جو بائیڈن کے یہودیت کے ساتھ تعلق کے پانچ حقائق

سنہ 2010ع‍ میں، بائیڈن ـ جو ایک تجربہ کار شخص تھا ـ جان گیا تھا کہ مقبوضہ علاقوں کے بارے میں غیر محسوس مقابلہ، میز پر مکا مارنے سے زیادہ مؤثر ہے۔ اس نے اسرائیل کا دوستانہ دورہ کیا اور اس کا منہ اس وقت کھلا کا کھلا رہ گیا جب اسے معلوم ہؤا کہ بنیامین نیتن یاہو نے مشرقی قدس میں نئے تعمیراتی منصوبوں کا وعدہ دیا ہے اور نیتن یاہو کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت کا اہتمام کیا۔

فاران: جو بائیڈن کھیتولک باپ کا کیتھولک بیٹا جو کبھی کبھار ہاتھ سے صلیب کا نشان بھی بناتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اگر اپنے مذہب کے سلسلے میں اپنے شک و شبہے پر غلبہ پاتا تو آج کس مذہب سے وابستہ ہوتا۔
امریکہ کے اس سابق نائب صدر نے سنہ 2016ع‍ میں ایک سیاسی حلقے میں ـ جب اجلاس کے شرکاء میں سے ایک شخص نے ان کو mensch کا نام دیا (جس کے معنی اشکنازی یہودیوں کی زبان میں “شریف انسان” کے ہیں) ـ کہا تھا:
“اگر میں اپنا مذہب تبدیل کرنا چاہوں، تو خوب جانتا ہوں کہ کیا کروں”۔


بائیڈن نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بڑی تعداد میں یہودی ٹوپی “کیپہ” کے بارے میں بات کی جو اس نے یہودیوں کی مجالس سے جمع کی تھیں!
صرف خدا جانتا ہے کہ اس نے یہ ٹوپیاں کن لوگوں سے جمع کر دی تھیں، اور یہودیت کے ساتھ ان کے گہرے رشتوں کے ساتھ ان ٹوپیوں کا تعلق کیا ہے! سینٹ میں اس کی رکنیت کے زمانے میں اس کے سب سے پہلے دوروں میں سے ایک اس کا دورہ مقبوضہ فلسطین تھا، یہ 1973ع‍ کی عرب ـ اسرائیل لڑائی کی آمد آمد پر انجام پایا تھا۔
یہ مسئلہ اس وقت مزید دلچسپ ہو جاتا ہے کہ ہم جان لیں کہ بائیڈن ڈیلاویئر (Delaware) کا نمائندہ ہے اور اس ریاست میں یہودیوں کی تعداد 15000 سے بھی زیادہ ہے۔
بائیڈن کی یہودیت سے تعلق کا پس منظر کتنا گہرا ہے؟ اس قدر گہرا کہ اس کے بارے میں یہودیت پسندی کے پانچ حقائق کا انتخاب بہت مشکل ہے۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم ترین حقائق پر روشنی ڈالتے ہیں:
1۔ بائیڈن نے اسرائیل کی حمایت کا سبق باپ سے سیکھا ہے!
جو بائیڈن 1942ع‍ میں پیدا ہؤا ہے، وہ اپنے دکاندار باپ سر جوزف کے ساتھ اپنی یادیں سنانے اور 1948ع‍ میں اسرائیل نامی نئی [غاصب] ریاست کے قیام اور موجودگی کی حمایت میں اس کے جھگڑوں کی یاددہانی کرانے کا بہت شوقین ہے۔
وہ تفصیلات بیان کرتے ہوئے مبالغہ آرائی کرتا ہے اور [اپنی] ایسی متنازعہ آئرش ـ امریکی تربیت کی بات کرتا ہے، جس پر بات کرنا عوام کے لئے بھی دلچسپ تھا اور لوگ اسے رات کی روٹی سے بھی زیادہ ضروری سمجھتے تھے۔
بائیڈن نے سنہ 2013ع‍ میں [سب سے بڑی امریکی یہودی لابی] اے آئی پی اے سی (American Israel Public Affairs Committee [AIPAC]) کے سالانہ اجلاس میں کہا تھا:
“جیسا کہ آپ میں سے کچھ لوگ جانتے ہیں، میری تعلیم کا آغاز رات کے کھانے کی میز سے، میرے باپ کے ذریعے، ہؤا؛ حقیقت یہ ہے کہ آپس میں بات چیت کے لئے ہمارے آبائی خاندان میں ہم رات کے کھانے پر میز پر اکٹھے ہو جاتے تھے، ، گوکہ کھانا بھی کھاتے تھے۔ اسی میز پر ہی میں نے پہلی بار یہ عبارت سنی کہ “Never again” (دوبارہ ہرگز نہیں) جس کے معنی آج بھی بہت ساروں کو معلوم نہیں ہیں۔ میں نے اسی میز پر سیکھا کہ یہ واقعہ دوبارہ نہ دہرائے جانے کا واحد اطمینان بخش راستہ یہ ہے کہ اسرائیل نامی ایک ریاست قائم کی جائے جو یہودیوں کا محفوظ ملک ہو!۔ مجھے یاد ہے کہ میرا والد ایک عیسائی تھا، اور دوسری عالمی جنگ کے بعد شروع ہونے والے تنازعات اور مباحث سے پریشان ہو گیا تھا”۔ وہ پریشان اس لئے تھا کہ سب اس ریاست کے خلاف تھے۔


2۔ گولڈامیئر کی کہانی
گولڈا میئر [جو (Golda Meir = Golda Mabovitch) یوکرینی نژاد امریکی ـ اسرائیلی سیاستدان تھی] کے ساتھ یہودی حلقوں میں بائیڈن کے عیش و نوش کی کہانی ذرائع میں گردش کرتی رہتی ہے، شاید آپ نے بھی یہ ماجرا سن رکھا ہو، لیکن یہ قصہ بے بنیاد ہے۔

مجھے اطمینان دلانے دیجئے: جو بائیڈن گولڈا میئر کا دلدادہ ہے۔ بائیڈن نے 30 سالہ سینٹر کی حیثیت سے سنہ 1973ع‍ میں گولڈا میئر سے ملاقات کی تھی، اور اس کی اس ملاقات کی روداد، اس کی یہود نوازی پر مبنی تقاریر کے ایک بڑے حصے کو تشکیل دیتی ہے۔
بائیڈن نے عرب ـ اسرائیل جنگ [1973ع‍] کی آمد پر مقبوضہ فلسطین کا دورہ کیا اور اسے مقبوضہ علاقوں میں بھی لے جایا گیا اور امریکی شہریت کی حامل سیگریٹ نوش اسرائیلی وزیر اعظم میئر سے بھی ملاقات کی، جبکہ وہ نقشوں کا جائزہ لے رہی تھی۔ بائیڈن فوجی کشیدگی میں اضافے کی اس صورت حال کو نظر انداز نہیں کر سکتا تھا۔
میئر نے اپنے دفتر میں بائیڈن کے ساتھ ملاقات کے دوران اس سے کہا تھا کہ آؤ ایک تصویر اتروا دیں۔
بائیڈن نے سنہ 2015ع‍ میں اسرائیلی سفارتخانے کی خودمختاری کی سالانہ تقریب میں اس واقعے کو یوں یاد کیا:
“میئر نے کہا: “سینٹر تم بہت فکرمند نظر آ رہے ہو”۔ میں نے کہا: حقیقت یہ ہے کہ، مسز پرائم منسٹر!، اور جبکہ میں اسے دیکھ رہا تھا، اپنی جاری رکھتے ہوئے کہا: “آپ کی جو تصویری دکھائی گئی ہے، وہ میری فکرمندی کا باعث ہو گئی ہے”۔ اور ان نے کہا: “اوہ! فکر نہ کرو۔ عربوں کے ساتھ جنگ میں ہمارے پاس ایک خفیہ اسلحہ موجود ہے۔ یقین کرو کہ ہمارے لئے کوئی بھی جگہ نہیں ہے کہ یہاں سے چلے جائیں”۔


3۔ بائیڈن کا ایک یہودی خاندان بھی ہے؛
وہ لطیفہ گوئی بھی کرتا ہے، لیکن اس کو سادہ مت سمجھئے!
جو بائیڈن کی تین اولادیں ہیں، جو آج سب بالغ ہیں۔ اس کی پہلی بیوی نیلیا (Neilia) اور نائومی (Naomi) نامی بچی دونوں سنہ 1972ع‍ میں کار کے حادثے میں چل بسیں۔ یہ واقعہ اس کے سینٹر کے طور پر منتخب ہونے سے پہلے پیش آیا۔
ان کے دو بچوں نے یہودیوں سے شادی کر لی۔ نیلا بائیڈن سے پیدا ہونے والے بیو بائیڈن (Beau Biden)، کی شادی ہیلی اولیور (Hallie Olivere) سے ہوئی۔ دوسری بیوی جل بائیڈن (Jill Tracy Jacobs Biden) کی بیٹی ایشلی بائیڈن (Ashley Biden) کی شادی ہاورڈن کرین (Howard Krein) سے ہوئی۔ بائیڈن نے سنہ 2016ع‍ میں، اوہایو میں منعقدہ ایک سیاسی اجلاس میں کہا تھا:
“دراصل، میں آئرش نسل کا واحد کیتھولک ہوں جس نے اپنا خواب پورا کیا، کیونکہ میری بیٹی نے ایک یہودی سرجن سے شادی کی۔”
لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے گھرانے کو آسانی سے نظر انداز کیوں نہیں کرنا چاہئے؟ بیو بائیڈن سنہ 2015ع‍ میں کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہو کر چل بسا، جس کے بعد اس کی بیوہ ہیلی اولیور نے اپنے چھوٹے دیور ہنٹر بائیڈن کے ساتھ عاشقانہ تعلقات استوار کر لئے، ہنٹر بھی بائیڈن کے پہلی بیوی نیلیا کا بیٹا ہے۔ ہنٹر اس سے پہلے اپنی پہلی بیوی کیتھلین (Kathleen) سے علیٰحدگی اختیار کی تھی۔ یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ عاشقانہ تعلق اس علیٰحدگی میں مؤثر تھا یا نہیں۔ سنی سنائی باتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ہنٹر کے ساتھ ہیلی کا تعلق اختتام پذیر ہو چکا ہے۔
تھوڑا صبر کیجئے، ابھی بات باقی ہے۔ ڈیلی میل کی رپورٹ کے مطابق، جو بائیڈن نے اعتراف کیا تھا کہ جب وہ ریاست ڈیلاویئر کے شہر ویلمینگٹن (Wilmington) میں قیام پذیر تھا، تو اس وقت وہ ہیلی کی ماں جوآن (Joan) پر عاشق ہو گیا تھا۔
بائیڈن نے سنہ 2015ع‍ میں ڈیلاویئر میں ایک یہودی محفل میں کہا تھا:
“میں ایک کیتھولک بچہ تھا اور وہ ایک یہودی لڑکی تھی، یہ صرف ایک احساس اور ایک جذبہ تھا، اور میں نے کوئی اقدام نہیں کیا!”۔


4۔ بائیڈن ـ بیگن کی کہانی، بائیڈن – گولڈا کہانی سے مختلف
سنہ 1982ع‍ میں اس وقت کے اسرائیلی وزیر ا‏عظم مناخم بیگن (Menachem Begin) نے واشنگٹن کا دورہ کیا اور سینٹرز سے ملاقات کی۔ اسرائیلی وزیر اعظم سے لبنان پر خونی جارحیت کے بارے میں پوچھا گیا تو وہ تتلاہٹ کا شکار ہؤا، لیکن جب بائیڈن نے مغربی کنارے میں مقبوضہ علاقوں کے مسلسل پھیلاؤ کے بارے میں منہ کھولا اور کہا کہ “نئی نوآبادیاں، اسرائیل کے تئیں واشنگٹن کی پشت پناہی میں کمی کا باعث بن رہی ہیں”، تو وہ کچھ سنبھل گیا۔ کہا جاتا ہے کہ بائیڈن نے بات چیت کے دوران میز پر ہاتھ مارا۔ تو بیگن نے جو جواب دیا وہ اس کے بہی خواہوں کے درمیان دہرایا جاتا رہا۔ ایک قابل اعتماد شخص نے سنہ 1992ع‍ میں بیگن کی موت کے فورا بعد لکھا کہ اس نے بائیڈن کے جواب میں کہا تھا:
“یہ میز لکھنے کے لئے بنی ہے، مکا مارنے کے لئے نہیں! ہمیں امداد کم کرنے کی دھمکی مت دو۔ تم سمجھتے ہو کہ چونکہ امریکہ ہمیں قرضہ دیتا ہے، تو وہ کیا ہمارے لئے فرائض کے تعین کا حق بھی رکھتا ہے؟ ہم وصول کردہ امداد کی قدر کرتے ہیں، لیکن دھمکی برداشت نہیں کریں گے۔ میں ایک شریف یہودی ہوں، میرے پیچھے ایک تین ہزار سالہ تہذیب ہے، اور تم جناب مجھے ان دھمکیوں سے مرعوب نہیں کر سکتے ہو”۔
بائیڈن کو کافی حد تک سبق مل چکا تھا۔ اس نے دو سال بعد امریکی ہیروٹ صہیونیوں (Herut Zionists of America) کے سالانہ اجلاس میں شرکت کی۔ اس جماعت کی بنیاد بیگن نے رکھی تھی۔ بائیڈن نے اس اجلاس میں شرکت کرکے مشرق وسطیٰ امن کے عمل کے حوالے سے سعودی عرب، اردن اور تنظیم آزادی فلسطین (Palestine liberation Organization [PLO]) میں پیش آنے والے تعطل پر کڑی نکتہ چینی کی اور وعدہ کیا کہ: “نئی سینٹ میں میرا ایجنڈا یہ ہوگا کہ اپنے ساتھیوں کو کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے سلسلے میں اسرائیل کی مالی قربانی کے بارے میں آگاہ کروں”۔
سنہ 2010ع‍ میں، بائیڈن ـ جو ایک تجربہ کار شخص تھا ـ جان گیا تھا کہ مقبوضہ علاقوں کے بارے میں غیر محسوس مقابلہ، میز پر مکا مارنے سے زیادہ مؤثر ہے۔ اس نے اسرائیل کا دوستانہ دورہ کیا اور اس کا منہ اس وقت کھلا کا کھلا رہ گیا جب اسے معلوم ہؤا کہ بنیامین نیتن یاہو نے مشرقی قدس میں نئے تعمیراتی منصوبوں کا وعدہ دیا ہے اور نیتن یاہو کے ساتھ ڈیڑھ گھنٹے تک بات چیت کا اہتمام کیا۔


5۔ بائیڈن جانتا تھا کس سے بات کر رہا ہے!
بائیڈن نے سنہ 2013ع‍ میں ـ امریکی نائب صدر کی حیثیت سے ـ دو مہینوں تک [انتہاپسند صہیونی لابی] اے آئی پی اے سی کے ساتھ بات چیت کی اور اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے سلسلے میں پالیسی سازیوں سے تعلق رکھنے والے لبرل یہودیوں کی تنظیم (J Street) [آئی پی اے سی تضاد رکھتی ہے] کے ساتھ بات چیت کا سلسلہ جاری رکھا۔ مارچ 2013ع‍ کے آغاز پر آئی پی اے سی کے اجلاس میں اس کی تقریر کا خلاصہ یہ تھا کہ “نیتن یاہو سمیت اسرائیلی زعماء امن کے خواہاں ہیں، اور عربوں کو قدم بڑھانا چاہئے”۔ بائیڈن کا کہنا تھا:
“اسرائیلی راہنما موجود صورت حال میں امن و آشتی کی ضرورت سے بخوبی آگاہ ہیں۔ وزیر اعظم نیتن یاہو، وزیر دفاع ایہود باراک (Ehud Barak)، صدر شمعون پیرز سب ایک دو طرفہ راستے کے خواہاں ہیں، وہ ایک پرامن، جمہوری اور یہودی اسرائیل کا قیام چاہتے ہیں، جو خودمختار فلسطینی ریاست کے ساتھ، اپنی باہمی حیات جاری رکھ سکے۔ لیکن ایک ہاتھ سے تالی نہیں بجتی، چنانچہ باقی عرب دنیا کو بھی میدان میں آنا چاہئے”۔
اسی سال ماہ اپریل کے وسط میں میں جے اسٹریٹ کے اجلاس میں بائیڈن کے خطاب کا خلاصہ یہ تھا کہ “نیتن یاہو نے ریاست کو غلط راستے پر ڈال دیا ہے”۔ اس کا کہنا تھا:
“میں پورے یقین سے کہتا ہوں کہ اسرائیل نے چند برسوں میں جو اقدامات اٹھائے ہیں: نوآبادیوں کو مسلسل اور منظم انداز سے پھیلا دیا ہے، جاسوسی کے اڈوں کو قانونی حیثیت دی ہے، ان کے املاک (زمینوں، گھروں اور عمارتوں) پر قبضہ کیا ہے اور یوں اس [اسرائیل] نے ہمیں، اور ہم سے زیادہ اہم خود اسرائیل کو گمراہ کرکے غلط راستے پڑ ڈال دیا ہے”۔


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بقلم: صہیونی صحافی ران کیمپیس (Ron Kampeas): رون کمپیاس واشنگٹن، ڈی سی یہودی ٹیلی گرافک ایجنسی (جے ٹی اے) کا بیورو چیف اور امریکی دارالحکومت میں یہودیوں کے مسائل کی کوریج کو مربوط کرنے اور یہودی دنیا کو متاثر کرنے والے مسائل تجزیہ کار ہے۔

منبع: The Times of Israel
https://www.timesofisrael.com/5-jewish-things-to-know-about-joe-biden/amp/