جنگی قوانین کی خلاف ورزیوں پر اسرائیل کے خلاف پابندیاں لگانے کا مطالبہ

انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے چار غیرجانبدار اطلاع کاروں نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی جنگی کارروائیوں پر اس کے خلاف پابندیاں عائد کرے اور عالمی نظام انصاف پر اعتماد کی بحالی کو یقینی بنائے۔

فاران: انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے چار غیرجانبدار اطلاع کاروں نے عالمی برادری سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ فلسطینی علاقے میں اسرائیل کی جنگی کارروائیوں پر اس کے خلاف پابندیاں عائد کرے اور عالمی نظام انصاف پر اعتماد کی بحالی کو یقینی بنائے۔

ان کا کہنا ہے کہ جنگی اصولوں کے اطلاق میں دہرے معیار اور ان کی انتہائی سخت تشریح کا خاتمہ ہونا ضروری ہے۔ غزہ میں جاری جنگ میں بین الاقوامی قانون کی جس طرح خلاف ورزی ہوئی ہے اس کی حالیہ عسکری تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔
اس دوران شہریوں کو دانستہ طور پر حملوں کا نشانہ بنایا گیا ہے، شہری آبادی پر اندھا دھند اور غیرمتناسب شدت کے حملے کیے گئے ہیں، لوگوں کو بھوکا اور انسانی امداد سے محروم رکھا گیا، سول سوسائٹی کے اداروں کو جبر کا نشانہ بنایا گیا ہے اور عسکری و غیرعسکری نظام انصاف نے ایسے جرائم کے ذمہ داروں کا محاسبہ نہیں کیا۔

فلسطینی مسئلے حتمی حل کی شرائط

مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار فرانچسکا البانیز نے دیگر ماہرین کے ساتھ جنیوا میں مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ بین الاقوامی قانون کے تحت فلسطینی مسئلے کو حتمی طور پر حل ہونا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے فلسطینیوں کی نسل کشی کا سلسلہ فوری طور پر روکا جانا، سلامتی کونسل کی دی ہوئی ڈیڈ لائن کے مطابق مقبوضہ علاقوں پر اسرائیل کا قبضہ آئندہ ستمبر تک ختم ہونا اور عالمی عدالت انصاف کی قانونی رائے کی تعمیل کرنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کے متعدد رکن ممالک فلسطینیوں کے علاقے پر قبضے اور ان کے خلاف جبر پر خاموش ہیں۔ یہ ممالک یا تو فلسطینیوں کی مزاحمت کو دہشت گردی قرار دیتے ہیں یا اسے ایک ایسی آبادی کا غصہ سمجھتے ہیں جو عالمی برادری کی جانب سے ان کے طے کردہ مقدر کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں ہے۔

عالمی قوانین کی سخت ترین تشریحات

انسداد دہشت گردی کے اقدامات میں انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے تحفظ اور فروغ پر اقوام متحدہ کے خصوصی رابطہ کار بین سول نے کہا کہ گزشتہ 14 ماہ سے غزہ میں جاری جنگ کے دوران اسرائیل نے فلسطینیوں کے خلاف اپنے انتہائی سنگین تشدد کو انسداد دہشت گردی کے اقدامات کہہ کر قابل جواز بنانے کی کوشش کی ہے۔

اس کی جانب سے غیرمعمولی سطح کے تشدد کا جواز پیش کرنے کے لیے بین الاقوامی قانون اور انسانی حقوق کے قانون کی جو سخت ترین تشریحات کی جا رہی ہیں اس پر دنیا نے زیادہ توجہ نہیں دی۔

انصاف کے مساوی اطلاق کا مطالبہ

ججوں اور وکلا کی آزادی پر اقوام متحدہ کی خصوصی اطلاع کار مارگریٹ سیٹر وائٹ نے پریس کانفرنس سے اپنے خطاب میں بین الاقوامی انصاف پر بات کرتے ہوئے نسل کشی، جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کے محاسبے پر زور دیا۔ انہوں نے امریکہ کے حکام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ وہ اشتعال انگیز دھمکیوں سے عدالت کو کمزور کر رہے ہیں جبکہ بین الاقوامی انصاف کا سبھی پر مساوی اطلاق ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ایسے دہرے معیارات کا خاتمہ کرنا ہو گا۔ یا تو دنیا میں تمام ممالک کے ساتھ انصاف ہو گا یا انصاف کا سرے سے ہی کوئی وجود نہیں ہو گا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بعض ممالک کے لوگوں کو انصاف میسر ہو اور دوسرے اس سے محروم رہیں۔

دو سطحی عالمی نظام کا خطرہ

اس موقع پر جمہوری و منصفانہ بین الاقوامی نظام کے فروغ پر اقوام متحدہ کے خصوصی اطلاع کار اور یونان کے سابق وزیر خارجہ جارج کیتروگالوس کا کہنا تھا کہ عالمی اصولوں کی خلاف ورزی پر تادیبی کارروائی نہ ہونے کے خطرناک دور رس نتائج ہوں گے۔

انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل کے اقدامات سے دنیا میں دو سطحی نظام تشکیل پانے کا خدشہ ہے جس میں بعض ممالک سب کچھ کرنے کے لیے آزاد ہوں گے۔ حکومتوں کو اپنی قانونی ذمہ داریوں کے احترام پر مجبور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ انسانی حقوق کے دفاع کے لیے عزم کو مضبوط کیا جائے اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی جائے۔

غیر جانبدار ماہرین و اطلاع کار

غیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔