ہیں وہ پہلے سے تیار کی گئی ہے تمام انسانی فضائل و کمالات آپ کی ذات کے اندر مجسم تھے۔
ہم تقویٰ ہی کو لے لیں ہم گزشتہ کئی سالوں سے اس موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں، اور قرآن سے آیتیں پیش کر رہے ہیں، کہ تقویٰ زندگی کے ہر پہلو کے تحفظ کو یقینی بناتا ہے۔ لیکن ہم نے کتنا اسے اپنی زندگیوں میں بروئے کار لایا اس کا اندازہ ہم خود کر سکتے ہیں۔ قرآن مجید کی متعدد آیات میں بیان کردہ حفاظتی تدبیر حضرت فاطمہ (س) کے کردار میں واضح طور پر نمایاں ہے۔ نظری تقویٰ قرآن کریم کی آیات اور رسول اکرم کی احادیث کی صورت میں بیان ہوا ہے لیکن عملی تقویٰ قرآن و حدیث میں نہیں ملے گا، اللہ نے عملی تقویٰ کو انسانی شکل میں مجسم بھی کیا ہے اگر ہم تقویٰ کا متحرک اور جامع ماڈل دیکھنا چاہیں تو وہ جناب زہرا سلام اللہ علیہا کی ذات ہے۔ اتنے مصائب کو برداشت کرنے کے باوجود، انہوں نے تمام انسانی کمالات اور خوبیوں کو اپنی زندگی میں جگہ دی اور انسانی اقدار کی اعلیٰ ترین منزل پر فائذ ہوئیں۔ اور تقویٰ اپنے تمام پہلووں کے ساتھ آپ کی زندگی میں نمایاں نظر آتا ہے۔
آپ کی زندگی کی ایک شاندار مثال بیان کرتا ہوں۔ جب تک بی بی دوعالم پیغمبر اکرم (ص) کے ساتھ رہی پیغمبر اکرم نے آپ کے بہت ناز اٹھائے اور انتہائی محبت سے پالا، اور ہر طرح کی مشکل و پریشانی سے محفوظ رکھنے کی کوشش کی۔ جب آپ کی شادی کا وقت آیا تو آپ کے متعدد رشتے آئے تو آپ نے سختی کے ساتھ سب کا انکار کیا۔ تاہم، جب علی (ع) پیغمبر اکرم (ص) کے پاس رشتے کے لیے آئے اور پیغمبر اکرم نے بی بی سے رضایت طلب کی تو آپ لطیف مسکراہٹ کے ساتھ خاموش رہیں۔
کردار فاطمی کو اپنانے کی ضرورت
ہم مولا علی (ع) کی خوشی میں خوش اور بی بی کے غم میں غمگین تو ہوتے ہیں مگر ان کی سیرت پر عمل نہیں کرتے، آج بہت سے شیعہ خاندان اپنی بیٹیوں کی شادی امیر گھرانوں میں صرف جہیز کے لیے کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے بالکل برعکس، پیغمبر اکرم (ص) نے فاطمہ (س) کو کوئی جہیز نہیں دیا؛ اس کے بجائے، انہوں نے علی (ع) سے جہیز کے پیسے لیے۔ کیا آج کوئی بھی شیعہ والدین بغیر مالی وسائل کے اپنی بیٹی کسی کو دینے کے لیے تیار ہوں گے؟ عام طور پر مالی پریشانیوں کی وجہ سے بیٹیوں کی شادی دینی مدارس کے طلباء سے نہیں کی جاتی۔
رسول اللہ (ص) نے علی (ع) کے مال کے بارے میں دریافت کیا، جس کے جواب میں علی علیہ السلام نے کہا کہ ان کے پاس ایک اونٹ، ایک تلوار اور ایک زرہ ہے۔ اونٹ تو باغات کو پانی دینے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، جب کہ جنگ کے وقت تلوار کا استعمال ضروری تھا۔ لہذا صرف زرہ تھی جسے فروخت کیا جا سکتا تھا، زرہ چند درہموں میں فروخت ہوئی، جس میں سے آدھے پیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے جہیز کے لیے اٹھائے اور باقی آدھے سے علی علیہ السلام کو ولیمہ کرنے کے لیے کہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو جہیز کا اہتمام کیا تھا وہ چند بنیادی چیزوں پر مشتمل تھا۔ پیغمبر اکرم کے گھر میں ضروریات زندگی کا سارا سامان موجود تھا، لیکن مولا علی (ع) کے گھر میں ان میں سے بہت سی اشیاء کی کمی تھی ضرورت کی ساری چیزیں موجود نہیں تھیں۔
جناب سیدہ کی پہلی مشکل یہیں سے شروع ہوتی ہے، آج ہمارے معاشرے میں جب شادیاں ہوتی ہیں تو لڑکیاں پہلے سے لاکھوں کروڑوں کا سامان لڑکے کے گھر لے جانے کے لیے اکٹھا کرتی ہیں۔ یہیں سے گھر تباہ ہونا شروع ہوتے ہیں۔ اگر تمہارے پاس پیسے ہیں تب بھی مت دو۔ لڑکا لڑکی کو بھی لے جاتا ہے اور ساتھ میں سامان بھی ٹرک بھر بھر کر لے جاتا ہے۔ کیوں؟ اس کے بجائے خود شوہر کو گھر کا انتظام کرنے دیں۔
بی بی زہرا کی سادہ زیستی
بی بی فاطمہ (س) اور حضرت علی (ع) کے لیے بستر صرف بھیڑ کی خشک کھال تھی، جو دن میں اونٹ کو چارہ اور رات کو سونے کے لیے استعمال کی جاتی تھی۔ آج ایسی سادگی کون برداشت کر سکتا ہے؟ مادیت پسند افراد اکثر دولت، سجاوٹ اور عیش و آرام کی اشیاء کو اپنی بڑھائی کے طور پر پیش کرتے ہیں جبکہ حقیقی قدر و منزلت مال سے نہیں کردار ملتی ہے۔ ایک نیک آدمی مادی اشیاء کی فراوانی کے بغیر ترقی کر سکتا ہے۔ حضرت فاطمہ (س) اور علی (ع) نے انکساری کی زندگی بسر کی، اور ان کے حالات اس وقت قدرے بدلے جب رسول اللہ (ص) نے فدک انہیں ہبہ کیا اور فدک آپ کو معلوم ہے کہ آٹھویں ہجری میں خیبر فتح ہوا اور اس کے بعد فدک بی بی کو دیا گیا یعنی رحلت رسول اکرم سے دو سال قبل، لیکن اس کی آمدنی کا بھی بہت بڑا حصہ غریبوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھا۔ بی بی نے اپنی بیشتر زندگی مشکلات میں گزاری ہے اور گھر کا سارا کام بھی اکیلے کیا ہے۔
بی بی زہرا(س) کی رسول خدا سے کنیز کی فرمائش
ایک موقع پر جب کنیزوں کا ایک گروہ جنگی قیدیوں کے طور پر لایا گیا تو مولا علی اور حضرت فاطمہ (س) نے پیغمبر اکرم (ص) سے اپنے لیے ایک کنیز کی درخواست کی۔ پیغمبر (ص) نے جواب میں انہیں کہیں زیادہ قیمتی چیز پیش کی اور وہ تسبیح حضرت زہرا(س) ہے، جس سے اندرونی سکون حاصل ہوتا ہے اور مادی ضروریات کی اہمیت کم ہوتی ہے۔ اپنی پوری زندگی میں، انہوں نے کبھی علی (ع) سے اپنے حالات کی شکایت نہیں کی۔ جب علی (ع) نے ان سے پوچھا کہ آپ اتنی سختی میں ہیں تو کسی چیز کا مطالبہ کیوں نہیں کرتیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے والد رسول خدا (ص) نے انہیں ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے شوہر سے وہ مطالبہ نہ کریں جو وہ فراہم نہیں کر سکتے۔ بی بی زہرا کو رونے والی خواتین کیا اس بات کا لحاظ رکھتی ہیں کہ اپنے شوہروں سے ایسی چیزیں نہ مانگیں جن کو مہیا کرنے میں انہیں ذلیل و رسوا ہونا پڑے۔
جناب زہرا(س) کی اللہ سے تین حاجتیں
بی بی دوعالم کی شادی کے ایک دو روز بعد، پیغمبر اکرم (ص) نے علی (ع) سے پوچھا کہ آپ نے فاطمہ (س) کو کیسے پایا؟ انہوں نے جواب دیا : ’نعم العون فی طاعۃ اللہ‘ اللہ کی اطاعت اور بندگی میں وہ بہترین ساتھی ہیں۔ اور یہی ہوا مولا علی نے بی بی زہرا کی مدد سے اللہ کی بندگی کا حق ادا کیا اور دونوں پروردگار عالم کی اطاعت اور بندگی میں اس مقام پر فائز تھے کہ ایک دن جبرائیل امین پیغمبر اکرم (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سلام کہا، رسول اللہ نے پوچھا کیا پیغام لائیں ہیں؟ فرمایا کہ آج آپ کے لیے نہیں آج بی بی زہرا کے لیے مجھے بھیجا گیا ہے۔ اللہ نے فرمایا ہے کہ جاؤ فاطمہ سے پوچھو کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔ آپ غور کریں وہ بی بی جس کے گھر میں زندگی گزارنے کے لیے کچھ نہیں ہے ابتدائی سے ابتدائی چیزیں بھی فراہم نہیں ہیں بچوں کے لیے کھانا بھی نہیں ہے آج اللہ نے انہیں اختیار دیا ہے کہ جو مانگنا چاہتی ہو مانگ لو۔ بی بی کی اعلیٰ شخصیت کا اندازہ لگائیں۔ پیغمبر اکرم نے بی بی سے کہا کہ جبرئیل اللہ کی جانب سے آپ کے لیے بھیجے گئے ہیں کہ آپ کا پیغام لے کر اللہ کی بارگاہ میں جائیں تو بتائیے آپ کو کیا چاہیے؟ فرمایا مجھے اللہ سے تین چیزیں چاہیے۔ جب تک میں زندہ رہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرے کی زیارت کرتی رہوں، زندگی بھر قرآن مجید کی تلاوت کرنے کا شرف ملتا رہے، اور تیسری چیز یہ ہے کہ جب میرے دروازے پر کوئی فقیر آئے تو خالی نہ جائے۔ اور ایسا ہی ہوا جب بھی کوئی فقیر دروازے پر آیا کبھی خالی ہاتھ واپس نہیں گیا وہ جو کچھ بھی دے سکتی تھی وہ دیتی تھی، یہاں تک کہ اگر کھانا نہیں ہوتا تھا گھر کی کوئی دوسری چیز اٹھا کر دے دیتی تھیں، ایک دن ایک فقیر کو اپنی چادر اٹھا کر دے دی پھر بعد میں جناب مقداد کو پتا چلا تو انہوں نے فقیر کو پیسے دے کر چادر واپس لا کر بی بی کو دی۔ کائنات کی مثالی خاتون کا یہ عظیم کردار ہے۔ جسے دنیاوی مال کی نہ لالچ ہے نہ حسرت ہے۔ جب اللہ کچھ طلب کرنے کا موقع بھی دیتا ہے تو کیا طلب کرتی ہیں رسول اللہ کی زیارت، قرآن کی تلاوت، اور فی سبیل اللہ انفاق۔ یہ مصائب میں گری ہوئی بی بی اندر سے کمالات سے بھری ہوئی ہیں اسی لیے پروردگارعالم نے انہیں کائنات کی انسانیت کے لیے رول ماڈل بنایا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں سیرت اہل بیت(ع) اور خصوصا بی بی زہرا(س) کی سیرت اپنانے کی توفیق عطا فرمائے۔
خطبہ 2
تقویٰ سے عاری زندگی میں ظلم و تشدد کا رول
آج اگر ہم غزہ، بیروت، کشمیر، ہندوستان اور میانمار جیسے مقامات پر نظر ڈالیں تو ہم ان لوگوں کی بربریت کا مشاہدہ کرتے ہیں جو تقویٰ سے محروم ہیں۔ حضرت فاطمہ (س) نے بھی تقویٰ سے عاری افراد کا سامنا کیا۔ تقویٰ کے ذریعے ہی انسانیت کی حفاظت ہوتی ہے، نہ کہ محض مذہبی رسومات کے ذریعے۔ تاریخ ظالموں سے بھری پڑی ہے، اور ظلم کی شدت اکثر مظلوم کی شناخت کی عکاسی کرتی ہے۔ انبیاء نے بے پناہ ظلم و ستم برداشت کیا۔ مثال کے طور پر، جناب یحییٰ کو ایک کھوکھلے درخت کے اندر زندہ دفن کر دیا گیا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا کہ آپ کو جن مصائب کا سامنا کرنا پڑا وہ تمام انبیاء میں بے مثال تھے۔ یہ امتیاز ایسی عظیم شخصیات کو پہنچنے والے مصائب کی نوعیت میں ہے۔
رسول خدا کی جناب زہرا کو تکلیف نہ پہنچانے کی تاکید
جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسی قابل احترام ہستیوں پر ظلم کیا جاتا ہے تو اسے خاص طور پر گھناؤنا سمجھا جاتا ہے۔ آزمائشوں کا سامنا کرنے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی شکایت نہیں کی۔ اس کے بجائے، انہوں نے کہا کہ اگر کوئی فاطمہ (س) کو اذیت پہنچاتا ہے تو ان کے لیے سب سے زیادہ تکلیف دہ آزمائش ہوگی۔ اپنی پوری زندگی میں، انہوں نے اپنے اصحاب پر زور دیا کہ وہ ان کی بیٹی کے ساتھ حسن سلوک اور احترام سے پیش آئیں۔ جب جناب خدیجہ (س) بستر مرگ پر تھیں تو انہوں نے آخری لمحات میں پیغمبر اکرم (ص) کو اپنے پاس بلایا اور آپ کی رضامندی کے حوالے سے یقین حاصل کیا۔ پیغمبر اسلام (ص) روئے، اور جناب خدیجہ نے اپنی آخری خواہش کا اظہار کیا کہ ان کے بعد ان کی جوان بیٹی فاطمہ (س) کو کوئی اذیت نہ پہنچائے۔
جناب خدیجہ (س) کو اس کا اندازہ کیسے ہوا؟ وہ پیغمبر اکرم(ص) کے دل میں ایک خاص مقام رکھتی تھیں اور پیغمبر اکرم اکثر انہیں فاطمہ(س) کے ذریعہ یاد کرتے تھے۔ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنے اصحاب کو خبردار کیا کہ فاطمہ کو تکلیف پہنچانے سے انہیں اور خدا کو تکلیف پہنچے گی۔ لیکن وہ دن بھی آیا جب فاطمہ (س) کو بے پناہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ مسجد نبوی میں اصحاب مجمع میں دربار خلیفہ میں خطبہ دینے کے بعد، وہ روتے ہوئے علی (ع) کے پاس واپس آئیں، اور اس بات کا اظہار کیا کہ نہ صرف ان کے حقوق سے انکار نے انہیں تکلیف دی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی پہچان اور احترام سے انکار کیا گیا تھا۔ گہرے دکھ کے ساتھ، انہوں نے ایک دل دہلا دینے والا بیان دیا جو اگلے 25 سالوں تک علی (ع) کو رلانے کے لیے کافی تھا: “کاش میں اس دن سے پہلے مر جاتی اور اپنی برادری کے ہاتھوں اس طرح کی غداری نہ دیکھتی۔”
جناب زہرا پر ظلم و تشدد کا آغاز
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس دن بھی شدید غم و اندوہ محسوس کیا۔ پھر وہ لمحہ آیا جب وہ فاطمہ (س) کے دروازے پر پہنچے اور علی (ع) سے باہر آنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت فاطمہ (س) نے پوچھا تم کون ہو؟ کیا تم مسلمان ہو؟ کیا تمہیں احساس ہے کہ تم کس کے دروازے پر ہو؟ میں فاطمہ ہوں، وہی فاطمہ ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عزت دی اور میرے احترام میں اپنی جگہ چھوڑ دیتے اور مجھے اپنی جگہ بٹھاتے۔ پھر بھی، انہوں نے دروازہ نہ کھولنے کی صورت میں اسے جلانے کی دھمکی دی۔ انہوں نے انتظار نہیں کیا اور دروازے پر آگ لگا دی۔ مدینہ کا پورا شہر خاموشی سے دیکھتا رہا، کوئی مدد کے لیے نہیں آیا۔ جب دروازہ نہ اکھڑا تو انہوں نے اسے لات ماری دروازہ جناب فاطمہ پر گرا جس نے فاطمہ (س) کو زخمی کر دیا۔ بی بی اپنی کنیز، فضہ کو پکارا، مدد کی التجا کرتی، سر پیٹ لیا میرا ’’محسن شہید ہو گیا، اور میں زخمی ہوں۔‘‘ بی بی (س) نے فضہ سے کہا: خبردار علی کو میرے زخموں کا پتا نہ چلے، علی پہلے ہی رنجیدہ ہے علی پہلے ہی تنہا ہے علی کی ایک مدافع تھی وہ بھی زخمی ہو گئی، اور نہیں بتایا۔ یہ کب پتا چلا کہ زہرا زخمی ہے اس وقت جب زہرا کو غسل دے رہے تھے علی چیخ مار کر رو پڑے ہائے زہرا کا پہلو شکستہ ہے، زہرا نے مجھے نہیں بتایا۔
الا لعنۃ اللہ علی القوم الظالمین